Sunday, February 21, 2016

ایف سی کیمپ کے سامنے بیٹھی بلوچ ماں کی فریاد


تحریر شہداد بلوچ
گزشتہ دس دنوں سے مسلسل اک ضعیف العمر بلوچ ماں بلوچستان کے علاقے مند سورو میں واقع ایف سی کیمپ کے مین گیٹ کے سامنے خاندان کی چند خواتین و بچوں کے ہمراہ بیٹھی ہوئی ہیں جو کہ مند گیاب کی رہائشی ہیں ۔ دشمنوں کے بچوں کو تعلیم دینے کے علمبردار اس بوڑھی ماں کے چشمِ چراغ کو اُٹھا لے گئے جو کہ محدود وسائل کے باوجود اپنے قوم کے بچوں کو علم کے زیور سے آراستہ کررہا تھا۔ اُستاد منیر راہشون جو کہ مند گیاب میں واقع اسکول کے ٹیچر ہیں جنہیں رواں سال گیارہ فروری کو ایف سی اہلکاروں نے اسکول میں گھس کر شدید زد و کوب کے بعد بچوں کے سامنے بندوقیں لہراتے ہوئے اپنے ساتھ اُٹھا کر لے گئے تھے۔
اُستاد منیر راہشون کی ایف سی کے ہاتھوں اغوا نما گرفتاری کی خبر جوں ہی اہلخانہ کو دی گئی تو اُستاد منیر راہشون کی ضعیف والدہ خاندان کی کچھ عورتوں و بچوں سمیت مند سورو میں واقع ایف سی کیمپ پہنچ گئیں، گزشتہ دس دن سے مسلسل کیمپ کے مین گیٹ کو اپنے بیٹے کی رہائی کے لئیے دستک دے رہی ہیں، التجائیں کررہی ہے، دُعائیں مانگ رہی ہے، قرآن پاک کی تلاوت کررہی ہے،بوڑھی ماں سمجھ رہی ہے کہ شاید کلامِ پاک کی آواز اایف سی کیمپ میں موجود مومن مسلمان ایف سی افسران کے کانوں میں پڑنے سے اُنکے دل موم ہوجائینگے ، کیونکہ وہ تو سب سے بڑے مسلمان ہیں، اسلام کے رکھوالے ہیں، کشمیر سے لیکر فلسطین کی ماؤں بہنوں کی حالتِ زار کو دیکھ کر اِن مجاہد افسران کے دل خون کے آنسو روتے ہیں تو پھر شاید کلام اللہ کی آواز انکے دلوں میں مجھ بے سہارا بوڑھی ماں کے لئیے بھی کچھ ہمدردی پیدا کرسکےاورمیرےبڑھاپےکےسہارے،علم کی شمعیں جلانے والے بیٹےکو چھوڑ دیں
دس دن گزر گئے ، پچاس فرض نمازیں ایف سی کیمپ کے سامنے آسمان تلے لاچار بوڑھی ماں نے ادا کیں ، نہ یاسین شریف کی بلند تلاوت نے انکے ایمان کو جنجھوڑا اور نہ ہی درود شریف سے انکی صحت پر کچھ فرق پڑا ، کیونکہ یہ راحیل شریف کے پیروکار اور نواز شریف کی جی حضوری کرنے والے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ بوڑھی ماں بخوبی جانتی ہے کہ بلوچستان میں بلوچ اُساتذہ کے ساتھ بندوق بردار وردی والے کیسا سلوک کرتے ہیں۔ اُستاد صبادشتیاری ، اُستاد زاہد آسکانی ،اُستاد عبدالرحمن عارف اور کئی دوسرے بلوچ اساتذہ کی مثالیں موجود ہیں جنہیں ریاستی خفیہ اداروں نے اسی وجہ سے قتل کردیا کیونکہ وہ بلوچ معاشرے میں علم و آگہی پھیلا رہے تھے پڑھا لکھا بلوچستان اُن قوتوں سے ہر گز برداشت نہیں ہوتا جو چوبیس گھنٹے صرف ایک ہی خواب دیکھتے ہیں، ’’ ہمارا خواب پڑھا لکھا پنجاب‘‘۔مسلسل نو دِنوں تک مند سور ایف سی کیمپ کے سامنے اپنے بیٹے کے باحفاظت رہائی کا مطالبہ کرنے والی ضعیف ماں نے گزشتہ دن تُربت شہر کا رُخ کیا اور اب وہ تُربت میں واقع ایف سی ہیڈ کوارٹر کے باہر سراپا احتجاج ہیں لاچار ماں اِس امید کے ساتھ تُربت آئی ہیں کہ شاید یہاں اُنکی سُنوائی ہوسکے گی ۔ دس دنوں سے آسمان تلے اپنے بیٹے کی رہائی کے لئیے احتجاج کرنے والی بوڑھی ماں کو میڈیا نے یکسر نظر انداز کیا ہے۔ زندہ ضمیر صحافیوں اور سول سوسائٹی کو چائیے کہ وہ ضعیف ماں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کریں اور انکے بیٹے کے فوری رہائی کے لئیے آواز اُٹھائیں۔ دشمن کے بچوں کو پڑھانے والے میٹرک فیل وردی والے پروفیسرز کی نظر میں اُستاد مُنیر راہشون کا گناہ صرف اتنا ہے کہ انُہوں نے اپنے قوم کے بچوں کی تعلیم کا زمہ اپنے کندھوں پہ اُٹھایا تھا۔

Sunday, February 14, 2016

فیصلہ

جس کاریز سے کل تک تم پانی پیتیں تھیں 
آج  اس  میں 
لہو ہے 
یا آنسو 
اب صدیوں تم کو 
پیاسا  رہنا ھوگا 

a.s

FAiz Ahmad Faiz recites his own Poetry

Saturday, February 13, 2016

تو کون ؟؟ ....... میں خوامخواہ

"سنیے!  آپ وہی ہیں نا جنکی پھوپھو کو پچھلے سال طلاق ہوگئی تھی " میری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اور منہ سے صرف ایک ہی لفظ نکلا " جی ؟ " حالانکہ لفظ  " جی  " میں استفسار تھا کہ محترمہ ہمسائی صا حبہ یہ تعارف کا طریقہ کس ملک کی ایجاد ہے مگر وہ کیونکہ پہلے ہی " باخبر " ذرا ئع سے تمام معلومات  اکھٹی کر چکی تھیں لہذا میری" جی" کو وہ میرا "اعتراف گناہ " سمجھیں! " ہاۓ ! سنا ہے سال بھر ہی ہوا تھا، اتنی دیر سے کیوں شادی کی ؟" . " دیر سے " ؟ میں نے پوچھنا چاہا کہ وہ کس صدی سے ہمارے خاندان کی جاسوسی کر رہی ہیں . "  ہاں نا ، دیر ہی ہوئی ، کیونکہ آپکی پھوپھو ہیں اور آپکی عمر بھی کافی لگ رہی ہے ، ویسے آپ نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی ؟ ایک ڈیڑھ سال گزرگیا تو پھرکوئی نہیں پوچھے گا " . میں کونسا سوال ہوں جو کسی نے پوچھنا ہے ؟ میں نے بھی بدتمیزی کر ہی ڈالی ( کافی دیر نہیں ہوگئی انکے ڈرونز کا مقابلہ کرتے ، اب بس ) لیکن شاید انہیں اس بات سے زیادہ غرض تھی کہ اپنے بارود کو تیلی دیکھا کر اوجڑی کیمپ بنا ڈالیں ! میزایل اڑ ، اڑ کر دوسروں کو زخمی کریں تو انکے  دل کو اطمینان نصیب  ہو . " کوئی نوکری وغیرہ بھی کرتی ہو ، بہت پڑھ لینے والی لڑکیوں کا یہی مسلہ رہتا ہے" فی الحال تو سب سے بڑا مسلہ آپ ہیں جونان سٹاپ ٹرین کی طرح چلتی ھی جارہی ہیں شاید کسی ایکسیڈنٹ سے ھی آپکو بریک ملے گی ، میں نے یہ سب دل ھی دل میں کہا ! نیت تو یہی تھی کہ یہ سب جملے انکے گوش گزار کر دوں اور یہ بھی کہ جب بولیں تو دوسرے کے دلی جذبات کا نہیں تو کم از کم چہرے کے تاثرات کا مشاہدہ تو کر لیا کریں مگر میری تمیز اور برداشت انکو " شے " دے رہی تھی  یہ تھیں پاکستانی معاشرے کا ایک "نارمل " سا کردار جو ہرمحلے ہر گلی ، ہر تعلیمی اور دفتری ادارے میں  نہ صرف پایا جاتا ہےبلکہ بدرجہ اتم پایا جاتا ہے.انکی پرورش ایک خاص "درجہ حرارت "میں ہوتی ہے جہاں "اسٹیرو ٹایپنگ " کے جراثیم پھلتے پھولتے ہیں انہی جراثیم نے ایسی خواتین ؤ حضرات کے ذہن پر مکمل قابو پایا ہوا ہے وہ نہ صرف اپنے ارد گرد کے ماحول کو اپنی ذہنی سطح سے دیکھتے ہیں بلکہ اگر کوئی مختلف طبا ئع کے افراد ان جراثیم شدہ افراد سے ٹکرا جائیں تو یہ زبردستی ان افراد کو اپنی سطح پر گھسیٹنے کی کوشش کرتے ہیں . 
  حقیقت یہ ہے کہ  وقت اور حالات بدلتے  رہتے ہیں آج دنیا وہ نہیں رہی جو آج سے 25 سال پہلے تھی ٹیکنولوجی نے لوگوں کی صورتیں تک تبدیل کر دی ہیں آج تو آپ صبح اپنی طو طے  سی ناک لے کر کاسمیٹک سرجری کی کسی "دکان " میں جائیں پیسے ہاتھ میں رکھیں اور شام کو ستواں ناک لے کر گھر واپس آجائیں ، جی مجھے معلوم ہے میں مبا لغه آرائی سے کام لے رہی ہوں لیکن یہ بھی دور حاضر کی ایک سوغات ہے سو جہاں سچ نایاب ،مبالغہ آرائی اور جھوٹ آسان نرخوں پر دستیاب ہوں وہاں معاشرے  میں "خوامخواہ " نسل کے لوگ بافراط پاۓ جاتے ہیں جیسی محترمہ کا میں ذکر کر چکی ہوں ویسی خواتین آپکو اندرون ملک کے علاوہ بیرون پاکستان بھی دستیاب ہیں گو کہ پاکستان سے باہر قدم رکھتے ھی وہ دوسروں پر سوالات کے ڈرونز کے ساتھ ساتھ اپنی "شیخیوں "کے میزایل بھی داغتی رہتی ہیں ایسی خواتین کے حساب کتاب سے وہ "کامیاب ترین " مخلوق ہوتی ہیں انہیں اس  "کامیاب زندگی "کے سارے گر آتے ہیں جوانکے بقول "نارمل " زندگی ہے یعنی 26 سال کا شوہر 18 سال کی بیوی اور دو بچے ؟ زندگی نہ ہوئی پی ٹی وی پر آنے والا 70 کی دہائی کا کوئی اشتہار ہوگیا !اسکے علاوہ جو بھی اس "اشتہار نما " زندگی سے دائیں بائیں ہوا وہ "ا بنارمل " کے زمرے میں آتا ہے اور اسپردر اندازی کرتے ہوۓ ڈرونز پھینکنا ہمارے معاشرے میں آج  یعنی سن ٢٠٢١ تک حلال ہے 
کسی کی اولاد نہ ہو، بیروزگاری ، طلاق یا کوئی جسمانی معذوری...  حالاں کہ یہ سب واقعات کسی کی بھی زندگی میں معمول کا حصہ ہو سکتے ہیں مگرہمارے معاشرے میں افراد کی زندگی میں لوگوں کی انفرادی دخل اندازی اور اجتماعی بے حسی ایسے میں فرد کی زندگی  کو مایوسی، بیزاری اور کبھی خودکشی کی طرف دھکیل دیتی ہے . 
حیرت کی بات یہ ہے کہ جب ہماری اپنی زندگی اس  معاشرے کی نظر میں " نارمل کٹ آوٹ " میں فٹ نہیں ہوتی تو ہم خود ایسے سوالوں سے جان چھڑا کر یا تو سوسایٹی سے کٹ جاتے ہیں یا پھر زیادہ ھی "ابنارمل " وقت پڑ جاۓ تو یورپ اور امریکہ کے "اپنے کام سے کام رکھو " ٹائپ معاشرے میں پہنچ جانے کی تگ ؤ دو شرو ع کر دیتے ہیں لیکن ہم میں سےیہ کوشش بہت کم لوگ کرتے ہیں کہ اپنےھی  معاشرے کو ایسے "خوامخوہ " جراثیم سے بیمارپڑے  لوگوں سے نجات دلائیں جو ہمارے مسلوں کا حل نہیں جانتے مگر کرید ، جستجو اور بے مقصد سوالات سے ہماری زندگیوں کو تکلیف دہ ضرور بنا دیتے ہیں ایسے لوگوں کے سوالات اور نکتہ چینیوں سے گھبرا کر بہت سے کارآمد وجود معاشرے سے کٹ کر بےمقصدیت کا شکار ہوجاتے ہیں 
 خود اذیتی یا خود رحمی جیسے نفسیاتی مسایل  انسان کی تخلیقی صلاحیتو ں پر منفی اثرات ڈالتے ہیں اور وہ معاشرے میں آپنا وہ کردار ادا نہیں کر سکتا جو کہ ایک آزاد اور خود اعتماد انسان کر سکتا ہے .
یوں بھی اگر آپ دوسرے کے لیے پسند نہیں کرتے کہ وہ آپکے گھر کی کھڑکیوں سے اندر جھانکے تو آپ خود کیوں کسی دوسرے کے دروازے سے کان لگاۓ کھڑے ہیں ؟اس سےاچھا  نہیں کہ آپ اپنے لیے کوئی بہتر مصروفیت ڈھونڈیں ؟
افسوسناک خبر یہ ہے کہ آج سے دس بارہ سال پہلے تک جو بیماری اپنے محلے کی  محترمہ اور محترم "خوامخواہ " کو تھی آج ہمارے مارننگ شوز کی ٹیموں کو ملکی سطح پر  لگ چکی  ہے  دنیا آگے جارہی ہے اور ہم پیچھے کی طرف تیزی سے دوڑ رہے ہیں 
مہذب دنیا اور ہمارے درمیان جو فاصلہ پہلے کچھ سالوں کا تھا اب بڑھ کر دہایوں کا ہوچکا ہےکیونکہ اب ہم مہذب دنیا کی دی ہوئی ٹیکنولوجی کے ذریعے جہالت پھیلا رہے ہیں مثلا '' ایک صاحبہ کیمرے اور مائیک سمیت شہر کے کونوں کھدروں میں چھاپے مارنا شروع ہوگیں ،سمارٹ فونز کے ذریعے بازاروں اور پارکس میں بیٹھے افراد کی سرگرمیوں کو انکی اجازت کے بغیر کبھی اینٹرٹینمنٹ چینلز اور کبھی نیوز چینلز تک پہنچا دیا جاتا رہا .
گھروں کا بھی یہی حال ہے مثلا ایک صاحبہ نے تو جاپان اور امریکہ کی مشترکہ کوشش کا "کامیاب تجربہ " کر ڈالا ، اپنے بھائی کے لیے  رشتہ لے کر آئیں گھروالوں کی اجازت کےبغیر گھرمیں چکرلگاتی ہوئی کچن میں کام کرتی  لڑکی کی تصویریں "اپلوڈ "کر کے بھائی تک پہنچا دیں کہ "اصلی مال " یہ ہے پھر شکایت نہ کرنا. اب کوئی آپ سے پوچھے کہ آپ نے جو آپنا اصلی مال" شہزادہ  یورپ میں گاڑیوں کا بزنس کرتا ہے"، کہہ کر جھوٹ کے پردے میں چھپا رکھا ہے اورجو حقیقت میں گیس اسٹیشن پرکھڑا آنےجانےوالوں سے ٹپ وصول کرتا ہے  اسکی "حقیقت" کب اپلوڈ  ہو رہی ہے ؟
 سوال یہ ہے کہ کیا ہم اسی جہالت کے ساتھ دنیا سے بحیثیت  قوم رخصت ہوجائیں گے ؟ کیونکہ ہم اخلاقیات کے پہآ ڑ پر چڑھنے کی کوشش نہیں کر رہے بلکہ اونچائی سے لڑھکتے ہوۓ نیچے کی طرف آرہے ہیں ایک دو افراد اس طرح اونچائی سے پھسلیں تو چڑھائی کی طرف جانے والے شاید سہارا دے دیں مگر یہاں تو ایک مجمع ہے اورافسوسناک حقیقت یہ ہے کہ  اسمیں ایسے ایسے دین و دنیا کے  ہیوی ویٹ لڑھکتے چلے آرہے ہیں کہ سنبھالنے والا بھی انکے بوجھ سے انہی کے ساتھ نیچےپستی میں گرتا چلا آ رہا ہے.
تعلیم تواب ڈگریوں سے لد جانے کا نام ہوچکی ہے یا جیب بھا ری ہونے کا اور بس 
ہم نے شعور اور آگہی سے اپنے  ذہنوں کو روشن کیا ہوتا تو ہم بھی مہذب معاشروں کی طرح دوسروں پر تنقید ،انکی زندگیوں میں دخل اور اجتماعی بے حسی کے ا علی شہکار بننے کی بجاۓ سوسایٹی کے مفید شہری بنتے اور یقینن ستر بہتر سال گزرنے کے بعد پیچھے کی طرف نہیں بلکہ آگے کی طرف سفر کرتے !   

Saturday, February 6, 2016

پنجاب میں خواتین کا استحصال

پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہےیہ پاکستان کی کل آبادی کا تقریبا 56 فیصد ہے
پاکستان بننے سے پہلے بھی پنجاب کے بیشتر شہروں میں اسکول ، کالجز تھے مگر لاہور جو کہ پنجاب کا دارالخلافہ ہے "کالجوں کا شہر " کہلاتا تھا آج بھی پنجاب اپنی 31 پبلک اور25 پرائیوٹ یونیورسٹیوں کے ساتھ پاکستان کے تعلیمی اداروں کے حوالے سے سب سے آگے ہے. اگر ان تعلیمی اداروں میں آسلام آ باد  کے سرکاری اور غیر سرکاری ، افواج پاکستان  سے وابستہ تعلیمی اداروں کو بھی شامل کر لیا جاۓ تو یہ تعداد تقریبا'' 75 بن جاۓ گی جو کہ بقیہ پاکستان کے تینوں صوبوں کی سرکاری تعلیم گاہوں کے مجموعے  سے بھی زیادہ ہے . صوبہ پنجاب میں یہ تعلیمی سہولیات جو انگریز کے دور میں ھی شر و ع ہوچکیں تھیں  پاکستان کے دارالخلافہ کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنےاورون یونٹ کےبننےسےمزید مستحکم ہوئیں .خواند گی کی جو شرح ١٩٩٨ میں 46 فیصد تھی ٢٠١٤ میں 75  فیصد ہوگئی
پاکستان کی طرح  پنجاب میں بھی  خواتین اور مردوں کی تعداد میں واضح فرق ہے یعنی یہ تناسب ہر 100 خواتین پر107 مرد ہیں. عمومی طور پرتو پنجاب کی خواتین  بھی تعلیم ، روزگار وغیرہ کی سہولتوں میں مردوں سے پیچھے ھی ہیں مگر پاکستان کے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں یہاں بہت زیادہ بہتری دیکھائی دیتی ہے اسی لیے ورلڈ ڈیویلپمنٹ انڈیکس میں بھی پنجاب (شہری و دیہی ) مجموعی انڈیکس 0.670  کی شرح کے ساتھ نمبر ون ہےدوسرے نمبرپرسندھ ،تیسرے پر    خیبرپختونخواہ  اورآخر پربلوچستان ہے. دیہی  اور شہری آبادی کے تناسب میں پچھلے 17 سال میں ایک حیرت انگیز تبدیلی برپا ہوئی سن ١٩٩٨ میں 31.3 فیصد آبادی پنجاب کے شہروں میں مقیم تھی جو ٢٠١٢ میں بڑھ کر 50.3 فیصد ہوچکی ہے 
سو آبادی ، انفراسٹرکچر ،تعلیم ، روزگار اور صحت عامہ کے حساب سے پنجاب اس وقت پاکستان کا بہترین خطہ زمین ہے یہاں   ٩٧ فیصد سے زیادہ عوام اسلام پر ایمان رکھتے ہیں
  ایک بہت ھی دلچسپ اعداد ؤ شمار پنجاب میں رہنے والی مختلف لسانی اکائیوں سے متعلق ہے یہاں 75 فیصد عوام پنجابی  ، زبان بولتے ہیں جبکہ 17.4 فیصد سرائیکی  اور اردو بولنے والوں کی تعداد صرف 4.5  فیصد. پنجاب بھر میں پشتو زبا ن . بولنے والے صرف  1.2  فیصد ہیں جبکہ  بلوچی اور سندھی زبان بولنے والےایک فیصد  افراد بھی یہاں  مقیم  نہیں . دوسری
 طرف اگر سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں پنجابی بولنے والی آبادی کا تناسب دیکھا جاۓ تو وہ بترتیب 7 فیصد، 3فیصد اور 4 فیصد ہے


پنجاب کے بارے میں یہ   اعداد ؤ شمار دینے کا واحد مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ صوبہ پنجاب نے پاکستان کے نامساعد سیاسی اور معاشی حالت کے باوجود اپنی تعلیمی صلاحیتوں ، معاشی کامیابیوں اور معاشرتی ناہمواریوں پر دوسرے صوبوں کی نسبت بہتر کنٹرول رکھا اسکی وجوہات کیا تھیں ؟ یہ  کسی اور نشست میں سہی مگر آج کی نشست میں الفاظ نہیں بلکہ اعداد ؤ شماراوروہ بھی ویزول ریپریزینٹیشن کے ساتھ تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو، ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ  ترقی کے ہرمیدان میں جھنڈے گاڑتےاس صوبے کی خواتین کیوں اسکے اپنے شہریوں کے ہاتھوں بربریت ؤ ظلم کا شکار ہیں وجوہات تو اس صوبے کی باگ ڈور سنبھالنے والے جانیں مگر ڈیٹا بتا رہا ہے کہ نہ 75 کے قریب ا علی تعلیمی ادارے نہ  بہتر شہری /دیہی  تقسیم اور نہ ھی سڑکوں ، پلوں ،میٹروکے شاندار  جال  اور نہ  رنگ برنگی ٹیکسی ، رکشہ کے معاشی مضبوطی
پھیلاتے تحفے خواتین کے خلاف جرایم کی شرح کو کم کر سکے
قارین سے بھی گزارش ہے کہ تعصب سے بالاتر ہو کر سوچیں کہ وہ کیا وجوہات ہیں جو 50 فیصد شہری علاقوں، 74  فیصد خواندہ اور ٩٧ فیصد مسلمان افراد پر مشتمل  اس علاقے کے لوگوں کو اس سے جڑے دوسرے صوبوں کی نسبت خواتین کے خلاف جرایم پر آمادہ کرتی ہیں جبکہ اسی  صوبے میں پاکستان کی دوسری اکایوں کی نمایندگی  بھی نہ ہونے کے برابر ہے 
اور جرایم کا فرق دوسرے صوبوں سے اس قدر زیادہ ہے کہ اس پر سوچ بچار نہ کرنا بھی ایک جرم ھی سمجھا جانا چاہیے

اب یہاں یہ معاملہ بھی زیر غور آسکتا ہے کہ یہ جرایم آبادی کے تناسب سے ہورہے ہیں تو ایسا نہیں ہے ! 
اعداد ؤ شمارثابت کر رہے ہیں کہ خواتین کے خلاف تشدد میں پنجاب اپنی آبادی کے 0.008 فیصد کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ سندھ آبادی میں دوسرے نمبر پر ہونے کے باوجود خواتین کے خلاف متشدد واقعات میں 0.002 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے جبکہ خیبر پختونخواہ کی آبادی تو ڈھائی کروڑ کے لگ بھگ ہے مگر خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات 0.003 فیصد ہیں.
پاکستان میں خواتین کے اغوا کی کل تعداد سن 2014 میں 2170 رہی جسمیں سے 1928 یعنی کل اغوا کا  88.8 فیصد  جرم  صرف پنجاب میں ہوا اور 7 فیصد سندھ میں، اسی طرح خواتین کے قتل کی تعداد  پنجاب میں 982  ہے اور خیبر پختونخواہ میں 324 جبکہ  سندھ میں 249 ."جھوٹی " غیرت کے نام پر قتل اسکے علاوہ ہیں جنکی تعداد  362 ہے ، تیزاب پھینکنے کے بہیمانہ واقعات کی تعدادپنجاب میں  108 ہے جو کہ خواتین کوتیزاب سے جھلسانے کے واقعات کا 91.5 فیصد ہے
سب سے تکلیف دہ صورتحال یہ ہے کہ  ریپ اور گینگ ریپ کی تعداد صوبہ پنجاب میں شرمناک حد تک زیادہ ہے یعنی 1408  اور اس کا عشر عشیر بھی بقیہ صوبوں میں نہیں . ریپ /  گینگ ریپ کےجرم  کا92.3  فیصد صرف پنجاب میں وقو ع پزیر ہوتا ہے اور یہ ایک ایسی اندوہناک خبر ہے  کہ ہر باشعور پاکستانی کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے











اعداد ؤ شمار کے یہ چارٹ الفاظ کے یقینن محتاج نہیں 
سوچیے اور وہ وجوہات تلاش کریں جو ان جرایم کی پرورش کر رہی ہیں 
ملک  کی ترقی اسکی نسلوں کی ترقی میں ہے اور نسلوں کی بہبود انکی ماؤں کی  خود اعتمادی میں ہے مجرموں کے درمیان پلنے بڑھنے والی بچیاں کہاں سےخود اعتمادی لائیں گی ؟ 

References :
1:  http://www.pwd.punjab.gov.pk/sites/pwd.punjab.gov.pk
2: https://en.wikipedia.org/wiki/List_of_universities_in_Pakistan
3: http://www.bos.gop.pk/system/
4:https://en.wikipedia.org/wiki/Punjab,_Pakistan
5:annual statistics on violence against women (VAW) released by Aurat Foundation - See more at: http://www.thenews.com.pk/print/23231-6-women-kidnapped-4-raped-every-day-in-2014#sthash.oDjAmvln.dpuf