Sunday, June 20, 2021

پی ٹی آئی کی زلیخا

 کراچی کے حلقہ 249 کا  ضمنی انتخاب اس لحاظ سے منفرد تھا کہ جن پارٹیوں کے نمایندے یہاں قومی الیکشن میں سر فہرست تھے وہ ضمنی الیکشن میں سرفہرست سے  پھسل گیے  وہ عوام  کی ناپسندیدگی کی  گہری کھائی میں جاپڑے  اور ایک عدد بلیک بیلٹ ،سماجی کارکن اور پیپلزپارٹی کا جیالہ پشتون  بازی لے گیا اس انفرادیت کو تحریک انصاف اور نواز لیگ ماننے کو تیار نہ تھیں اور نواز لیگ تو کچھ عرصے سے  خود پسندی کے ایک ایسے نشے میں  مبتلا ہوچکی ہے کہ آئیندہ بھی جو ضمنی الیکشنز ہونگے کچھ بعید نہیں  اسپر انکی یہی گردان رہے گی کہ "ووٹ کو عزت دو "کا ہمارا بیانیہ ہی عوام میں مقبول ہے لحاظہ جب بھی کسی کو ووٹ پڑے وہ ہمارے ہی ہونگے نہ کہ ہمارے سامنے کھڑے مخالف سیاسی نمایندے کے .اور نون لیگ کا یہ نشہ جلدی اترتا نہیں دیکھائی دیتا کیونکہ "کچھ شہر دے صحافی بھی لفافی ہیں اور کچھ تجزیہ کار بھی بریف کیس ہیں

خیر بات ہورہی تھی جناب  عبد القادرخان  مندوخیل کی جیت کی ......جس نے سرکاری اور نیم سرکاری  پارٹیوں کو تو ضمنی الیکشن میں  پریشان کیا ہی مگر عوام کو اسوقت حیران کیا جب ایک ٹاک شو کے دوران "پنجاب کی شیر پتر " نامی گرامی پہلوان کو بیچ شو میں "پچھاڑ " دیا اور جو حالات اس وقت اس مملکت خدا داد کے چل رہے ہیں جن میں اسمبلی سے لیکر سوشل میڈیا اور میڈیا سے لیکر گلی محلوں تک اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جاتا ہے وہاں ایک مرد کا ایک مرد نما عورت کو اپنے ضبط و برداشت سے  پچھاڑنا ایسا حیران کن منظر ہے جس نے مندوخیل جیسے گمنام سماجی کارکن کو راتوں رات اسکرینوں کا ہیرو بنا دیا ہے 

اگلے دن دیکھتی کیا ہوں کہ تمام چینلز کے پرائیم ٹایم شو ز میں قاد ر خان کا طوطی بول رہا ہے شاید یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ممبر اسمبلی کو اسکے  گالی گلوچ یا مکے بازی، تھپڑ بازی کے میرٹ پر نہیں بلکہ برداشت اور حوصلے پر نیوز چینلز دعوت دے رہے ہیں اور قارئین  مزید انگشت بدنداں رہ جائیں کہ ممبر بھی پاکستان پیپلزپارٹی کا جس پارٹی کے کھاتے  میں پچھلے پچاس سالوں میں قلم کاروں ، تجزیہ کاروں ، صحافیوں اور اینکروں نے صرف " ملبہ " ڈالا ہے متفقہ آئین سے بینظیر انکم سپورٹ اور میزائل پروگرام سے بین الاقوامی میعار کے علاج کی مفت سہولتوں تک کو یہ "پڑھے لکھے "بہت محنت سے اپنی چاۓ کی پیالی میں گھول کر پی جاتے ہیں اور ہر وہ مسلہ جو پاکستان کے طول و عرض میں موجود ہے پیپلزپارٹی کی حکمرانی کو اسکا ذمہ دار ٹہرا کر نیوز میڈیا ہاؤس اور راولپنڈی میں قائم "پاور ہاؤس " سے برابر کی تنخواہ وصول کر لیتے ہیں 

چلیں یہ تو پرانا  درد  ہے اس لیے بار بار اسکا ذکر کرنا سواۓ درد کو بڑھانے کے کچھ نہیں کرے گا ہم تو آج کی نئی بات کرنا چاہ رہے ہیں  جو نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ تاریخ کو ہزاروں سال بعد دہرانے وا لا معاملہ  ہے . آسمانی کتابوں میں درج ہے کہ کس طرح ایک طاقتور شخص کی بااختیار بیوی  نے حضرت یوسف کی وجاہت پر فریقتہ ہوکر انپر "حملہ " کیا اور حضرت یوسف کے بارے میں بیان ہے کہ  وہ اپنی عزت بچاتے ہوے پیٹھ دیکھا کر بھاگے اس دوران انکا کرتا زلیخا کے ہاتھوں  پیچھے سے پھٹ گیا اور یہی پیٹھ سے پھٹا کرتا  عدالت میں انکی بے گناہی  کا ثبوت بن گیا . اس وقت کا مصر یقینن آج کی "نیو ریاست مدینہ " سے بہت بہتر تھا کیونکہ عزیز مصر ہو یا زلیخا دونوں ہی پاکباز و باوقار یوسف کی بے گناہی کے کھلے کھلے ثبوت دیکھ کرکم از کم  کچھ شرافت دیکھا گیے ایک  ہماری ریاست مدینہ  ہے اوراسمیں گریبان کھینچتی ، تھپڑ لگاتی، گالم گلوچ کرتی  فردوس اور اعوان کے درمیان "عاشق " نامی خاتون  ہیں جنکی نظر میں اگرمرد اپنی عزت اور وقار انکے ہاتھوں سے بچا کر "کمرے سے نکل جاے" تو وہ مرد نہیں بلکہ " کھسرا " ہے..... وہ تو بھلا ہو زلیخا کا کہ  سیالکوٹ میں ہوش نہیں سنبھالا اور نہ ہی سیاست میں لوٹا بنتی بناتی چیف منسٹر پنجاب کی خاص الخاص معاون بنی ورنہ  جس لمحے  حضرت یوسف کا پیچھے سے پھٹا کرتا عزیز مصر کو انکی بے گناہی کی گواہی دیتا اسی لمحے  زلیخا نے گرج کے کہنا تھا " جو سچا ہے اسکو بھاگنے کی کیا ضرورت ہے جس کے دل میں چور نہیں اسکو کنڈیاں لگا کر باہر بھاگنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور وہ بھی ایک " عورت " سے ..... یہ کیسا "کھسرا مرد" ہوگا کہ جو ایک عورت سے ڈر کر بھاگ رہا ہے یہ روایت ہے نہ آپکو زیب دیتا ہے  " .......اور یوں تاریخ کےاوراق ہمیں کچھ اور ہی کہانی سناتے ، کچھ اور ہی سبق ہماری روایات کا حصہ ہوتے پھر ہمارے الہامی مذاہب ہمیں یہی  تعلیم دیتے  کہ ہر باوقار اور عزت دار مرد "کھسرا "  ہے  اورہر بے راہ رو اور بد چلن مرد " مرد کا بچہ "   

Monday, June 14, 2021

معافیو ں کی ماں


بچپن میں اپنے بزرگوں سے "گورے کی انصاف پسند " حکومت کی تعریفیں سنتے تھے تو اکثر ناک بھوں چڑا کر کہہ دیتے تھے کہ آپ لوگوں کو بھی نہ جانے غلامی کی زندگی کیوں یاد آتی رہتی ہے مگر یہ تو عقل آنے پر پتہ چلا کہ "ناانصافی "بھی غلامی جیسا ہی طوق ہے جو مخلوق کے گلے پڑ جاۓ تو وہ زندہ لاش کی صورت اختیار کر لیتی ہے
سوانصاف کی طلب بھی کسی طرح آزادی کی خواہش سے کم نہیں مگر مسلہ یہ ہے کہ ہم ہر بار ہر نئی حکومت سے جس انصاف کی آرزو رکھتے ہیں وہ ہمیں انصاف کیوں نہیں دے پاتی ؟؟ کیوں یہ ناانصافی کا طوق ہرپیدایشی پاکستانی کے گلے کا ہار ہے ؟ کیوں ہم اس ناانصافی کے طوق کو ویسے ہی اتارناچاہتے ہیں جیسے غلام قومیں غلامی کا پٹہ اپنی گردنوں سے اتار کر آزادی کا سانس لینا چاہتی ہیں یاد رہے کہ نانصافی ہی وہ بیج تھا جو سابقہ مشرقی پاکستان میں بویا گیا اور اس سے چھٹکارہ پانے کے لیے بنگالی قوم نے جو کہ متحدہ پاکستان بنانے والی قوم تھی ،اپنے آپ کو "آزاد" کر لیا
بنگالیوں نے ناانصافی کا طوق گلے سے اتارا اور بنگلہ دیش بن گیا
اس راستے میں  بنگلہ دیش نے فوجی بغاوتوں کی کالک بھی منہ پر مل لی اور اپنے بانی اور اسکے گھر والوں کو موت کے گھاٹ بھی اتار دیا مگراپنے حقوق اورذمہ داری اب بنگالیوں نے خود اٹھا لی تھی انہوں نے اپناراستہ  خود بنایا اور آج اقوام عالم میں ترقی یافتہ نہ سہی ترقی پزیر ضرور ثابت ہوچکے  ہیں ہمارے "گھر " کی طرح پسماندہ 
اور بدنام نہیں
پھر  دوسری  طرف ہم ہیں.....بے منزل اور بے مراد 
 ہم یہاں تک کیسے پہنچے ؟
 یہ سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں آسان سا معاملہ  ہے 
 آمریت کے بطن سے نکلی ناانصافی اور جبر و استبداد نے ہمیں ترقی پزیر سے پسماندہ اقوام کی راہ پر ڈال دیا .آمر کبھی بھی اتنے لمبے عرصے مختلف قوموں کے اس مجموعے کو دبا کر نہیں رکھ سکتے تھے مگر جب مفاد پرستی اداروں میں سرایت کرچکی ہو تو آمرانہ ادوار طویل تر ہوجاتے ہیں عدلیہ کے  مکروہ کردار ، سرمایہ داروں کا پیسہ ،جاگیر داروں  کی طاقت، لوٹے نام کے سیاستدان ، قلم بیچ کر اولادوں کو حرام کھلانے والوں کا گروہ  اور شہروں میں رہتی نام نہاد تعلیم یافتہ مڈل کلاس  دولے شاہ کے چوہوں کی بٹالینز  .......  یہ سب آمروں کے ھتیار بنے 
ستر  برسوں میں ایسے بھی موقعے آ ئے کہ عدلیہ کو اپنے گناہوں پر معافی مانگنی پڑی یہی صورتحال سیاستدانوں اور میڈیا میں بیٹھے کچھ بقراطوں پر بھی آئی اور انکو یہ ماننا پڑا کہ ہماری ناانصافی ، متعصب رویوں ، کبھی لالچ تو کبھی خوف میں   پاکستان کو اس حال میں پہنچا دیا  کہ اب اس کو پاک کہتے بھی شرم آتی ہے تاریخ بتاتی ہے کہ جس خطے پر متحدہ پاکستان بنا تھا اسکی تاریخ اتنی زبوں حال نہ تھی
مختلف قومیتیں اپنے اختیارات اور اقتدار کے ساتھ اپنے  خطہ حکمرانی میں اپنی  رعایا کا خیال رکھتی تھیں حالات کبھی برے تو کبھی اچھے مگر جسطرح پاکستان پچھلے بیس سے تیس برسوں میں تیزی سے زبوں حالی کی طرف گیا ہے اسکی مثال بہت کم ممالک میں دیکھنے کو ملتی ہے ہاں ! جو ممالک جنگوں سے نبرد آزما ہیں وہاں حالات دگرگوں ہیں مگر اپنے آپ پر "جنگ " مسلط کرنا وہ بھی پیسہ کمانے کے لیے ؟؟ جی ہاں آپ نے صحیح پڑھا ہے " پیسہ کمانے کے لیے زمین زادوں کا قتل عام " اور صورتحال یہ ہے کہ افغان جنگ ہو یا گلف وار یا پھر وار آن ٹیرر ہر مال بکے گا "ڈالروں " میں کے مصداق ہمارے سرحدوں کے پاسبان خود بھی بکے اور بے گناہ سویلینز کو بھی بیچا اور تو اور ایک ایسی جنونی راہ کو ریاست کے بیانیے کے طور پر قوم کو متعارف کروایا کہ ایک پوری نسل "جنونیوں " کی پیدا ہوچکی ہے 
جسکو پاکستان کی بین الاقوامی خفت "یہود کی سازش " لگتی ہے ،  ہر وہ شخص انکو  "قادیانی " دیکھائی دیتا ہے جس سے ان دولے شاہ کے چوہوں کومذہبی یا  نظریاتی اختلاف ہوتا ہے . اپنے ہی ملک کے منتخب نمایندوں کو چور ، ڈاکو ، ہائی جیکر ، ٹین پرسنٹ ، قاتل  ،دہشتگرد، سسلین مافیا  مشہور کروانے کے لیے عوام کے خون پسینے کی کمائی کو پانی کی طرح بہایا جاتا رہا ہے اور حیرت کی بات کہ جیسے ہی یہ ٹاسک مکمل کرنے والے ریٹائیرڈ  ہوتے ہیں مزید دولت کمانے کے لیے ان "رازوں " کو اپنی خود نوشت میں  مصالحہ لگا لگا کر تحریر کرتے ہیں اور جو مال پہلے کسی کو "  مسٹر ٹین پرسنٹ " کا لقب دلوانے کے لیے غیر ملکی نامہ نگاروں پر خرچ کیا اب یہ راز فاش کرنے میں دوبارہ کمایا جاتا ہے یعنی دسیوں انگلیاں تیل میں اور سر کڑھائی میں 
 .......افسوس یہ ہے کہ بطور  پاکستانی ہماری یاداشت حد سے زیادہ کمزور ہے
 ورنہ ہم طاقت کے مینارے پر کھڑے اپنے کو "پارسا " سمجھنے والوں سے پوچھیں   کیا وہ  اپنے گریبان میں جھانک کر یہ بتانا پسند کریں گے کہ 
 کس نے پنجاب کے پانچ دریاؤں کو ڈھائی کر دیا ؟
کس نے غیر ملکی انجینیروں کی ملی بھگت سے نہری نظام بنا کر لاکھوں ایکڑ زمین تھور اور سیم کے حوالے کی ؟
کس نےسیاست کو شجرے ممنوعہ قرار دے کرسیاست میں پیسے کو داخل کیا  ؟
کس نے منتخب نمایندوں کو نہ صرف انکا عوامی حق نہ دیا بلکہ عوام میں رسوا کیا ؟
کس نے بنگال کو فوجی آپریشنوں میں دھکیل کر پاکستان کو دو لخت کرنے کا  بیچ ڈالا ؟
کس نے شراب ؤ شباب کے نشے میں ٩٠ ہزار کو ھتیار ڈالنے کا حکم دیا ؟
 کس نے خارجہ پالیسی کو آزادانہ  رہنے نہ دیا اور "بخشو " کا کردار ادا کر کے  پاکستان کا وقار بیچا ؟
کس نے پاکستان کا پہلا منتخب وزیر اعظم قتل کروایا  ؟
کس نے پاکستا ن کی نسلوں کو ہیروین اور کلاشنکوف کے بھنورمیں پھنسا دیا ؟
 کس نے مہاجر قومی موومنٹ اور پنجابی پختون اتحاد کے ذریعے منی پاکستان میں زہر کے پودے لگاۓ ؟
کس نے پاکستان کے منتخب نمایندوں کو کبھی قاتل کبھی ہائی جیکر ،کبھی کرپشن کوئین کبھی مسٹر ٹین پرسنٹ مشہور کرنے کے لیے قومی خزانے کو پانی کی طرح بہایا ؟
کس نے ذاتی اکاؤنٹس میں ڈالر بھرنے کے لیے پاکستانی بیچے ؟
کس نے اوجڑی کیمپ جیسے سانحات کرواۓ جن میں سینکڑوں بیگناہ مارے گیے؟؟
کس نے بازار سے اٹھا کر لوہاروں، کا نسٹبلو ں  اور کرکٹروں کو سیاستدان جیسی معزز نام سے مشہور کروایا ؟
کس نے امریکیوں کو پاکستان کی زمین "فروخت " کی ؟
کس نے سندھ اور بلوچستان کے معدنیات سے بھر پور خطے کو عیاش عربوں اور بے حس چینوں  میں تقسیم کیا ؟
کس نے بلوچستان میں ہر دوسری دہائی میں فوجی آپریشن کر کے بلوچستان کو آگ میں دھکیلا ؟
کس نے بلوچستان کے نمایندہ سرداروں کو کبھی جیل ،  کبھی جلاوطنی  تو کبھی  پتھروں میں دفن کر کے پاکستان اور بلوچستان میں ہمیشہ کے لیے نفرت کی دیوار اٹھا دی ؟
کس نے بجلی  نہ بنانے کی ایسی قسم کھائی کے اسکے جانے کے ١٣ سال بعد بھی یہ کمی پوری ہونے میں نہیں آرہی ؟
 یہ لسٹ مزید لمبی ہوگی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی 
   اگر آپ میں رتی برابر بھی سچائی ہے تو تسلیم کریں کہ سیاستدان پاکستان کی تباہی میں  صرف اتنے ھی حصے دار  ہیں جتنے کی اجازت  یہ گھر کے" مالک " بننے والے " چوکیدار"  انہیں دیتے ہیں
ان کی فیکٹری سے تیار کردہ سیاستدان معافی مانگ چکے، کچھ جج بھی اپنی حرکتوں پر  توبہ کر اٹھے اور تو اور کچھ صحافیوں نے بھی اپنی "گمراہی " کی کہانی سرے عام سنا دی  مگر ایک " آپ " ہیں جنکا نہ تکبر ختم ہونے کو آتا ہے نہ  ضمیر کا بوجھ روح پر محسوس ہوتا ہے کہ عوام سے اپنے کیے کی معافی ہی مانگ لیں 
یقینن یہ  کوئی عام معافی نہیں ہوگی ...... اس ملک کی تاریخ میں اگر کبھی ایسا دن آگیا تو یہ معافی " معافیوں کی ماں "کہلاۓ گی اے کاش ! ہم اس وقت تک زندہ رہیں  
 



Thursday, June 10, 2021

سیلف میڈ


 سیلف میڈ 

میں ایک اوورسیز پاکستانی ہوں .میری کہانی سچی ہے اور آپ سے میری مماثلت اتفاقیہ ہے
میرا تعلق پنجاب کے ایک چھوٹے شہر سے ہے.میرے والدین سیدھے سادے دیہاتی تھےمیں تین بھائیوں اورتین بہنوں پر مشتمل بڑےکنبے کا فرد ہوں
 اس وقت تو میری عمر 63 سال ہے مگر جب اچھے مستقبل کے خواب دیکھنا شر و ع کیۓ تو میں صرف 19 سال کا تھا لیکن تین سال کے اندر اندر میں نے اپنے خوابوں کو سچ کرنے کے لیے اپنا وطن پاکستان چھوڑ دیا 
  ٢٢ برس کی عمرتھی جب میں نے "سیلف میڈ " بننے کی ٹھان لی .آج بھی میں اپنے حلقے میں ایک کامیاب سیلف میڈ شخصیت  کہلاتا ہوں. یہ الگ کہانی ہے کہ پردیس تک پہنچنے کا خواب پورا کرنے کے لیے میں نے اماں کے زیور  اور ابا کی چھوٹی موٹی زمین  بیچی ،اپنے دوست کما لے کے ٹریولنگ ایجنسی والے چاچا  سے دو نمبر ویزہ لگوایا آپا  کے
 ہمسا یۓ ریاست اللہ کےشہر والےگھرمیں دو ہفتے قیام کیا ،خلیل ماما سے ادھار لیا اور آپا کا زیور گروی رکھوا کر ٹکٹ اورکرنسی جیب میں ڈالی
بیرون ملک پہنچنےپرمردان کے ارشد خان کی سفارش پرگیس اسٹیشن کی نوکری ہاتھ میں کی اور اسی ارشد  خان  کی منت سماجت پرمجھے ایک ٹیکسی بھی چلانے کومل گئی لائسنس حاصل کرنے کی آسان ترکیب گیس اسٹیشن پر کام کرنے والے عربی بھائی حبیب نے بتائی اس دوران شکار پور والے اختر سومرو نے مجھے اپنے کمرے میں مفت ریھایش دی اور  اپنی لینڈ  لیڈی کو یہ کہہ کر رام کر لیا کہ میں اسکا بھائی ہوں اور کچھ دن کے لیے سیر کرنے آیا ہوں میں ٹیکسی ڈرائیونگ میں
بہتر ہوگیا اور ایک ہفتہ بعد ہی مجھے پہلی دھاڑی موصول ہوگئی. آ ٹھ دس مہینے میں نے ٹیکسی چلائی اس دوران ایک کمپیوٹر ادارے میں داخلہ لیا اور وہاں سے کچھ ضروری کورسز کر لیے میں ذہین تھا اور اپنے خوابوں کو حقیقت بنانا چاہتا تھا مگر اسکے لیے میرا غیر ملک میں رہنا ضروری تھا
 ایک سال بعد  اختر سومرو نے اپنے دوست شجاعت ملتانی  سے سفارش کروا کر مجھے ایک ریسٹورینٹ میں  نوکری دلوادی  میں نے ریسٹورینٹ کے قریب ایک اسٹوڈیو میں بسیرا کر لیا میرا وزٹ ویزہ ختم ہوچکا تھا اور میں یہاں غیر قانونی طور پر نوکری کر رہا تھا سو میں نے چھپ کر زندگی بسر کرنے کی بجاۓ ریسٹورینٹ میں کام کرنے والی ڈورتھی سے دوستی کر لی  ،اپنی منزل پانے کے لیے میرے ارادے مضبوط تھے سو یہ کوئی بہت مشکل کام نہ تھا
  ڈورتھی بس  ایک عام سی لڑکی تھی ،کچھ خاص نہ تھی عقل میں نہ شکل میں.... ہاں مال میں مجھ سے بہتر تھی اس لیے کہ دو تین جگہ کام کرتی تھی 
خیروہ  میری ضرورت تھی اس لیے اس وقت  " اہم " بھی تھی سومیں نےاسکو محبت اورشادی دونوں پرراضی کرلیا گو کہ ڈورتھی کی سگی ماں اور سوتیلا باپ  اپنی بیٹی کی ایک مسلمان اور پاکستانی سے شادی کے خلاف تھے مگر میری محبت "جیت " گئی اور ڈورتھی نے" بغاوت" کرتے ھوۓ مجھ سےشادی رچا  لی وہ بھی اس سے پہلے کہ میرےغیرقانونی قیام کی وجہ سے پولیس مجھ پر ہاتھ ڈالے. ڈورتھی سے شادی نے مجھے ایک قانونی شہری بنا دیا تھا
ڈورتھی کی ماں ایک بہترین ادارے میں ٣٠ سال سے کام کرتی تھی اسی کی سفارش پرمجھے اچھی نوکری مل گئی خدا نے اس دوران مجھے دو بیٹوں سے نوازا یوں میرا خواب تکمیل کے مراحل میں پہنچ گیا.آج میرے پاس ایک  سجاسجایا گھر، نیۓماڈل کی گاڑی ،اچھا کاروبار،گوری بیوی اوردوبیٹے ہیں  
ڈورتھی چاہتی تھی کہ  ہمارے یہاں ایک  بیٹی ہو کیونکہ یہ ڈورتھی کا خواب تھا مگر میں ایسا نہیں چاہتا تھا میں اس ماحول میں کبھی نہیں چاہتا تھا کہ میری بیٹی بھی کل کو ڈورتھی کی طرح کسی لڑکے کے لیے میرے سامنے کھڑی ہو جاۓ 
سو میں نے ڈورتھی کو اپنا یہ خواب پورا کرنے نہ دیا لیکن مجھ پر خدا کا یہ فضل رہا کہ میرا ہر خواب پورا ہوا اور کیوں نہ ہوتا میں ایک " سیلف میڈ " انسان ہوں اور اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے میں نے کسی امداد ،سفارش ، اقربا پروری رشوت وغیرہ کا سہا ر ا نہیں لیا بلکہ اپنے قوت بازو اور ذھانت سے ہر مرحلہ طے کیا
آج بھی جب میں کسی  نئے نئے تا رک وطن پاکستانی سے ملتا ہوں تو اپنی کامیابی کا یہی راز بتاتا ہوں کہ میں ایک  آزاد  جمہوری ملک میں رہنے والا "سیلف میڈ "  شخص  ہوں جس نے کسی کے سامنے امداد ، سفارش کے لیے ہاتھ نہ پھیلایا نہ ہی پاکستان کی طرح مجھے غیر قانونی حربے اختیار کر کے کامیاب ہونا پڑا،میں نے اس جمہوری ، آزاد ملک میں رہ کر   دوسروں کے حقوق بھی پورے کیے اور اپنی ذمہ داریاں بھی ادا کیں
میں پاکستانیوں کو کہتا ہوں کہ  اگرآج  میں  پاکستان میں ہوتا تو  سفارش ، اقربا پروری اور جھوٹ  کی وجہ سے اپنے خواب  کبھی بھی پورے نہ کر سکتا اور نہ ہی دوسروں کے حقوق ادا کرسکتا 
  میں نے محنت کی اور اپنے زور بازو سے یہاں تک پہنچا مجھے یقین ہے کہ  اگر پاکستان میں ڈنڈے کی حکومت ہو تو لوگوں کو سفارش جھوٹ، اقرباپروری ، کرپشن ،رشوت ستانی اور دوسروں کے حقوق غصب کرنے کی ہمت ہی  نہ ہو
 اچھا میں ایک فون سن لوں پھر آپ کو اپنی کامیابی کی مزید داستانیں سناتا ہوں
!! ہیلوکون ؟جی نہیں نام سے نہیں پہچانتا"
   !کون ؟ راشد خان کون ؟ اچھا وہ ٹیکسی ڈرائیور  نہیں مجھےکچھ خاص علم نہیں 
 سومرو؟  ہاں یہ کچھ  سنا سا نام  لگ رہا ہے اچھا ہاں اختر سومرو ! نہیں  جاننے والاتو نہ تھا بس آتے جاتے سلام د عا  ہو جاتی تھی کافی پرانی بات ہے  
جی ایسا ہے کہ میں ذرا مصروف ہوں سب کچھ مجھے ہی سنبھالنا ہوتا ہے آخر اتنی محنت کی ہے یہاں تک پہنچنے میں  کاروبار کو وقت تو دینا ہی ہوتا ہے
 یوں کرتے ہیں باہر ملتے ہیں پھر آپکے مسلۓ کا کچھ کرتے ہیں ... وہ آپ فکر نہ کریں چالیس سال میں اس ملک کا  قانون اتنا تو سمجھ آگیا ہے کہ اچھی "جوگاڑ " لگا لوں گا بندے بھی آپ تک پہنچ جائیں گے اور ٹیکس کو تو بھول جائیں
..... بس پھرمیرے  کمیشن کی بات پکی کریں  اگلی ملاقات پر
اوکے پھر ملتےہیں اس ویک اینڈ پرمڈ نائیٹ کلب میں  !  اللہ حافظ 

Tuesday, June 8, 2021

بلاول کا پیغام......... بابا کے نام ١٩٩٠ محسن نقوی




 میرے بابا اداس مت ہونا 

ختم ہونے کو ہیں یہ غم سارے 

آپ ہی نے مجھے سکھایا ہے 

زندگی امتحان ہے پیارے 

---------

میرے بابا اداس مت ہونا 

کیا ہوا گر ستم مزید ہوئے 

وقت کے ظالموں سے ٹکرا کر 

میرے نانا بھی تو شہید ہوئے 

----------

سازشوں کے ہجوم میں گھر کر 

داغ سینے میں پڑ گئے غم سے 

وہ میرے شاہنواز ماموں بھی 

بس اچانک بچھڑ گیے ہم سے 

-------

میری نانی وہ عزم کی رانی 

بن گئ دیس کی سپر بابا 

پاک دھرتی کی خاک پر جس نے 

وار ڈالا ہے گھر کا گھر بابا 

-----------

مرتضی وہ جری دلیر جواں 

وہ ہے کب سے وطن بدر بابا 

انکی خاطر تو تھک گئیں آنکھیں 

کب لوٹیں گے کیا خبر بابا 

-------------

آپ کی ذات ان اندھیروں میں 

روشنی کی لکیر ہے بابا 

میرے  نانا عظیم  تھے لیکن 

میری ماں بے نظیر ہے بابا 

------------

ہم پر اکثر یہ دشمنوں کی صفیں 

تہمتیں تک اچھال دیتی ہیں 

میری ماں کا بھی حوصلہ دیکھیں 

ہنس کے ہر غم کو ٹال دیتی ہیں 

-------------

میں بلاول میں آپ کا بیٹا 

آپ کے دکھ کا راز داں ہوتا 

آپ کے دشمنوں سے ٹکراتا 

کاش اس وقت میں جواں ہوتا 

------------

مانگتا ہوں دعائیں خالق سے 

کاش میری دعا اثر پاۓ 

شیر خوار حسین ( ع ) کا صدقه 

ٹال اس گھر سے درد کے ساۓ 

میرے بابا کو کچھ نہ ہو مولا 

میری ماں کا سہا گ بچ جاۓ 

محسن نقوی 

١٩٩٠