Thursday, May 6, 2021

اور فیصلہ آگیا .........

قدرت کے راز قدرت ہی جانتی ہے 
مگر انسانی ذہن کی اڑان بھی قدرت کا ہی عطیہ ہے............ ایک انمول تحفہ
اور آجکل ہم جس محاذ پر لڑ رہے ہیں وہ بھی  قدرت کا تیار کیا محاذ ہے چاروں طرف ایک آگ کا سا سماں ہے 
آگ بجھانے کی کوششیں جاری ہیں مگر الاؤ ہے کہ کم ہونے کا نام نہیں لیتا کوئی یہ بھی نہیں جانتا کہ آگ کیسے لگی ؟   کس چیز سے لگی اور کیونکر بجھے گی  ؟؟؟ 
انسانی دماغ کی اڑان نے البتہ ایک بات تو واضح کر دی ہے کہ قدرت  کرونا وائرس سے لگائی اس  آگ سے کیا  چاہ رہی ہے   ؟؟؟
ہوسکتا ہے میری توجیہات کسی سائینٹفک ذہن کو قبول نہ ہوں کیونکہ دنیا میں ایک ہی مسلے کو مختلف زاویوں سے دیکھنے والے سینکڑوں نہیں ہزاروں نہیں لاکھوں اور کروڑوں ہیں سو میرا نکتہ نظر کرونا وایرس کی آمد اور اسکے دنیا والوں پر اثرات کے بارے میں کچھ یوں ہے کہ یہ وائرس لیب میں تیار ہوا ہو  یا  کسی جانوروں  کی مارکیٹ سے دنیا بھر میں پھیل گیاہو یعنی کوئی سازش ہے یا ناگہانی ہر صورت میں اسکے پھیلاؤ کا مرکز اجتماعات "کو ہی سمجھا گیا "
کعبۂ ہو یا کلیسا یا مندر ...... پر طبی ماہرین کی متفقہ راۓ ہے کہ لوگوں کا ہجوم اس مرض کے پھیلاؤ کا ذریعہ ہے اوراگر  یہ اجتماعیت ختم کی جاۓ  گی  تو ہی اس موذی  مرض کا پھیلاؤ روکا جاسکے گا  سو کھیلنے کے میدان ہوں یا ساحل سمندر کی رونقیں , جوا خانے ہوں یا نائیٹ کلب یا جم یا میوزیم سب کے سب اپنی رونقیں کھو بیٹھے کیونکہ اس تمام ہلے گلے کا محور ہوتا ہی لوگوں کا ہجوم ہے  اور ہجوم ہی اس ناگہانی کو بڑھانے کا سبب بن رہا ہے  
قصہ مختصر لوگوں کو قدرت نے تنبیہہ کردی کہ  اب "اجتماعی "زندگی سے انفرادی رہن سہن کی طرف لوٹ آ ؤ عبادت گاہوں کو تالے پڑ گیے کہ خدا نے اپنا فیصلہ سنا دیا "جو دکھ سکھ بنی نوع انسان کو ایک دوسرے سے کرنا تھا تم انسان اسمیں ناکام ہوۓ "  کیونکہ  
   تم  نے عبادت بھی کی تو بناوٹ سے ، ریاکاری سے اور دل میں کھوٹ لیے .... سب کے سب پہنچ جاتے اپنی پرہیزگاری کے جھنڈے گاڑنے، اسکی مخلوق پر رحم سے زیادہ تمہیں اپنی "پارسائی " کی دھاک بیٹھانے کا شوق چڑھا تھا تو جسکی نظر دلوں پر ہے وہ کیا سمجھتا ہے ہماری  اس دوغلی پارسائی کو ؟؟ 
اب  فیصلہ یہی ہوا ہے  کہ اپنی عبادتیں اپنے گھروں میں خالص کرو اگر میری عبادت ہے تو شان و شوکت سے بنائی عمارتوں میں اسکی ضرورت نہیں ، مجھ سے محبت کے بول سچے  دل سے نکلتے ہیں اور مجھ تک  پہنچ جاتے ہیں ایسے میں  منبروں پر دیکھاوے کرنے کی ضرورت ہے نہ مزاروں ، مجلسوں میں حاضریاں لگانے کی  سو آج  دنیا کی شکل تبدیل ہوچکی ہے  
سن دوہزار بیس کے بارے میں ستارہ شناسوں کا بھی  یہی خیال تھا کہ ایک " نئی دنیا جنم لے گی " اور ایک نئی دنیا نے  جنوری  سن دوہزار دو  کے آ س پاس میں اپنی پوری آب و تاب سے جنم  لے لیا 
اب آئیں اس متفقہ لائحہ عمل پر جس پر طبی ماہرین متفق ہوچکے 
چہرے پر ماسک رکھو یعنی  سب کالے گورے ،پیلے، نیلے ایک سے دیکھائی دو، آنکھیں جو کہ دماغ سے جڑے کیمرے ہیں کافی ہیں تمھاری نیت کھوجنے کے لیے ، اپنے چہروں کی خوبصورتی یا بدصورتی کے اثرات دیکھنے کا چکر بھی ختم ہوا 
آپکے ہاتھ " آلودہ " ہیں سو اکثر دھویں بلکہ دھوتے ہی رہیں اور کیوں نہ آلودہ ہوں انسانیت کے خون سے رنگے ہیں
گلے ملنے اور ہاتھ ملانے سے بھی گیے کیونکہ قدرت جانتی ہے کہ کس طرح گلے مل کر سینوں میں خنجر اتارا جاتا ہے اور ہاتھ ملانے والا ہر شخص " دوست " نہیں ہوتا توپھر ہاتھ ملانے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟؟؟
ماسک کے پیچھے سے مسکراہٹ تو نظر آ نہیں سکتی البتہ آنکھیں انسانیت کے دکھ  دیکھ کر بھیگ سکتی ہیں سو آپکی مرضی ہے کہ لوگوں کے دکھوں پر آنکھیں نم کریں یا پھر اپنے " نقابوں " کے پیچھے سے مسکرائیں کم از 
کم آپ اپنی مسکراہٹ سے دکھی دلوں کو مزید  ٹھیس نہیں پہنچا سکیں گے
دو اشخاص کے درمیان کم از کم  چھ فٹ فاصلہ رکھیں کیونکہ جب دل میں قربت نہیں بلکہ کینہ پل رہا ہے تو محبت کی پینگیں بڑھانے کا ڈرامہ بھی کیوں رچایا جاۓ ؟
اس تبدیلی زدہ دنیا کی سب سے افسوسناک حقیقت یہ  ہے کہ لاکھوں افراد اس نئی دنیا میں اپنے پیاروں کے ساتھ داخل نہیں ہوسکے  
قدرت نے  اشرف المخلوقات کو اتنی مہلت بھی نہ دی کہ  کرونا کے ہاتھوں بیمار مریض اپنے پیاروں کے ہاتھوں میں جان دے سکتے. ساری زندگی بزرگوں کو ایک دعا کرتے سنتے رہے کہ خدایا ! اپنی آل اولاد کے درمیان ہی وفات دینا مگر اسبار لگتا ہے یہ دعائیں رد کی گئیں اور آج  صرف بزرگ ہی  نہیں دنیا کے ہر ملک میں بسی ہر قوم کے ہر عمر کے، ہر مذھب و عقیدے کے افراد کو اس کرب سے گزرنا ہے کہ بیماری کے ساتھ تنہائ اور وفات کی صورت میں  اکثر و بیشتر لاوارث میت !! اس کائنات نے تو ہوسکتا ہے یہ مناظر صدیوں پہلے دیکھے ہوں مگر ہمارے لیے تو یہ سب ایک قیامت سے کم نہیں 
کیا یہی قیامت ہے ؟؟؟ 
 شاید ............. شاید وہ فیصلہ آچکا جس کا ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا 
 کیونکہ  
ہر مذھب کے لیے اور خاص کر مسلمانوں کے لیے اس کرونا وائرس کے پھیلاؤ ،پرہیز اور علاج میں ایک بہت ہی خاص خدائی نشان ہے اور وہ یہ کہ آپ اپنے کو کتنا ہی پارسا خیال کریں،   دن بھر کی عبادات ہوں یا عشق
 رسول اللہ  کے دعوے یا رات رات بھر کی تہجد گزاری یا  درس قرآن  کے لمبے دور،  سڑکوں پر بیٹھے مولویوں کے جتھے ، منبر پر درس دیتے علماء اکرام یا توہین مذھب و رسالت کے نعرے لگاتے فرزندان توحید جب کرونا کا شکار ہوتے ہیں تو کسی مسجد ، مجلس میں جانےکی بجاۓ سیدھا اسپتال پہنچتے ہیں سانس پلٹے تو نہ پیش امام یاد آتا ہے نہ کوئی خلیفہ نہ علامہ یا ذاکر بس ایک " ڈاکٹر " چاہیے ہوتا ہے جو آپکا "مسیحا " بھی ہوتا ہے اور امام بھی اسی کے  ہاتھ  میں اللہ شفا دیتا ہے اور زندگی کی سانسیں بحال ہوجاتی ہیں  
  یہ  وائرس کسی کی نیکی،  پارسائی یا بدی  کو خاطر میں نہ لانے کا خداۓ جبار و قہار کا حکم ایسے بجا لایا ہے کہ کچھ وقت کے لیے تو  پکے ، کھرے مسلمان کا ایمان بھی  متزلزل  ہو جاتا ہے کہ یاالہی یہ کیسا قہر ہے جو تیرے نام لیواؤں پر بھی اسی طرح ٹوٹ پڑا ہے جیسے تجھے نہ ماننے والوں پر 
ایسے قیامت کے دور میں آپکا ایمان صرف انسانیت پر ہی رہ جاتا ہے یہ کہ آپ اپنی نیک خواہشوں میں بنی نو ع کو شامل رکھیں .اپنے اور غیر سب آپکی محبتوں کے حقدار ہیں کیونکہ آپ نہیں جانتے کب وائرس آپ پر یا آپکے کسی محبت کرنے والے پرحملہ کردے ........ ہوسکتا ہے یہ آپکی اس سے آخری ملاقات ہو