Tuesday, August 1, 2017

قفل



اس اداس بستی میں

 بھوک سے سسکتے لوگ

 اپنی خالی آنکھوں میں دکھ کے خواب رکھتے ہیں

 اپنے خالی ہاتھوں کو دیر تلک تکتے ہیں

 انتظار ہے انکو ایک ایسے لمحے کا

  جب لکیریں ہاتھوں کی اس  سسکتی قسمت کے

 ............    بند قفل کھولیں گی    


        آئینہ   

Thursday, June 22, 2017

Happy Birthday .....Shaheed Benazir Bhutto .......

 " Military hardliners called me a 'security threat' for promoting peace in South Asia and for supporting a broad-based government in Afghanistan" 



"Military dictatorship is born from the power of the gun, and so it undermines the concept of the rule of law and gives birth to a culture of might, a culture of weapons, violence and intolerance."



ایک درخواست

جب تارے میری آنکھوں کے تھک جائیں
.............
 !!! تب تم لوٹ آنا 

Tuesday, April 18, 2017

معلوم افراد


کراچی کے گلی کوچوں میں" نامعلوم افراد" کےالفاظ بالکل بھی اجنبی نہیں.  ایک طویل عرصے تک آپ نے پاکستانی پرنٹ میڈیا ، الیکٹرانک نیوزمیڈیا اور پھرسوشل میڈیا سمیت اپنے ہمسایوں تک سے"نامعلوم افراد " کی شکایا ت سنی ہونگی.    یہ نامعلوم افراد کبھی بھتہ ، ٹارگٹ کلنگ ،جلاؤ گھیراؤ اورچائنا کٹنگ کے حوالوں سے خبروں میں  "جلوہ افروز "  ہوتے رہے تو کبھی میڈیا پردھاوا بولنےسےلےکرمقامی اخبار کے ایڈیٹرکو اپنے "نامعلوم قاید" کے سامنے سجدہ ریز ہونے پرمجبور کرنے میں پیش پیش رہے
ایک عمر ہم نے گزاری کہ کسی مہینےیہ نامعلوم افراد ہماری گاڑی چھین لیتےتھے توکسی مہینے موبایل فون، کبھی سونےکی چوڑیاں توکبھی نئی نویلی رسٹ واچ  ........ قصہ مختصر کہ نامعلوم افراد ہماری زندگیوں کا اسی طرح حصہ رہے جس طرح گرم گرم چاۓ جومنہ بھی جلاۓ اورکلیجہ بھی مگربری عادت  سے چھٹکارہ پا نا کہاں آسان ہوتا ہے
 آج تیزی سے بدلتے فیشنز کے درمیان جہاں  زبانوں کا میعاراورالفاظ کے معنی  بدلتے جارہے ہیں وہاں " نامعلوم افراد " کی جگہ اب تیزی سے " معلوم افراد " نے لے لی ہےآج سے پہلے تو ہم نامعلوم افراد کی غنڈہ گردیوں . بھتہ خوریوں اور ٹارگٹ کلنگز سےنالاں تھےاوراب نئے فیشن کے ساتھ ہی "معلوم افراد " کے زیرعتاب ہیں. عوام کو اطلاع ہو کہ  یہ نئی بلا مقامی طورپرتیارکردہ ہے یہ معلوم افراد چوبیس گھنٹے آپکےڈرائینگ رومزاورلاونجزسے ہوتے ہوئےآپکے بیڈ رومزمیں "گھس" بیٹھتے ہیں آپکےکانوں اورآنکھوں کے راستے آپکے دماغوں پرچائنا کٹنگ کے ذریعے قبضہ کر لیتے ہیں
آپکی عقل کی ہر گھنٹے پر ٹارگٹ کلنگ ہوتی ہے اور آپکے اعصاب میں ڈرل کر کے آپکو تعصبات کی بوریوں میں بند کر دیا جاتا ہے
میرے خیال میں ان لائینوں  کو پڑھتے ہوئے وہ تمام قارئین جو "متاثرین معلوم افراد" ہیں جان جائیں گے کہ میں کن افراد کا ذکر کررہی ہوں . بدقسمتی سے ہم سب ہی  صبح ، دوپہر ، شام اور رات گیے تک ان "ٹارگٹ کلرز " کا نشانہ بنتے ہیں اوراپنے ہوش و حواس ان ظالموں کےہاتھوں کھو بیٹھتے  ہیں
ابھی کل کی بات ہے  ایک "معلوم "صاحب اپنی شہرہ آفاق ڈھٹائی اور اینکرز کی مروجہ بد اخلاقی کا مظاہرہ  فرماتے ہوۓ عوام  کے درمیان موجود ایک شخص پر پل پڑے. ناخواندہ افراد کا  جم غفیر ہو ، آپکے ہاتھ میں مائیک اور ساتھ میں نیوز چینل کے مونو گرام والا کیمرہ ہو تو اردگرد موجود لوگ کیا سیکھیں گے ؟؟
ہر ایک نے اس شخص پر تھپڑوں ، مکوں اور ٹھڈوں کی بارش کردی سو اس "موب لنچنگ "کو "آزاد میڈیا" کا مفہوم زبردستی پہنایا جاتارہا  
یہی بہروپیا جو اپنے کو "اسکرین کا ہیرو " اور محلوں کا مسیحا ثابت کرنا چاہتا ہے کل ایک سرکاری ملازم کے سرکاری دفتر میں گھس کر اپنی جہالت آمیز صحافت کرنے کی بھرپور کوشش کرنے لگا 
کچھ ماہ پہلے بھی ایک معلوم صاحبہ سرکاری دفتر میں بے نتھے بیل کی طرح گھس کر فساد برپا کرتے ہوے  ایک عرض دار سے فرماتی ہیں"دل چاہتا
ہےآپکوایک کس کےلگاؤں" اور اسی کے ساتھ  کیمرے کی آنکھ  نے یہ  افسوسناک منظر دیکھا کہ  ایک باپردہ خاتون کو  زور دار تھپڑ  مارا گیا . اس سے پہلے ہم ایک خاتون کو سیکیورٹی گارڈ کی یونیفارم پر "ہاتھ " ڈال کراپنے حصے کی خوراک  کھا تے دیکھ چکے ہیں مگر یھاں معاملہ  معلوم افراد کے  ہاتھ میں تھا کیوں کہ سامنے ایک عام سی باپردہ سویلین خاتون تھیں تو یہ بھی ایک حسین اتفاق ٹہرا کہ  جسطرح نامعلوم افراد" یونیفارم "سے ہی دبتے ہیں معلوم افراد بھی یونیفارم سے ہی  حسب ضرورت پٹ کر امن میں آتے ہیں
ان معلوم وارداتیوں کی بہت سی وارداتیں شاید ہم تک نہ پہنچتیں مگر اللہ بھلا کرے "سوشلستان " کا کہ وہاں انکے چہرے اور کرتوت دونوں اپنی تعلیمی قابلیت اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو منوا رہے ہوتے ہیں
کچھ عرصے  پہلے معلوم افراد نے نامعلوم افراد کے گھرپردھاوا بولا اسکی ریکارڈنگ سکرینوں پر پہنچنے سے پہلے سوشل میڈیا کی زینت بن گئی جہاں ہم سب نے دیکھا کہ کس طرح جانے پہچانے چہروں نےایک شخص اور اسکے خاندان کی عزت صرف اپنے ریلٹی شو کی ریٹنگ کے لیے مٹی میں ملا دی
اسی طرح کا ایک واقعہ  سوشل میڈیا پروائرل ہوا جس میں  ایک معلوم فرد دو سادہ لوح بندوں کو روک کر پوچھتے دیکھا گیا کہ  " آپ دونوں کیا  لیسبین  ( ہم جنس   پرست) ہیں.  یہ سوال "اینکر" کے بھیس میں موجود ایک عدد متکبر اور جاہل شخص نے ایسےموقعے پر کیا جب پاکستان کےاُس واحد سیاستدان کی اڑتیسویں برسی منائی جارہی تھی جس نے غریبوں کو آواز دی اورعزت نفس کا سبق دیا
مگر شرم کا مقام ان تمام تعلیم دینے والے اداروں کا اور پیشہ وارانہ صحافت  کی آ ماجگاہوں کا جہاں کوئی استاد اس جہالت کے شہکار کو یہ نہ سیکھا سکا کہ تعلیم ڈگریوں میں نہیں اس رویے میں ہے جو تم اپنے سے کم تعلیم یافتہ سے روا رکھتے ہو
    انگریزی کا یہ لفظ لیسبین جو ہمارے معاشرے میں عام طور پراستعمال بھی نہیں کیا جاتا اسکو ایک عوامی اجتماع میں موجود  افراد سےاستہزا کرنےکے لیے استعمال کرنا سواۓ عوام کی ہتک، ایک خاص سیاسی پارٹی کے ہمدردوں سے تعصب اورصحافت کےگرتے ہوئے میعارپرمہرثبت کرنےکے علاوہ  کچھ  بھی نہیں
اپنے ناموں اور چہروں پر فخر کرتے یہ معلوم افراد بھتہ خوری کی بیماری میں اس قدر مبتلا ہیں کہ جب تک "بکتی " شے کسی خبر یا کسی کی قبر میں سے نہ ڈھونڈ لیں انکو چین نہیں آتا
ملک چلانے والے منتخب رہنماؤں ، سیاسی پارٹیوں اور جمہوری اداروں پر صبح و شام تنقید کرتے یہ نام نہاد تعلیم یافتہ معلوم افراد شاید یہ نہیں جانتے کہ جس دودھ کو آپ اپنے تکبر،جہالت ،تعصب اور تنگ نظری سے زہریلا کر چکے ہیں اسپرکبھی بھی مصفا بالائی نہیں آسکتی آپ عوام کےکردارکوکرپٹ اور متعصب کرکےاگریہ سمجھتےہیں کہ   آپکو  امانت داراورمنصف مزاج حکمران مل جائیں گے تو یہ آپکی بھول ہےایسا کبھی نہیں ہوگا اورایسا نہ ہونے کے ذمہ داروں میں یہ معلوم افراد اگلی صفوں میں ہونگے

Wednesday, February 22, 2017

آپ کو بلاک کیا جاتا ہے !

آپ کو بلاک  کیا جاتا ہے                                        

جناب میں آپکے دروازے پر کافی دیر سے دستک دے رہی تھی ماجرا یہ بیان کرنا تھا کہ آپکے ہمساۓ میں جو بڑے  صاحب رہتے ہیں انکے گھر سے درد بھری چیخوں اور سسکیوں کی آوازیں آرہی ہیں کیا آپ یہ معلوم کرکے بتا سکتے ہیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے؟؟  اوردھڑ کی آواز کے ساتھ آہنی دروازہ میرے منہ پر بند کر دیا جاتا ہے... ....بند دروازے کے اوپر بڑا بڑا لکھا ہے......تمہیں بلاک کیا جاتا ہے
 عرض  ہےکہ یہ واقعہ حقیقی نہیں مگرمجھےاورآپکو ایسے ہی واقعات کا سامنا روزسوشل میڈیا پرہوتا ہے" تفتیشی صحافت " کے علمبردار صحافی اور اینکرز بڑے طمطراق سے بیرون ملک اپنی یاداشتوں کا ذکر ٹویٹس اور سٹیٹس اپڈیٹس کے ذریعے کر رہے ہوتے ہیں یا پھر اپنے کالمز پر داد کے طالب ہوتے ہیں اس تڑکے کے ساتھ کہ فلاں کالم میں دس سال پہلے ہی میں یہ پیشگوئی کر چکا ہوں جو آج حرف بہ حرف پوری ہو رہی ہے یا پھر سیاستدانوں پر لگے الزمات اور انکے دوستوں رشتےداروں کی جانی مانی فہرستوں کو قارئین  و ناظرین سے شئیر کر کے اپنے لیے داد اور اپنے مخبر کو سیاسی شوز میں  "چڑیا ، کوا  یا چھچوندر " کا نام دے کر واہ واہ کے طلبگار ہوتے ہیں
ایسے میں آپ انکی" میٹھی میٹھی تفتیش" کا رخ زمینی حقایق کی طرف موڑ دیں توانکی جان ہی تو جل جاتی ہے. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حقیقی صحافت کیا ہے ؟
صحافییوں کی مستند تنظیموں کے مطابق صحافتی اقدارکا مطلب ھی صحافی  برادری کی طرف سے ایسی کوششیں ہیں جس میں اس بات کو یقینی بنایا جا  سکے کہ  معاشرے کے باشعوروبےشعور،تعلیم یافتہ اورغیرتعلیم یافتہ ہردو قسم کے افراد کو معلومات کی فراہمی اس طرح یقینی بنائی جاۓ کہ یہ معلومات " غیر جانبدارانہ ، مکمل اورمستند " ہو
  مزید یہ کہ تفتیشی صحافت کا مطلب جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ایسی صحافت جس میں عوام  سے چھپائی جانی والی خبروں اور اسکینڈلز کی اس طرح تفتیش اوررپورٹنگ کی جاۓ کہ طاقتوراداروں کی جانب سے ملکی قانون اورمعاشرتی اصولوں  کی انفرادی اوراجتماعی خلاف ورزی ثابت ہوجاۓ
اس طرح  اداروں کی  سنگین غلطیاں اورافراد کی مجرمانہ غفلت کو ایک مکمل رپورٹ کی صورت میں ثبوتوں کے ساتھ  عوام تک پہنچایا جاۓ کہ ان مجرمانہ لاپرواہیوں کی نشاندھی ہوسکے. اس کے علاوہ  معاشرے میں موجود مجرمانہ رجحانات کی نشاندھی انکی وجوہات اورتدارک بھی  تفتیشی صحافی کے فرایض منصبی میں داخل ہے
صحافت اور تفتیشی صحافت کے بارے میں یہ تمہید باندھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ کسی کمرے میں بند کوئی بھی خاتون یا حضرت یہ دعوی نہیں کر سکتے کہ وہ تفتیشی صحافت کی توپ ہیں اس دعوے کے لیے انہیں "کمرے سے باہر "نکلنا ہوگا یہ کام ہی زمین پر حقایق تلاش کرنے کا ہے اورزمین پرموجود جس مخلوق سے آپ ان اسکینڈلز کے بارے میں معلومات اورانکی حقیقت کے بارے میں ثبوت اکھٹے کرتے ہیں  وہ آپکے دائیں بائیں موجود ہونی چاہیے اور حقیقت حال یہ ہے کہ ایک تفتیشی صحافی بلکہ ایک عام سا رپورٹر بھی زمین پر ہونے والے واقعات ا ورانپرعوامی راۓ جانے بغیرکچھ نہیں کرسکتا
مگر جسطرح ہم نے پاکستان میں تاریخ سے سیاست تک کو دیسی بگھار لگا کرکوئی نئی ڈش بنا لی ہے اسی طرح تفتیشی صحافت کو بھی چڑیا، طوطے کی لائی ہوئی افواہوں میں ڈھونڈ لیتےہیں اورپھر انہی افوہوں کو نمک مرچ لگا کر رنگ برنگی ٹائیوں اورمیک اپ زدہ چہروں کےساتھ شام سات سےرات بارہ بجےتک پیش کردیتےہیں یہ  مصالحے دار ڈش کھانےوالےناظرین کا بقیہ رات میں کیاحشرہوتا ہے؟؟ یہ نامور صحافیوں اور سینئیرتجزیہ نگاروں کا مسلہ نہیں
برسوں  پہلے اخبارات  اور نجی محفلوں میں ملاقات کے ذریعے  مشہور کالم نگار اور صحافی داد بٹورتے تھے  کچھ کھرے صحافیوں پر سخت وقت بھی ساتھ ساتھ گزرا مگر صرف ان صحافییوں پرجنہوں نےحقیقت میں تفتیشی صحافت کی اور پاکستان کے واحد " منظم " ادارے کی کالی دیواروں کے پیچھے جھانکنے کی کوشش کی یا کم سے کم کالی دیوار پر عوامی نعرے لکھنے کی سعی کی مگر سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا  آنے کے بعد ایسے صحافی آٹے میں شاید نمک کے برابر بھی نہ رہے....جو تھے انکو ریاست ، اسکے گماشتے اور تنظیموں کی چھپر چھاؤں میں پلتے غنڈوں نے ایک ایک کر کے دوسرے جہاں بھجوا دیا  باقی جو اپنے نام کے ساتھ "انوسٹیگیٹو جرنلسٹ "لگاتے ہیں اللہ جانے کہاں سے معلومات ،اور ثبوت اکھٹے کرتے ہونگے ؟
آجکل کے صحافی نما اینکرز اور سینیر تجزیہ کار نامی مخلوق تو صرف اپنےرات کے شو پر اور صبح کے کالم پر فل ٹایم تعریفی جملوں کی موسلا دھار بارش چاہتی ہے
خواتین اینکرز سیلفیو ں کے ذریعے اپنی بے پناہ ذھانت کا پرچار کرتی ہیں اور مرد بیرون ملک دوروں کو اپنی ذھانت کی کامیابی قرار دیتے ہیں
ایسے میں کوئی مجھ  جیسا دروازہ کھٹکھٹا کر " طاقتور ہمساۓ  کے گھر میں اٹھتی چیخوں " پر تفتیش کرنے کی درخواست  دے تو صحافت اور صحافی دونوں کا منہ کڑوا ہوجاتا ہےاللہ بھلا کرے فیس بک اور ٹویٹر بنانے والوں کا کہ جنہوں نے "بلاک " کا آپشن دے کر ہم جیسے گستاخوں کو اپنی اوقات میں رہنے کا موقع فراہم کر دیا
بچپن  میں ہم ایک کھیل  "چھپن چھپائی " یا  " لکن مٹی " کے نام سے کھیلتے تھے بڑے شہروں کے مزید مہذب بچے اسی کھیل کو "چور سپاہی " کا نام دیتے تھے مختصر یہ کہ بچوں میں یہ کھیل بہت مقبول تھا  ایک بچہ بچوں کے ایک گروپ کو ڈھونڈےاوروہ مختلف جگہوں میں چھپ کربیٹھ جائیں پرانے زمانے میں بڑے یہ کھیل نہیں کھیلتے تھےمگر آج "بڑے بڑے "یہ کھیل سوشل میڈیا پرکھیلتے ہیں . تین سال پہلےمیں نےٹویٹرپراپنا اکاونٹ بنایا اوردو مہینے کے اندر اندر ایک "مستند مانےجانےوالے" اینکرنما تجزیہ کارنےبلاک کیا تو مجھے بچپن کا یہ کھیل یاد آگیا لیکن ٹویٹر پر خود کو سپاہی  ثابت کرنے والا تفتیشی صحافی چوروں کو ڈھونڈنے کی بجاۓ بلاک آپشن کے ذریعے  بذات خود چور ثابت  ہوجاتا ہے اور اپنے گرد اونچی دیواریں بنالیتا ہےاور کیوں نہ بناۓ ؟؟  چھتیس سال تک فوجی بوٹوں کےساۓ تلےرہنے کے بعد اگرہم  سمجھتے ہیں کہ ٹویٹر پر اکاونٹ بنانے والے بڑے بڑے نام  جو اپنے شوزاور نیوز بلیٹنز میں ہر دوسرے سیاستدان یا حکمران کو شیطان کا بھائی قرار دینے پرتلے ہوتے ہیں ،  وہ جمہوری ذہنوں کے مالک ہونگے تو ہماری  یہ سوچ بالکل غلط ہے ایسی "بچگانہ سوچ " رکھنے والوں کو ذہین و فطین صحافی بلاک نہ کریں تو کیا کریں ؟
آپ پوچھ سکتے ہیں  کہ اگر ہم عام لوگوں کو بلاک آپشن استعمال کرنے کی آزادی ہے تو صحافی کو کیوں نہیں ؟؟ بالکل آزادی ہے جناب ! مگر صحافی اورخاص طورپرتفتیشی صحافی کوزیب نہیں دیتا کہ وہ ہر دوسرے ٹویپ  کوبلاک کر دے ! کیا ایسے صحافی نہیں جانتے کہ  "اندر کی خبریں " حاصل کرنے کے لیے آپ میں برداشت کی کتنی قوت ہونی چاہیے ؟ آپکا حوصلہ کتنا بلند ہونا چاہیے اور آپکی کھال کتنی موٹی ہونی چاہیے ؟
 تو پھر بلاک کب کیا جاۓ ، کس کو کیا جاۓ اور کب تک کیا جاۓ؟مختلف بلاگز اور اخبارات میں چھپے اعداد و شمار یہی بتاتے ہیں کہ ٹویپ کی اکثریت دھمکیوں ،بدزبانی اور جنسی طور پر ہراساں کرنے والے افراد کو بلاک کر دیتی ہے  اورانکی رپورٹ بھی کی جاتی ہے
مگر آج تک کسی بین الاقوامی سروے اور بلاگر نے یہ نہیں کہا کہ  تلخ سوال پوچھنے پر بھی بلاک کیا جاسکتا ہے 
 مگرہمارے  صحافی ، اینکرز اور تجزیہ کار کہلانے والے عقل و دانش کے مینار جنہیں لوگوں  سے اسی ٹویٹر کے ذریعے رابطہ رکھ کرمعلومات  یا بعض اوقات فیڈ بیک حاصل کرنی ہوتی ہےوہ اپنے فالوورز کو"سخت سوالوں یا بے لاگ کمنٹس "کی وجہ سے بلاک کر دیتے ہیں 
میں یھاں انکی کم حوصلگی پرافسوس نہیں کروں گی کیونکہ انکی برداشت کی کمی انکا ذاتی معاملہ ہےانکےخاندان کی قسمت !! میری حیرانگی انکےاس طرح تنقید یا سوالات پر مستقل  بلاک کر دینے پر ہے 
یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی استاد اپنی  کلاس کے دوران شاگرد کے سوالا ت سے تنگ آکر اسکوہمیشہ کے لیے مرغا بنا دے اب بھلا بتائیں ایسےاستاد کو آپ کیا کہیں گے؟ یقینن ....جاہل
 جو استاد  شاگرد کو سوال کا جواب  نہیں دے پارہا اسکی اپنے مضمون میں کتنی دسترس ہوگی؟ اگروہ شاگرد کی کم عقلی ،زبان درازی ،تیزی ،اپنے سے زیادہ ذھانت  وغیرہ کا خود مقابلہ نہیں کرپارہا تو شاگرد اس سے کیا سیکھےگا ؟
 یقینن مطلق عنانیت اور جہالت 
یہی حال ایسے  تفتیشی صحافی کہلانے والے اینکرز اور سینیر کا دم چھلہ لگانے والے تجزیہ کاروں کا ہے جو نہ کسی کی معلومات میں اضافہ کر پاتے ہیں نہ اپنی برداشت کا میعار بڑھاتے ہیں بلکہ جب بحث میں کسی دوسرے صحافی  یا سیاسی ٹویپ سے ہارتے نظر آئیں تو اپنی آنا کا جھوٹا ڈھول گلے میں ڈال کر پیٹتے نظر آتے ہیں دو تین ماہ گزرنے کے بعد بھی کینہ نکا لنا نہیں بھولتے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کینہ ور کبھی بھی ہردلعزیز شخصیت نہیں بن سکتا مگر ایسے اینکرز کا "اصرار " یہی ہوتا ہے کہ ہم ہردلعزیز افراد ہیں اگر کوئی ہماری تعریف نہیں کررہا تو اسکے ذہن کے پیچ ڈھیلے ہیں بلاک کے آپشن سے ان پیچوں کا علاج کیا جاتا ہے 
میں نے کبھی بلاک کیے جانے پر کسی صحافی یا اینکر سے انبلاک کرنے کی درخواست نہیں کی مگر آج تین سوال ان "اندر کی " خبروں اور تجزیوں کی دکانیں سجانے والوں سے ضرور پوچھنا چاہوں گی 
جواب کی امید  کم ہے کیونکہ جن لوگوں نے پہلے بھی  سوالوں کی وجہ سے ہی میرے "منہ پر ٹیپ " لگا دیا ہے وہ  اب کیا جواب دیں گے مگر جیسے یہ صحافی بڑے طمطراق سے سیاستدانوں کے حلق میں انگلیاں ڈال ڈال کر اپنی مرضی کے جواب لینا چاہتے ہیں ہمیں بھی یہی آزادی ہے کہ جواب ہماری مرضی کا آ ئے یا نہ آئے کم از کم حلق میں ایک اچھے ڈاکٹر کی طرح ٹارچ مار کر جواب کی تلاش جاری رکھیں 
سوال مندرجہ ذیل ہیں 
سوال نمبرایک :  کیا آپ سے سوال کرنا  جرم ہے ؟
سوال نمبردو:  کسی ٹویپ کی تنقید پراسکو بلاک کرنےکےبعد آپ کے ہاں کس قسم کا  فیڈ بیک رہ جاتا ہے یا صرف اپنی تعریف سے پیٹ بھرنا آپکا کام ہے  ؟
سوال نمبر تین : آپ تفتیشی صحافی کہلاتے ہیں اگر آپ اسی طرح ہر ایک کا منہ بند کر دیتے ہیں تو معلومات کیا چڑیا ، کوے  یا الو سے برآمد کرتے ہیں ؟
دوستو ! میں تو اکثر تفتیشی صحافیوں ، میک اپ زدہ اینکروں اور نوجوان ترین "سینیر"تجزیہ کاروں سے بلاکڈ ہوچکی ہوں میرے سوالا ت اب ان تک پہنچانا  آپکا کام ہے