Tuesday, November 10, 2020

تحریک انصاف کا شیش محل



بزرگوں نے سچ کہا کہ جب خود شیش محل میں بیٹھے ہو تو دوسروں پر پتھر مار کرلہو لہان کرنے کی کوشش نہ کرو زخموں کی تاب نہ لاکر ہلاک ہونے والے نے اگر مرتے مرتے بھی دو " کنکریاں " تمہارے شیشے کے محل پر دے ماریں تو محل بھی چکنا چور ہوجاۓ گا اورٹوٹتے  شیشوں کی برسات میں زندہ تم بھی نہ رہ سکو گے 

ہمارے تیزی سے بدلتے سیاسی اخلاق یہی بتا رہے ہیں کہ ایک ""گندی مچھلی " نے سارے جل کو گندا  کر ڈالا ہے . پاکستان تحریک انصاف جو اپنے دھرنوں کے ایک سو چھبیس دن میں عوام کے باشعور حلقوں میں "پاکستان تحریک الزام "کے نام سے مشہور ہوچکی تھی جب پارلیمنٹ میں براجمان " کی گئی " تو اپنی پوری آ ب و تاب کے ساتھ بدتمیزی ، بد تھذیبی اور بد اخلاقی  کے مینار پر بھی  برا جمان ہوگئی

یوں تو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اصولوں پر سودا بازی تحریک انصاف کے آنے سے بہت پہلے شرو ع ہوچکی تھی اور اسکا سہرا یقینن پاکستان کی سیاست میں دخل در معقولات کرنے والے بے حس اداروں کے سر جاتا ہے

مگر اس نام نہاد انقلابی جماعت نے نوجوانوں کے کاندھے پر رکھ کر بد تھذیبی کی جو بندوق چلائی ہے اسکی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی . سوشل میڈیا کے سیاسی استعمال نے اس بد تمیزی کو مزید پھیلایا اور سونے پر سہاگہ یہ کہ مختلف سوفٹ وئیر استعمال کر کے بد اخلاقی کے ساتھ جھوٹ ، الزمات اور بہتان بھی زور و شور سے پھیلاۓ گیے 

آج پاکستان کی گلیوں اور بازاروں میں ایسے جرائم  عام ہوچکے ہیں جنکا ہم اپنے بچپن میں تصور بھی  نہیں کرسکتے تھے  یہ کوئی اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی  کی بات نہیں  بلکہ جب  سن اسی میں سیاسی قائدین اور کارکنان کے ساتھ ظلم وزیادتی کی تاریخ رقم ہورہی تھی اور سن  نوے میں پاکستان کی تاریخ میں سیاسی ہیجان کا دور دورہ تھا اورپھر سن دوہزارمیں  پرائ جنگ کو سینے سے لگا کر جرنیلوں  نے ہمارے وطن کا چہرہ جھلسا دیا ،دہشتگردی نے ہرطرف موت کا جال پھیلا رکھا تھا تب بھی ہم اخلاقی لحاظ سے اتنا نہیں گرے تھے کہ آٹھ ماہ کی بچی اور دو سالہ بچے کو بھی اپنی درندگی کا نشانہ بنا ڈالیں . ہم اتنے برباد نہیں ہوۓ تھے کہ روزانہ دس سے بارہ معصوم بچوں کو اپنی بیمار ذہنیت کا نشانہ بنائیں ہم اتنے بےراہرو نہیں ہوے تھے کہ ڈاکٹر ہسپتال میں ، پروفیسر یونیورسٹی میں اور بینک مینجر ڈیوٹی کے دوران خواتین پر مجرمانہ حملے کریں اور اپنے باوقار منصب کا خیال بھی نہ رکھیں 

یہ زمینی حقایق ہیں کوئی افسانے  نہیں سو میرا تحریک انصاف کے رہنماؤں اور"چیتوں " کو یہ مشورہ ہے کہ آپکے اپنے قائدین کی ذاتی زندگیاں  بدنامیوں میں لتھڑی ہوئی ہیں ، یہ الزمات نہیں بلکہ ثبوتوں کے ساتھ لوگ انکی ا وباشانہ زندگی کے آڈیو وڈیو لیے مارکیٹ میں آنے کو بےچین ہیں ،  مانگے تانگے کی جو حکومت ہاتھ آئی ہے وہ بھی ناکوں ناک جنسی جرائم کے وزن تلے دبی ہوئی  ہے سو بہتر ہے اپوزیشن قیادتوں  پر چور ، لٹیرے ، ڈاکو ،غدار ، کافر، بھگوڑی ، کھسرے اور " خوبصورت نانی " جیسے گھٹیا آوازے کسنے کی بجاۓ اپنے کام پر توجہ دیں

پولیس کو فعل بنائیں ذاتی پسند ناپسند ، سیاسی اثرو رسوخ کے استعمال سے گریز کریں عدالتوں میں سفارشیوں کی بھرتی اور میڈیا پراپنی نااہلیت کوچھپانے کی مذموم کوششیں بند کریں اور اسی طرح اپنے نااہل وزیروں ،مشیروں اور معاونین کے منہ بھی بند کریں

یہ نہ ہو کہ شیش محل کی بالکنی پر کھڑے ہوکر جو گندے الزمات کے پتھر آپ دوسروں پر پھینک رہے ہیں ان کا جواب اپوزیشن کی قیادتیں آپکو آپکی زبان میں دینے لگیں اورانکی دیکھا دیکھی ہرجماعت کا کارکن ،سپورٹر اور ووٹر بھی آپ کو گالی ، گلوچ ، گندہ دہنی ،جھوٹ اور الزمات کے کنکروں سے "سنگسار "کرنے پر آجاۓ کیونکہ اسکے بعد پتھروں میں مدفون آپکے بدبودار لاشے کو تاریخ بھی کھود کر باہر نہیں نکالے گی



Wednesday, October 21, 2020

عمران سیریز کی نئی کہانی ....... آزاد ترین قومی میڈیا

ہمارے بچپن میں پاکستان میں ایک ہی ٹی وی چینل ہوتا تھا اور اسکا نام تھا  "پاکستان ٹیلی ویژن " یعنی وہ ریاست کا "بھونپو " ہوتا تھا اکثر لطیفے اس بارے میں بنتے اور ہم ریاست کے اس بھونپو پر آنے والے نو بجے کے خبر نامے کو " وزیر نامہ یا وزیراعظم نامہ " بھی کہتے تھے مگر ایک بات جو اس  ریاست کے  واحد بھونپو کی موجودگی میں بہترین ہوئی وہ یہ کہ روز نو بجے "جھوٹ " سننے کے خیال نے عوام کی اکثریت کو بین الاقوامی خبریں سننے پر اکسایا. بچپن سے یہی دیکھا کہ گھر میں کبھی بی بی سی کی خبریں چل رہی ہیں تو کبھی وائس آف امریکہ کی نیوز اینکر دنیا کا حال احوال بتا رہی ہے اور تو اور آکاش وانی  ریڈیو بھی بعض اوقات ریاست کے بھارت مخالف  بیانیے کو کراس چیک کرنے کے لیے  سنا جاتا تھا  قصہ مختصر کہ  سچ  جاننے کی جدوجہد نے ایک طرف ہم بچوں کو دنیا کی سیاست سے رو شناس کروآیا تو دوسری طرف " پاکستانی ریاست و سیاست " کی درپردہ حقیقتیں جاننے میں بہت مدد ملی
محترمہ بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت نے ہمیں ٹیلی ویژن کے ذریعے پہلی بار بین القوامی نیوز چینلز  بی بی سی اور سی این این کی خبریں اور تجزیے بلا کسی کاٹ چھانٹ کے دیکھنے کا موقع فراہم کیا تو یہ آزاد معلومات 
حاصل کرنے کی طرف پاکستانیوں کا پہلا قدم تھا 
دوسرا قدم جرنیل مشرف کے دور میں نجی نیوز چینلز کی آمد تھی جن کے قیام کا بنیادی مقصد  یقینن  آزاد معلومات کی فراہمی تو نہ تھا بلکہ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اپنی مرضی کی خبریں اور اپنے منشاء کے تجزیے عوام کے ذہنوں میں پختہ کرنا تھا اور یہ حقیقی  مقصد  تین نومبر سن ٢٠٠٧ کوایمرجینسی پلس کے دوران  سامنے بھی  آگیا مگر اس بات کے باوجود کہ فوجی انتظامیہ کا میڈیا کے ذریعے عوام کو آزادانہ راۓ کے اظہار کا موقع دینے کا کوئی موڈ نہیں تھا پھر بھی جرنیل مشرف کے دور میں نیوزچینلزکوبادی النظر میں کافی آزادی تھی خبروں میں نہ سہی تجزیوں میں  حکومت مخالف رنگ ضرور جھلکتا تھا
حتی کہ  مشرف حکومت  میں میڈیا نے  ہماری عسکری قوت کے" سیاسی ونگ " متحدہ قومی موومنٹ کو ١٢ مئی ٢٠٠٧ میں کراچی کو محاصرے میں لیتے اور آج نیوز پر حملہ کرتے لائیو دیکھایا اور کسی لمحے بھی کوئی سسنسر شپ کا فرمان اسلام آباد یا راولپنڈی سے جاری نہ ہوا . اس دوران وکلاء کی تحریک ہو یا مشرف کی حکومت میں  بارہ مئی  کو پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی پر فائرنگ اور لال مسجد  محاصرہ اور وہاں چھپے طلبا و طالبات پر حملہ  ہر منٹ کی خبر ہم تک پہنچ جاتی تھی . ٹاک شوز میں وزیروں پر تیز و تند سوالات بھی جاری رہتے اور سواۓ متحدہ کے  جسکی دھونس ، دھاندلی اور غنڈہ گردی کے ہم سب عینی شاہد رہے ہیں باقی تمام سیاسی پارٹیوں اورریٹایرڈ  جرنیلوں کو بھی میڈیا کے سامنے جواب دہ ہونا پڑتا تھا. مشرف کی ایمرجینسی پلس میں یقینن میڈیا کا گلہ گھونٹا گیا مگر کیبلز کے ذریعےجن لوگوں کے پاس سیٹلائیٹ کی سہولت   موجود تھی وہ  اسی طرح تیر و تفنگ سے بھرپور ،   اپوزیشن کے بیانات سے لوڈڈ  خبریں اورٹاک شوز دیکھ سکتے تھے
اور باوجود اسکے کہ قومی میڈیا سے منسلک افراد کا خیال ہے کہ نہ مشرف سے پہلے اور نہ مشرف حکومت کے دوران کرنٹ افئیرز کے شعبے کو مکمل آزادی دی گئی مگر عوام کی راۓ جانیں تو یہ دور انکے لیے معلومات کی بہتر فراہمی کا دورانیہ تھا اسی میڈیا پر ہم نے مارچ دوہزار سات کو پاکستان کے وکلاء کی شہرۂ آفاق تحریک براہ راست دیکھی اور پھر 
اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے تاریخی خیر مقدم کو بھی لائیو دیکھایا گیا یہاں تک کہ دہشتگردی کا اندوہناک واقعہ وقوع پزیر ہوا تو وہ بھی ٹی وی اسکرین پر بغیر سنسر دیکھایا جاتا رہا بعد میں محترمہ کی پریس کانفرنس بھی لائیو ٹیلی کاسٹ کی گئی اور اسمیں کیے جانے والے سوالات بھی من وعن دیکھاے گیے
دسمبر ٢٠٠٧ میں ایمرجنسی کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا تاریخی واقعہ پیش آیا پاکستان کے طول و ارض اس واقعے سے کانپ اٹھے جسکا اثر ہمیں پاکستانی نجی میڈیا پر صاف نظر آیا .خبریں ، تجزیے ،.ٹاک شوز ہر منٹ بی بی شہید کے نام تھا اوراکثر چینلز پر  یہی صورتحال تھی  
 اسکےبعد جمہوری ،منتخب حکومت کا پانچ سالہ دور شروع ہوا اورحکومت اگر پاکستان پیپلزپارٹی کی ہو تو یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ کیا اخباروں میں لکھتے کالم نگار اور کیا اسکرینوں پر بیٹھے میک اپ زدہ اینکرز ہر کسی کے غصے ،بغض اور تنقید  کا شکار پی پی پی کی حکومت اور لیڈر شپ ہی ہوتی ہے  .  ہر نااہلی ، کرپشن ، جرم اور دہشتگردی کا الزام پی پی پی کی  حکومت پر ڈالنا بے انتہا  آسان تھا نہ صرف اپوزیشن کی تنقید کے گولے میڈیا کے ذریعے ہر لمحے پیپلزپارٹی کی قیادت کے منتظر ہوتے بلکہ عدلیہ اور فوج بھی ہر موقعے پر حکومت کے کاموں میں مستقل رخنہ ڈالتی رہیں اور اسکی داد انہیں میڈیا کے اینکرز سے ٹاک شوا اور ہر گھنٹے میں ٹیلی کاسٹ ہونے والے نیوز بلیٹینز میں بریکنگ کی صورت دی گئی 

مجھے یاد ہے ان دنوں ایک نامی گرامی صحافی سے میں نے شکوہ کیا کہ جناب چوبیس گھنٹے اپوزیشن خاص طور پر پنجاب میں حکومت کرتی نواز لیگ کی وفاق کے خلاف جلسے ، جلوس ، شہباز شریف کی " میں نہیں جانتا ، میں نہیں مانتا " قسم کی گرما گرم تقریریں اور وفاق میں حکومت کرتی پاکستان پیپلزپارٹی پر تبروں کی خبریں آتی رہتی ہیں کبھی تو وفاقی حکومت کی کسی بہتر کارکردگی ، آئینی ترامیم پر پیشقدمی ، عوامی فلاح کے کسی منصوبے کی کوئی خبر بھی چلا دیا کریں تو فرمانے لگے " بی بی یہ نجی چینلز ہیں ، آپکو حکومت کی تعریفیں  سننی  ہیں تو "پی ٹی وی نیوز "سے رجوع کریں کیوں کہ اگر ہم  نے بھی حکومت کو ہی ٹائم دے دیا تو اپوزیشن کو کون اسکا حق دے گا"  . اور تو اور وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی اور صدر پاکستان آصف علی زرداری جنکے لیے اس وقت کی اپوزیشن نے بھی کبھی " سلیکٹڈ "کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا ان پر تاک تا ک کر گھٹیا قسم کے بھارتی فلمی گانے بیک گراونڈ میں چلاۓ جاتے ،منتخب وزیروں کے کارٹون تو خیر عام سی بات تھی اور سواۓ بانی متحدہ قومی موومنٹ الطاف حسین کے سب کی ڈمیاں بنائی جاتیں  حکمران جماعت پر فقرے کسے جاتے ،پھبتیاں اڑا ئی جاتیں اور اپوزیشن کے ممبران کی نہ ٹاک شوز میں پیشیاں لگتیں نہ سخت سوالات کا سامنا ہوتااس وقت کی  اپوزیشن کے خلاف افواہ سازی پر منتج "ٹکر"  بھی نہیں چلتے تھے

افواہ سازی پر بات ہورہی ہے تو یاد رہے کہ  ایک نامی گرامی چینل جن کے مالکان  جمہوری ادوار میں  خوب " آزادی "مناتے تھے اور آجکل اندر کی ہوا کھا رہے ہیں اس چینل پر بیٹھ کرایک  اینکر صاحب جاسوسی ناولوں کی اسٹوریز بناتے اور سناتے تھے یہاں تک کہ ملک کے منتخب صدر کو اپنی قابل قدر بیوی جو پاکستان کی دو بار منتخب  وزیراعظم رہیں ان  کے قتل میں ملوث قرار دے جاتے اور ایک بار نہیں بار بار انکاموضوع یہی ہوتا تھاایک اور اپنے آپ کو قابلیت کا مینارہ سمجھنے والے صحافی نما اینکر صاحب نے کیری لوگر بل کے ذریعےسویلین حکومت پر پاکستان بیچنے کا الزام تھوپ دیا اسکے بعد بغیر کسی تفتیشی جرنلزم کے زدراری حکومت کو ریمنڈ ڈیوس کی رہائی اور مقتولین کی بیوہ کی خودکشی کا مورد الزام ٹہرا دیا مگر نہ کوئی شو سنسر ہوتا تھا نہ اینکر غائب نہ کوئی چینل آف ائیر ہوتا نہ پیمرا کے کان پر جوں رینگتی  اور سواۓ متحدہ کے جسکا کراچی میں دھونس دھاندلی کا ریکارڈ تیس سال سے کوئی نہ توڑ سکا تھا کسی کی مجال نہ تھی کہ کیبل آپریٹرز کو کوئی "صدراتی یا وزارتی "حکم دے سکے باقی متحدہ کا معاملہ الگ تھا  آج آپ اور میں سب ہی جان گیے کہ اس " دھونس دھاندلی ،میڈیائی دہشتگردی " کے پیچھے کونسی طاقتیں تھیں 

 پیپلزپارٹی کی حکومت کے بعد نواز لیگ نے وفاق کی لگام سنبھالی تو ہمیشہ کی طرح شرو ع کے سال میں  وفاق پر میڈیا ، عدلیہ اور افواج کا وہ سخت رویہ نہ تھا جیسا پاکستان پیپلزپارٹی کی منتخب حکومت کو سامنا رہا ،  ہوسکتا ہے اس بار  بھی "سو دن "کی کھلی چھوٹ والا معاملہ ہو جسکے گواہ  ایک معتبر صحافی  رہے ہیں .یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نام نہاد  آزاد میڈیا کا نواز لیگ کی حکومت کے دوران بھی جو مفاہمانہ انداز پنجاب میں شہباز شریف اور پختونخواہ میں پرویز خٹک کی حکومتوں سے تھا وہ آپکو "سائیں سرکار " کے بارے نظر نہیں آتا تھا  اور یہ کوئی انہونی نہ تھی کیونکہ پچھلے کتنے ہی سالوں سے عوام کو یہی پٹی پڑھائی جاتی رہی  کہ "سندھ صحیح ہاتھوں میں نہیں "مگر اسکے علاوہ  صورتحال  یہ رہی کہ  میڈیا نواز حکومت کی کارکردگی پر  ٹاک شوز کرنے میں بھی کافی آزاد تھا  اور خبروں کے بلیٹینز میں اگر سندھ کو تختہ مشق بناتا تھا تو نواز حکومت کی کھینچآئی بھی ساتھ ساتھ چلتی تھی  . دلچسپ امر ہے کہ ان  جمہوری ادوار  کے دوران نہ صرف حکومتوں  پر کبھی بہت زیادہ کبھی کچھ کم  تنقید ہوئی بلکہ ہم نے کچھ جرنلسٹس کو اپنی ہی برادری کے " گریبان " میں جھانکتے دیکھا اور یھاں بھی حکومتی ہاتھوں نے ان شوز پر قدغن نہیں لگائی بلکہ جرنلسٹس ہی ناراض ہوکر اس شو کے خلاف اٹھے اور شو بند کروا دیا  

اور پھر ٢٠١٤ کا اگست آگیا اور میڈیا کا قبلہ پورا کا پورا تحریک انصاف کے دھرنے عرف آزادی مارچ  کی سمت ہوگیا .کوئی  نجی چینل نہ تھا جہاں ایک سو چھبیس دن میں کسی دوسری اپوزیشن جماعت کو خبر بننے کی سہولت میسر ہو .کبھی کبھی تو یوں لگتا تھا  جیسے بچپن میں سنے لطیفے کے مطابق "ٹی وی میں طارق عزیز پھنس گیے ہیں " اب یہ عالم تھا کہ اسکرین پر "عمران خان چپک چکے ہیں " جب بھی ٹی وی آن کرو ایک ہی سین ،ایک ہی نعرےاور تو اور ایک ہی تقریرانہی دنوں کچھ  ایسے اینکرز اپنے بنکروں سے نکل کے اسکرینوں پر آدھمکے جنکے بارے میں ہم کم ہی جانتے تھے مگر وہ شاید عمران خان کے لنگوٹیے یار تھے یا بنتے تھے مگر انکی باتوں سے یہی لگتا تھا کہ" عمران خان بچپن سے ہی سیاستدان بننا  چاہتے تھے " اور یہی وجہ ہے کہ دنیا جہاں کے سیاستدانوں ، مسیحاؤں ، انقلابیوں میں جتنی خصوصیات ہیں وہ اس ایک بندے میں اکھٹی کر دی گئیں . اس براہ راست  ١٢٦ دن کی نشریات سے جہاں عمران خان جیسے کرکٹر کو سیاستدان بننے کا موقع ملا وہاں ہم جیسے اسکرین کے دوسری طرف بیٹھنے والوں کو انکی طبیعت میں غیر سیاسی ،  ڈیکٹیٹر شپ کے جرثومے پہچاننے میں بھی مدد ملی .وہ کنٹینر پر بیٹھے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کے لیے عوام کو اکساتے رہے وہ غیر سیاسی قوتوں کو نجات دھندہ اورعوام کے نمایندوں پر طنز کے تیر چلاتے ،انکی نقلیں اتارتے ، گھٹیا انداز تخاطب سے آوازے کستے اور نہ صرف حکومتی وزراء بلکہ اپوزیشن کی جماعتوں پر بھی جھوٹے الزمات لگاتے رہے جو کہ پاکستانی تاریخ میں شاید پہلی بار ہوا تھا کہ اپوزیشن کی ایک پارٹی بقیہ تمام اپوزیشن کے لیڈران کو چن چن کر صرف اس لیے ذلیل کرے کہ وہ اسکے حکومت گرانے کی کوشش میں شامل نہیں . اور یہ سب  منا ظر بھی پاکستانیوں کو پہلی اور آخری بار نجی "آزاد" میڈیا سے براہ راست دیکھنے کو ملے. پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملے سے لیکر ایس یس  پی عصمت اللہ  جونیجو کی  تحریک انصاف کے غازیوں کے ہاتھوں ٹھکائی تک ہر مرحلہ آپکو اسکرین پر طے ہوتا دیکھائی  دیا اور ایسا لگنے لگا کہ ہم سچ مچ " آزاد  قوم " بن رہے  

دھرنے کا اختتام ایک المناک سانحے پر ہوا جسمیں معصوم بچوں کو دہشتگردی کے حملے میں شہید کیا گیا یہ واقع اور اسکے بعد کویٹہ میں وکلاء کی شہادت اور بلوچستان کے نوجوان  کیڈٹس  کے المناک قتال  کی خبریں بھی عوام سے چھپائی نہیں گئیں اور باوجود اسکے کہ  شہید بچوں، وکلاء اور  کیڈٹس کے قاتل،  دہشتگردوں کے سہولت کار  ، وا قعہ کی وجوہات اور سیکیورٹی اداروں  کی نااہلیت آج دن تک عوام کے سامنے   نہیں آئی مگر ایسی  خبروں کو میڈیا سے نہیں چھپایا گیا اور سواۓ بلوچستان کے گمشدہ افراد کی خبروں کے اس " امیرترین اور بےبس ترین "صوبے کی کچھ نہ کچھ گن سن عوام کو پہنچتی رہی خاص کر پیپلزپارٹی  اور نواز لیگ کی حکومت میں ہزارہ افراد پر دھشتگردوں کے حملے ، سی پی ای سی پر کام کی رفتار اور وزیراعلی بلوچستان نواب رئیسانی کے جملوں پر میڈیا کا تمسخر .اس دوران ایک عجیب و غریب واقعہ اسلام آباد کے ریڈ زون میں پیش بھی  آیا جہاں ایک شخص بیوی اور بچوں  سمیت پوری حکومت پاکستان اور ریاست کو اپنی بندوق پر تقریبا سارا  دن ہراساں کرتا رہا اور تمام چینلز "اچھے بچوں "کی طرح ہر اینگل سے اس مخبوط الحواس شخص کو دیکھاتے رہے نہ کوئی سین سنسر ہوا نہ کسی اینکر یا رپورٹر کے جملے حتی کہ ہم نے پیپلزپارٹی کے جیالے زمرد خان کو لائیو اس جعلی دہشتگرد کے چنگل سے بچوں کو چھڑاتے بھی دیکھا . اور پھر پاکستان کی عوام نے ڈان لیکس پر اسی طرح  طبل  جنگ بجانے والے شعبدہ باز اینکرز چیختے پھدکتے دیکھے جیسےپیپلزپارٹی کےدورمیں" میمو گیٹ " ،یوسف رضا گیلانی کی نااہلی اور ریمنڈ ڈیوس کی ریھائی پر ٹر آتے دیکھے تھےا ور پھر نواز شریف پر پانامہ الزامات کی کہانی شرو ع ہوئی تو حکومت کی جیسے وہی حالت کر دی گئی جو  اس سے پہلے وزیراعظم گیلانی کی میڈیا ، عدلیہ اور اقتدار پر قابض حقیقی قوتوں نے  کی تھی 

اب قدرت کا پاکستان سے سنگین مذاق  دیکھیے کہ جس  حکومتی پارٹی اور وزیراعظم  کو  میڈیا نے پال پوس کر اقتدارتک پہنچایا  اسی  وزیراعظم نے میڈیا کا سب سے پہلے گلا گھونٹ دیا مگر بضد ہیں کہ ان کے دور حکومت میں  قومی میڈیا نہ صرف "بے انتہا آزاد " ہے بلکہ انکے خلاف ایسا پروپگنڈا کر رہا ہے  جو پاکستان کی تاریخ میں کسی میڈیا یا پریس نے اپنی حکومت کے خلاف نہیں کیا ہوگا . غیر ملکی صحافی منہ میں انگلیاں دباۓ محترم وزیراعظم کی یہ گل فشانیاں سن رہے ہوتے ہیں کہ "ہمارے ملک میں نیوز میڈیا جتنا آزاد ہے اتنا تو برطانیہ جیسے جمہوری ملک میں بھی نہیں "یہ بلاگ لکھنے کا مقصد بھی قارئین کو یہ یقین دلانا ہے کہ وزیراعظم صاحب ہمیشہ کی طرح جھوٹ اور فریب کو  شرمندہ کرنے میں کامیاب ہو گیے ہیں حقیقت اسکے بلکل برعکس ہے جو وہ کہہ  رہے  ہیں . افسوس ہی کرسکتے ہیں ان اینکرز ، نیوز  ڈاریکٹرز اور میڈیا مالکان پر جو اس  جھوٹ کو تسلیم  کرتے  ہیں  .اب حالات یوں ہیں کہ خبریں جو کبھی نیوز "اینکرز "کیا کرتے تھے صرف نیوزکاسٹر کٹھ پتلیوں کی طرح دہرا دیتے ہیں ہاں "ٹھیکہ "لگانا نہیں بھولتے جیسے یہاں کسی جگت بازی کا مقابلہ ہورہا ہو . رپورٹرز لائیو نہیں لیے جاتے تاکہ حقیقت حال لائیو نہ بتادیں.ٹاک شوز کے دوران مہمانان تو کیا میزبان کے بھی بہت بار صرف "لب ہلتے " ہیں مگر ان میں سے آواز غائب ہوتی ہے جو خبر سوشل میڈیا پر گرم ہوتی ہے وہ نیوز میڈیا سے غائب رہتی ہے .جبری گمشدہ افراد کی خبریں تو ہم نے کسی دور میں بھی آزادانہ رپورٹنگ کے ذریعے نہیں دیکھی تھیں مگر اب تو عجب دور ہے کہ کسی معروف صحافی یا سرکاری افسر کےغائب ہونے کی اطلاع تو نہیں دی جاتی مگر "برآمدگی " کو بار بار ہیڈنگ بنایا جاتا ہے یہی حال تحریک انصاف کے زیر تسلط صوبوں کا ہے جہاں پر پاکستانی قومی میڈیا کے مطابق  جرائم نہیں ہوتے مگرملزم  پولیس کی "بہترین کارکردگی" کی وجہ سے پکڑے جاتے ہیں اب کوئی سادہ لوح پوچھے بھائی ! جرم کی توکوئی خبر نشر ہوتی نہیں ملزم کس کو بنا رہے ہو ؟؟    سیاسی خبروں کا یہ حال ہے کہ کسی اپوزیشن لیڈر کی تقریر نہیں تو کسی کی پریس کانفرنس سنسر ہے کسی کا جلسہ غائب تو کسی کا احتجاج  ! اور تو اور کچھ منتخب عوامی نمایندوں کے  نام خبروں میں لینا " منع "ہیں انکے انٹرویوزآورتصاویرتک نشر نہیں کیے جاتے .  ا ور جو  صحافت کے نامی گرامی  صاحب فرماتے تھے کہ نجی چینلز اپوزیشن کے لیے ہیں اسلام آباد کی تعریفیں "ریاست کے بھونپو" پر دیکھیں وہ تحریک انصاف اور اسکے اجداد کی مہربانی سے آجکل  بیروزگار ہیں اور میرے اس سوال کا جواب دینے کو تیار نہیں کہ محترم  یہ وہی نجی چینلز ہیں مگر آج  کی خبریں "وزیرنامے اور وزیراعظم نامے " سے بھری ہیں  اور مزید تکلیف دہ امر یہ ہے کہ یہ حکومتی تعریفوں کا پلندہ صرف نو بجے نہیں کھلتا بلکہ برطانوی میڈیا سے زیادہ آزاد پاکستانی میڈیا ہر دوسرے گھنٹے پر نیوز بلیٹنز میں  ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ وزیراعظم اوران کی کابینہ برطانوی  وزیراعظم اوراسکی کابینہ سےزیادہ طاقتور و  بااختیار ہے.  دلچسپ بات یہ  ہے کہ حکومتی اختیار اور طاقت  اکثر میڈیا کی "آکسیجن " کی فراہمی منقطع  کرنے پر خرچ کی جاتی  ہے اور اگر کچھ صحافی سانس لینےسوشل میڈیا پرپہنچ جائیں تو انکی شامت "ٹائیگرز "کے ہاتھوں آتی ہے .وہ ٹک ٹاک جسکی "گرلز " نے نوجوان ذہنوں کو "ہینڈسم تبدیلی دیوتا" کی طرف مائل کیا یوٹیوب چینلز پر آخری خبریں آنے تک اسپر بھی پابندی لگ چکی اور تمام ٹک ٹاک پریاں بھی سوشل میڈیا کے ذریعے  آٹھ آٹھ آنسوں بہا کر  دیکھا چکیں

 قصہ مختصر کہ جس جس شعبے نے "تبدیلی " کو اپنے کاندھے پر لاد کر کرسی تک پہنچایا اسی شعبے کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر اسکو زندہ درگور کرنے کا فریضہ پاکستان تحریک انصاف نے ان دو برسوں میں سر انجام دیا .تبدیلی یقینن آگئی ہے مگر یہ تبدیلی ترقی سے تنزلی اور آزادی سے غلامی کی طرف تبدیلی ہے وزیراعظم اور انکی کابینہ جو انکی طرح ہی جوکروں پر مشتمل ہے شاید جانتی نہیں کہ کچھ لوگوں کو کچھ وقت کے لیے بیوقوف بنایا جاسکتا ہے جو کہ انہوں نے کیا ! مگر ہمیشہ کے لیے سارے لوگوں کو بیوقوف بنانا ناممکن ہے،  جو کہ تاریخ  نے ہمیشہ ثابت کیا  ہے 


Sunday, September 20, 2020

لیڈر کی تلاش

لیڈر کی تعریف ہر انسان اپنے میعار کے مطابق  کرتا ہے. کچھ لوگوں کے لیے لیڈر کا ذہین اور بہادر ہونا ضروری ہوتا ہے اور کچھ کے لیے صرف "ہینڈسم " ہوجانا ہی کافی ہے چاہے دماغ میں بھوسہ بھرا ہو اور بہادری بس ڈینگیں مارنے تک ہی  محدود ہو
اسی لیے عالم فاضل اور تجربہ کار افراد نے مل کر ایک بہترین لیڈر کی  بےانتہا خصوصیات کی جامع  درجہ بند ی کر دی  ہے  ا ور اگر اس دریا کو کوزے میں بند کرنا چاہیں تو دس ایسی خصوصیات ہیں جو آپکو اپنے گھر ، شعبے حتی کہ ملک کا لیڈر بھی بنا سکتی ہیں 
ریسرچ بتاتی ہے کہ کچھ لوگ قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں مگر بہت سے افراد اپنے اندر چھپی ان  صلاحیتوں کومزید  جلا بخش کرمعاشرے کو فایدہ پہنچا سکتے ہیں  اورپھر کبھی کبھار کچھ  افراد اپنی شخصیت میں ان خوبیوں کو  پیدا بھی کر سکتے ہیں 
آج اس بلاگ میں ان دس صلاحیتوں کی مختصر تعریف بیان کر کے میں آپ سے چاہوں گی کہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر نئی نسل کی وہ شخصیات تلاش کریں جویہ دس خصوصیات اپنے اندر رکھتی ہوں اور آنے والی نسلوں کو اپنی  ان صلاحیتوں سے فایدہ پہنچا سکیں 

  قا ئدانہ صلاحیت نمبر 1 
آپ قاید ہیں تو آپکے پاس  ایک خاص نظریہ ،ویژن یا آسان لفظوں میں ایک "نعرہ " ہونا ضروری ہے ، اس  ویژن پر آپکا ذہن مکمل اعتماد لیے ہوۓ ہوگا آپ خود  واضح ہونگے تبھی آپکے فالوورز کا  نظریہ اور مقصد بھی مستقل ہوگا 
 
 قا ئدانہ صلاحیت نمبر  2
لیڈر میں جمود نہیں آتا وہ مستقل مزاجی سے نہ صرف اپنے آپکو اپنے نظریات کے ذریعے خوب سے خوب تر بناتا ہے بلکہ اپنے  پیروکاروں کو بھی ذہنی پسماندگی سے نکالتا ہے ایک بہترین استاد کی طرح اچھا لیڈر اکثر لیکچرز دیتا  ، نوٹس  لکھواتا ، سوالات اور جوابات کے طویل  سیشن کرتا اور معاشرے کے مختلف طبقات سے" کچہری" کرتا ہوا پایا جاتا ہے 

قا ئدانہ صلاحیت نمبر 3 
اگر کسی قوم یا ملک کے قاید میں  انفرادی بہادری اورپے در پے  مصیبتوں کو منہ دینے کی جرأت نہ ہو تو اسکو اپنے "لیڈر " ہونے پر بلکل بھی اصرار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس صفت کی کسی لیڈر میں اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے جتنی زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی ! اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مصنوعی طریقہ کآر سے آپ کسی شخص کو آکسیجن دے کر لمبے عرصے تک زندگی کے کاروبار میں شریک کرسکتے ہیں تو پھر یقینن آپ کسی بزدل اور کم ہمت شخص کو "جرأت مند " کے طور پر قوم کے سامنے پیش کر کے کچھ عرصے تک تو  قوم کے کچھ افراد  کو بیوقوف بنا سکتے ہیں مگر ہمیشہ کے لیے ساری قوم کو بےوقوف بنانا ناممکنات میں سے ہے 

قا ئدانہ صلاحیت نمبر 4
 لیڈر فیصلہ ساز ہوتے ہیں اچھے پیشرو فیصلہ کرنے سے پہلے مشاورت کرتے ہیں اور فیصلہ لے لیں تو پیچھے ہٹنا انکے لیے موت کے برابر ہوتا ہے اسی لیے اچھے لیڈر کا ایک ہی وقت میں ذہین اور مستقل مزاج ہونا ضروری ہے 

قا ئدانہ صلاحیت نمبر 5 
ہر خاص و عام میں یکساں مقبولیت ایک لیڈر تبھی پا سکتا ہے جب وہ اظہار خیال کرنے اور دوسروں کی راۓ سننے میں مہارت رکھتا ہو کوئی قوم اپنے قاید سے دلی تعلق پیدا نہیں کرسکتی اگر وہ انکے مسائل سننے اور ان مسائل کا حل پیش کرنے میں ناکام رہے حتی کہ جیسے ڈاکٹروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اچھا ڈاکٹر مریض کی زبانی اسکی حالت کو ہمدردی سے سن لے تو مریض کا آدھا مرض ختم ہوجاتا ہے اسی طرح اچھا لیڈر وہی ہے جو اپنے پیروکاروں کے مسائل ، راۓ ، تنقید ، سوالات اور اپنے بارے میں خیالات کھلے دل اور ذہن سے سنے اور ہمدردی سےمسائل کا حل ڈھونڈنے پر توجہ دے 

قا ئدانہ صلاحیت نمبر 6
 امید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کمزور کا طاقتورکے خلاف ایسا ہتیار ہے جو  طاقتور کو باوجود تمام تر طاقتوں کے خوفزدہ رکھتا ہے اور اچھا لیڈر اپنی قوم ، اپنے گروہ میں  امید کو اسی لیے  کبھی مرنے نہیں دیتا  
ہمیشہ اچھے دنوں کی آ س کو نہ صرف اپنے الفاظ اور نظریات سے قایم رکھتا ہے بلکہ اپنے فالوورز کو وہ  عملی طریقے بھی بتاتا ہے جن سے مستقبل میں بہتری آنے کی امید بندھے

قا ئدانہ صلاحیت نمبر 7
  گیا وقت ہاتھ نہیں آتا اور ایک لیڈر اس محاورے کو اپنی زندگی کا محور بنالیتا ہے خوشیاں ہوں یا غم آپکو قاید کا ساتھ ہر حال میں ملتا ہے وہ اچھے برے وقت اور مشکل کے لمحات پر اپنی قوم کے ساتھ کھڑا  رہتا  ہے  
وہ " لیڈر " نہیں  جو قومی یا گروہی  خوشی میں مبارک باد کی تقریر سے آپ کو مطمین کر دے مگر آپکے  قومی غم میں کسی دیوار کے پیچھے چھپ کر روتا رہے یا اپنے نرم گرم بستر میں سوتا رہے . ایسا مرد یا عورت  گھر تو اچھے برے طریقے سے شاید  چلا سکتے ہیں مگر  ملک و قوم کی ذمہ داری کبھی  نہیں اٹھا سکتے  

قا ئدانہ صلاحیت نمبر 8 
اچھا قاید ایک اچھی ٹیم کا بھی سربراہ ہوتا ہے کیونکہ انسان کتنا بھی ذہین و فطین ہو ، تجربہ کار اور حوصلہ مند ہو، بہتر فیصلے کرنے  کی تاریخ رکھتا ہو مگر کوئی ایک کمزور لمحہ یا تیزی سے تبدیل ہوتے نامساعد حالات اس سے غلط فیصلہ کروا سکتے ہیں ایسے میں  ایک اچھی ٹیم جو تجربہ کار اور نظریاتی افراد پر مبنی ہو مشاورت کے ذریعے بہتر فیصلے تک پہنچاتی ہے اور پھر ان فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بھی قاید کے شانہ بشانہ کھڑی رہتی ہے  

قا ئدانہ صلاحیت نمبر 9
لیڈر کی سب سے ضروری صلا حیت اپنے اردگرد کے لوگوں میں بہتری کی طرف بڑھنے کی جستجو پیدا کرنا اور انکو منزل پر پہنچآنے کے لیے بہتر اور کامیاب راستے دیکھانا ہوتا ہے .اگرکوئی گروہ کسی شخص کی رہنمائی سے بہتری کی بجاۓ بدتر صورتحال پر پہنچ جاۓ اور ترقی کے راستے ،  بنیادی نظریات پر ایمان ختم ہوجاۓ تو یقینن جان لیں چاہیے کہ وہ مرد یا عورت آپکو "لیڈر "کے بھیس میں دھوکہ دے رہے ہیں  

قا ئدانہ صلاحیت نمبر 10
 کرشماتی شخصیت ایک لیڈر کو ہر دلعزیز بناتی ہے  شخصیت کا یہ خاصہ عموما خدا داد ہوتا ہے اور صرف اس ایک 
 خصو صیت پر درو مدار کرنے سے آپ ہجوم کو اپنی طرف کھینچ تو سکتے ہیں مگر ساتھ لیکر منزل تک پہنچ نہیں سکتے 

ان خوبیوں کا جایزہ لینے سے آپکے ذہن میں ایک اچھے اور کامیاب  لیڈر کی تصویر کشی ہوگئی ہوگی مگر ساتھ یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ  بزدل ،  متکبر ، جابر ، اناپرست ، جلد باز ، احمق  اور کاہل افراد اول تو کبھی کامیاب لیڈر نہیں بنتے اور     اگر حالات و واقعات انکو اس درجے پر پہنچا بھی  دیں تو بھی وہ بہت جلد تاریخ کےکوڑے دان میں پہنچ جاتے ہیں 

پاکستان کی بہتر سالہ تاریخ میں ہمیں اچھے برے ہر قسم کے لیڈر ملتے ہیں اور ہم روز میڈیا ، سوشل میڈیا، اخبارات  اور کتب میں ان کا ذکرکرتے رہتے ہیں   اس لیے بجاۓ ماضی کے اوراق کھنگالنے کے میں آنے والے برسوں میں ابھرنے والے "لیڈر " کی پہچان پر زور دونگی تاکہ  آئیندہ نسلوں کو اس خطے میں  وہ قاید ملے جسمیں یہ قائدانہ صلاحتیں بدرجہ اتم موجود ہوں اور وہ ان سے کام لیکر ملک و قوم کو بہتری کی طرف گامزن کر سکیں 
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان صلاحیتوں کا مالک نئی نسل میں سے کون ہے ؟؟
اس کا فیصلہ آپ کو خود کرنا ہوگا کہ کیا آپ جس مرد و خاتون کو اپنا قاید سمجھتے ہیں کیا وہ ان خوبیوں کا مالک ہے ؟
یہ پرکھ آپکو دیانتداری سے کرنی ہوگی کہ آئیندہ کون  سی شخصیت اس ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل ہوگی
حقیقت حال یہ ہے کہ چھوٹے صوبوں میں جو نئی نسل کے قائدین ان حالات میں ابھر کر سامنے آئیں ہیں  ان میں یہ قائدانہ صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہیں وہ اپنے علاقوں کے ہی نہیں پورے پاکستان کے بھی  زمھدار لیڈر بن سکتے ہیں  
مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے دانشور جوہر شناس نہیں ،  ہماری اشرافیہ  مفاد پرست  ہے اورہمارے جمہوری ادارے کوتاہ بین ہیں  
اس لیے مجھے خوف ہے کہ ہمیشہ کی طرح ہم منزل کے قریب پہنچ کر بھی بھٹکتے ہی  رہیں گے