Sunday, December 26, 2021

عجائب خانہ دانش وراں



ضروری نہیں کہ جس بلاگ کا عنوان خشک ہو اسمیں پاۓ جانے والی معلومات بھی آپکےحلق سے نہ اتریں
 مثلا آج کا میرا بلاگ آپکو یقینن بور نہیں ہونے دیگا اور وجہ یہ ہے کہ اس میں عجائب خانے میں آن لائین ہوۓ کچھ  عظیم  دانشوراں کا تذکرہ موجود  ہے ... جی یہ درست  ہے کہ  اُنکا نام تو شاید اِس بلاگ کی زینت نہ بن سکے مگریقین کریں اُن  باکمال ٹویپس  کا ذکرِ خیر ڈھکے چھپے لفظوں میں  یہیں کہیں موجود ہو سکتا ہے جو آپکی ٹا ئم لا ئین پر اپنی دانش کے موتی بکھیرتے رہتے ہیں۔ 
ذرا اطمینان سے ٹِک  جائیں ،ٹویٹر اور فیس بک پیج پرتانکا جھانکی کچھ پل کے لیے موقوف کریں چاۓ کی پیالی بنا کر بیٹھیں کیونکہ ہوسکتا ہے بلاگ کے درمیان سردرد کی وجہ سے آپکو چاۓ کی طلب ہو مگر اپنے خوبصورت ہاتھوں سے چاۓ بنانے والی بیگم ، بہن ، بیٹی یا  پھرکسی خوشقسمت خاتون ٹویپ کے شوہر یہ کہہ کر روزانہ کی طرح انکارکردیں کہ " نوکر نہیں ہیں تمہارے ،انہی سے مانگ لو جنکی تعداد بڑھنے پر تمہاری آنکھیں چمکتی ہیں "....  مجھے علم ہے جناب کہ  گھرکےافراد  خاص کر جو سوشل میڈیا کے نشے میں مبتلا نہ ہوں  وہ  میرے اور آپکے فالوورز کی تعداد سے کس قدرحسد  اور جلن محسوس کرتے ہیں ...... اتنا  تو بجلی کےجانےاوربجلی کے بِل آنےپرغصہ سے بَل نہیں کھاتے جتنا ہمارے فالورز کی تعداد پرپُھنکارتے رہتے  ہیں 
 خیر قصہ کوتاہ کہ اس عجائب خانہ میں قدم  رکھے اس  سال مئی میں  نو سال پورے ہوجائیں گے  اس دوران شاید ہی پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کے سپورٹرز سے مڈ بھیڑ نہ ہوئی ہو اور شاید ہی کسی لسانی اکائی کی فطرت و عادات کا بھانڈا اس چوک پر آنکھوں کے سامنے نہ پھوٹتا  دیکھا ہو
یھاں نام لیے بغیر کچھ   " دانشوراں " کا ذکر خیر کرتی ہوں نام اس لیے نہیں لوں گی کہ ادب کا تقاضہ یہی ہے اور ذکر اس لیے ضرور کروں گی کہ اچھا یا برا ان افراد سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا 
اس وقت جب مجھے بلاک اور اَن فالو ہونے اور کرنے کا صفر تجربہ تھا ایک صاحب جن کے بارے میں کچھ عرصے بعد پتہ چلا کہ " چوک ٹویٹر " میں اپنی دانشوری کی وجہ سے کافی مقبول تھے اورایک اچانک نظریاتی ہوجانے والی سیاسی جماعت کی سوشل میڈیا ٹیم کے موجد کی شہرت بھی رکھتے تھے، اللہ جانے مجھ ناچیز پر چوک میں قدم رکھتے ہی  کیوں مہربان ہوے فرمایا مجھے "بلوچوں کے حقوق سے بےانتہا دلچسپی ہے " شاید یہی بات فالونگ کا سبب تھی مگر انکی دلچسپی شاید صرف "حقوق  کی  بھیک مانگنے" پر تھی اور میں نے  حقوق چھیننے کا ذکر کردیا  محترم نے انفالو تو کیا سو کیا  دوسروں کو ترغیب دی کہ " دفع مارو سو  میں تے مائی نوں انفالو کر دتا ایویں دی بک بک اے 
 ہیں ؟؟؟؟ کوئی پوچھے انکل جی ! یہ اوپن فورم ہے،  بالغ افراد اپنی مرضی سے کسی کو فالو کسی کو انفا لو کرسکتے ہیں آپ کی تبلیغ کی بھلا آپ ہی  جیسے دوسرے بابے کو کیا ضرورت ہے ؟؟
سال گزرا  تو مزید دانشوروں کا سامنا ہوا
 ایک خودکار ذھانت کا منبع محترمہ  اس عجائب خانہ میں موجود ہیں جنکا  قبلہ اس تیزی سے بدلتا رہا  کہ آپ ابھی  انکی ٹویٹ پر کمنٹ دینے لگیں اور فون کی گھنٹی بج جائے کالر آئی ڈی پر رانگ نمبردیکھ کر آپ  ٹویٹر پیج کی طرف دوبارہ  پلٹے اور یہ کیا ؟؟؟ محترمہ دانشور صاحبہ نے "سیاسی قبلہ " بدل دیا اللہ جانے زندگی کی گاڑی  میں بریکیں بھی ہیں یا نہیں  ؟ 
  اِن  ہی جیسے ہزاروں ہزار فالوورز والے بڑے  بڑے نام اکثر لوگوں کی اچھی باتیں آگے ریٹویٹ کرنے میں اس قدر کنجوسی برتتے ہیں کہ بہت بار غیرت دلائیں تو بھی بات کو ٹال کر آگے نکل جاتے ہیں وجہ یہ ہے کہ ہمارے ٹویٹس اور کمنٹس ہی تیسرے دن انکی ٹویٹ بننے ہوتے ہیں اگر آج ہمارا کمنٹ ر یٹویٹ کردیا تو کل "کاپی/ پیسٹ " پر واہ واہ کیسےسمیٹیں گے؟ 
ایسی ہی ایک اور صاحبہ سے کافی لمبی سلام دعا رہی اور باوجود اسکے کہ سیاسی نظریات کا فرق میرے حلق سے کم ہی اترتا ہے لیکن انہوں نے "دھرنہ سیاست "کے دوران سیاسی محبت کی کچھ ایسی پینگیں بڑھائیں کہ میں بھی "جھولے "لینے پینگ پر بیٹھ گئی سمجھ جب آئی جب محترمہ نے  عمرانی دھرنہ الٹنے کے بعد نہ صرف پینگیں چڑھانی چھوڑ دیں بلکہ کشمیر الیکشنز کے دوران ایک عدد دھکے سے مجھے پینگ سے گرا کر بلاک دے مارا
خیرقدرت بھی ایسے میں دورکھڑی مسکرا رہی تھی تیسرا سال ہی آیا تو سنتے ہیں "ووٹ کو عزت دو "کی تسبیح پڑنی پڑی اسی لیے کہتے ہیں کہ غرور کا سر نیچا
ایک "فیفتھیے "ہیں جو چہرے سے تو لڑکے بالے لگتے ہیں مگر جس ڈھیٹائی سے ہر بار اپنا اکاؤنٹ سسپینڈ ہونے کے بعد دوسرا اکاؤنٹ بناتے ہیں اور پھر جمہوریت پسندوں اور خاص کر فیمنسٹ خواتین کے خلاف ٹویٹر اسپیسزکی  محفل سجاتے ہیں اس سے کافی "پکی عمر کے کھوچل مرد " لگتے ہیں 
مگر نہ جانے کھوچل ہیں یا بنتے ہیں کیونکہ یہ جانتے بوجھتے کہ میں بہت بار انکو ٹیگ کر کے حساس ادارے کی  بے حساسیت پر ٹھیک ٹھاک سنا چکی ہوں مگر خاموشی سے آکر فالو ضرور کرتے ہیں اور کبھی بھی فالو بیک نہیں مانگتے شاید " جاسوسی " کرنا چاہتے ہیں مگر کر نہیں پاتے کیونکہ انکی جاسوسی کے لیے میرا جاسوس ہونا ضروری ہے جو اُنکی بد قسمتی سے میں نہیں ہوں۔  
 اصل دنیا میں خواتین کو "دانشوری " کے وہ تمغات نہیں دیے جاتے جو کہ انکا حق ہیں اور یہی حال  اس "الفاظ "کی دنیا  کا ہے جہاں  آپکو خاتون ٹویپس اکثر دانشوروں کے کم شہرت یافتہ درجات میں ملیں گی یھاں بھی "ٹاپ "پر ایسے مردوں کا قبضہ ہے جوجھوٹی خبروں اورافواہوں  کو چڑیا کوے کی "چغلیاں " کہہ کر بیچتے ہیں اور لوگ ہیں کہ خریدتے رہتے ہیں . ایسے مردوں کی تعداد دائیں بازو کی دونوں  سیاسی پارٹیوں میں برابر کی ہے اور دلچسپی کی بات یہ کہ لسانی اکائی دونوں کی مشترکہ ہے ظاہر ہے زیادہ آبادی میں "دانشوروں " کی تعداد بھی زیادہ ہی ہوگی بھلے سے انکی دانشوری دو نمبر ہو  ایسے دانشوروں  کی پہچان یہ ہے کہ دانشوری جھاڑتے جھاڑتے کبھی اگر کوئی اونچ نیچ ہوجاۓ تو انکے کی بورڈ سے پیچ پر اور انکے منہ سے اسپیسز پر" پھول جھڑتے " صاف نظر آتے ہیں جن کو انکے ہزاروں فالورز مالا بنا کر جپنا شرو ع ہوجاتے ہیں 
بیرون ملک ریھایش پزیر دانشوروں کو  یہ کمال  حاصل ہے کہ ساتھ ساتھ یہ  بتانا " میں پچھلے تیس سال سے امریکہ  میں مقیم  ہوں " اور ساتھ ساتھ  یہ دکھڑا کہ  اپنے اندر سے "پاکستانی سیاست " نہ  نکال سکا  ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاۓ کسقدر محب وطنی ہے کہ تیس سال سے چھلک رہی ہے اور اسکا اچھا معاوضہ  تبدیلی سرکار نے "اوورسیز ووٹ "کا حق دیکر ادا کیا ہے 
تبدیلی سرکار کے ساتھ ساتھ بہت سے پاکستان میں " ووٹ کو عزت " دلوانے کے جنوں میں مبتلا دانشور بھی بیس ، تیس سال سے امریکہ کا پانی پیتے ہیں اُنکی جادوگری کچھ یوں ہیں کہ جب میں ٹویٹر پر وارد ہوئی تو دانشور صاحب جیالے سمجھے جاتے تھے پھر نہ جانے امریکہ میں بیٹھے بیٹھے " ایکس جیالے " کیسے بنے اور پھر کہانی میں اصل ٹویسٹ آیا اور محترم امریکہ میں رہتے ہوے پاکستان کے ووٹ کو عزت دینے لگے جب کہ یہ بات ابھی میاں صاحبان اور انکی دختر نیک اختر بھی نہیں جانتی تھیں۔   ویسے امریکہ کے ووٹ کو عزت دینے کا مرحلہ آیا تو محترم کا خیال تھا  جس کا ووٹ نیو یارک میں ہو اسکو لاڑکانہ میں ووٹ دینا چاہیے اور جس کو ہیلری کلنٹن کی بجائے برنی سینڈرز کے حق میں نعرے لگانے ہیں اس سوشلٹ کو صرف جئے بھٹو پر اکتفا کرنا ہوگا۔  خیر سے ڈرامے کا اینڈ بہت ہی "منورنجن "لیے تھا کہ موصوف کے عزت دار ووٹ کی وجہ سے سوشلسٹوں کے کیمپ میں تو آگ بھڑک ہی گئی مگر امریکی اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ اورموصوف کی  چہیتی ہیلری  بھی شکست کھا گئیں سنا ہے لوگ ان سے بہت عرصے تک اس شکست کی وجوہات پوچھتے  رہے مگر صاحب  ٹالتے رہے
ویسے یہ "ایکس جیالہ  " صرف دو چار شخصیات کے ساتھ نتھی نہیں کیا جاسکتا بہت سے دانشوران اپنی گفتگو کا آغاز اسی جملے سے کرتے ہیں کہ "ہم نے تو بنائی تھی پی پی پی " اور اسکے بعد انکے چراغوں کی کم ہوتی روشنی بتاتی ہے کہ ایکس کہلانے  کی وجہ  دراصل یہ ہے کہ وہ جب چاہے اپنی پٹری بدل لیں  اور جو سیاسی سورج انکے حساب سے طلوع ہوتا ہے اسکے آگے سجدہ ریز ہوجا ئیں  ایسے رہنے میں ایک فایدہ فالورز کی بڑھتی تعداد اور رنگ برنگی ٹویٹس کی آمد ہے 
ویسے یہ "ایکس " والا معاملہ مجھ پر  ذرا ہفتہ دس دن بعد کھلتا ہے جب سیاسی پھڈا ہوتا ہے اور چوک  میں بھانڈا پھوٹتا ہے
ایک اوورسیز "ووٹ کی عزت " کو کینڈا جاکر پہچانے، خیر سے پاکستان میں "دھواں " اڑاتے اڑاتے عوام کے "مالک " بن بیٹھے تھے.بڑی اسکرین پر جمہوریت کو گالی اور سیاستدانوں کو عفریت ثابت کر کے اپنے ہی چوکیداروں کے ہاتھوں مروانے پر شہرت پانے والے جمہوری ملک میں جاکر ایسے تبدیل ہوے ہیں کہ لگتا ہے ان پر بھی کسی "پیرنی " نے تعویز کردیا ہے شاید ہی کسی پر ایسی مثبت تبدیلی آئی ہو جیسی ان دانشور حضرت پر آئی ہے .آپ سب سے درخواست ہے کہ بآواز بلند صاحب کے لیے ماشاللہ اور چشم بددور کا نعرہ لگائیں
 بہت سوں نے اپے  یوٹیوب چینلز کی دکان  بھی اسی طرح بڑھوا لی ہے بقول شخصے " ہر ایک کے ساتھ پاپی پیٹ لگا ہے " اور یوٹیوب چینلز سے پاپی پیٹ کو اگر بھرنا ہے تو زیادہ  سبسکرائبرز چاہیے اور زیادہ  سبسکرائبرز  کے لیے بڑی مارکیٹ  میں "اِ ن " ہونا پڑتاہے اور بڑی مارکیٹ کے لیے بڑے صوبے کی بڑی آبادی کے دل میں گھر کرنا پڑتا ہے آج کل کی پود نہیں جانتی مگر بڑے صوبے کی ماضی میں ہٹ ہوئی فلمیں بتاتی ہیں کہ بڑے بھائی صاحب کو نوری نتھ اور مولا جٹ قسم کی سیاست پسند ہے  سو یوٹیوب چینلز کا فوکس بھی تمیز دار سیاستدانوں اور بھائی چارے کی  سیاست کی نسبت لندن میں بیٹھے ہیرو کی بھڑکیں ،جاتی عمرہ کی ہیروین کے ایک گانے میں پندرہ پھڑک دار ڈریسز اور ولن کے روپ میں کامیڈین  کے لہراتے گنڈاسے  اور اس کے  ہمنواؤں کی  گالیوں بھرے ٹھیکے پر رہتا ہے جن دانشوروں کوآپ  صرف چار سال پہلے انکی غیر صحافتی غیر جانبداری  کی وجہ سے "آگہی  ایوارڈ " دینے کو تیار تھے انکی آگہی  تو انہوں نے  لسی کے گلاس میں پیڑے ڈال کر پی لی آج جب انکو نیند سے جگایا جاۓ تو ہڑبڑا کر اٹھتے ہیں اور مجھ سے پوچھتے ہیں " کون ہو ؟  اچھا اچھا ٹرول ہو..... ماشاللہ  یعنی اب جوآپ سے سوال پوچھنے کی جرأت کر بیٹھے وہ "ٹرول" اور جو آپکو واہ وہ کہے وہ باشعور
 اورجو آپکو "لفافہ " کہہ دے  وہ ؟
حد تو یہ ہے کہ وادی مہران جہاں کے  باسی اپنے سیاسی شعور اور اختلاف راۓ پر برداشت میں نسبتا '' بہتر خیال کیے جاتے ہیں " بڑی مارکیٹ " میں دکان چلانے کے لیے وہ بھی اپنی اوپر کی منزل کراۓ پر دینے کے لیے راضی ہو گیے ہیں اور برداشت کا یہ عالم ہے کہ ایک سوال میں چھ "دانشوارن " کو ٹیگ کیا جاۓ تو
 صاحب ِعالم چھ میں سے واحد ہوتے ہیں جو جواب تو کیا دیں گے اپنے دروازے ہی سوال کرنے والے پر بند کر دیتے ہیں یقین نہیں آتا کہ کبھی انکے بزرگوں نے بھی ہندوستان سے آنے والے مہاجرین پر اپنے دروازے کھولے ہونگے خیر بڑی مارکیٹ کے چکر میں کراچی کے ہمنواؤں کو بھی سیدھی ستھری نہیں سناتے انکی دانش کے "پھول " ہمیشہ ایک پتلی گردن والی سیاسی پارٹی پر جھڑتے ہیں جس کے رہنما نے اپنے نمک کے بارے میں پہلے ہی قوم کو آگاہ کردیا ہے کہ جو جو ہمارے برانڈ ڈ نمک کا سالن  کھاۓ گا اپنا پیٹ ناک تک  بھرنے کے بعد سالن کی خالی پلیٹ تاک کر ہماری ہی پیٹھ میں مارے گا سو مبارک ہو وادی سندھ  سے بڑی مارکیٹ پر حکومت کرنے والے بزرگوار کو کہ انہوں نے اس پیشگوئی کو حرف بہ حرف پورا کیا ہے 
ویسے اس مرحلے پر ہمیں ہرگز بھی خواتین دانشوروں  کے درمیان جم کر کھڑی ،قلیل عرصے میں نام کماتی ان خاتون کو نہیں بھولنا چاہیے جو اپنی " غزل " سنا کر داد تو وصول کرنا چاہتی ہیں مگر تنقید کرو تو انکو " کتوں کے بھونکنے " کی آوازیں آنا شرو ع ہوجاتی ہیں محترمہ تین سال پہلے ہی بلاک کر گئیں جب انکو کہیں سے بھونکنے کی آوازیں نہیں آتیں تھیں ظاہر ہے تین سال پہلے صرف آٹھ دس ہزار فالورز تھے جن کو ڈھائی لاکھ تک پہنچانے کے لیے اُنکو کسی نہ کسی کو پہلے "جانور" بنانا ہوتا ہے سو انہوں نے بنادیا اور بدلے میں لاکھوں فالوورز پا لیے اس موقعے پر دانشور صاحبہ کو دلی مبارک باد اور یہ شکوہ کہ 
غیروں سے کہا تم نے ، غیروں سے سنا تم نے ....
کچھ ہم سے کہا ہوتا ، کچھ ہم سے سنا ہوتا
اِن غیروں کو ہیومن رائٹس سے کتنی دلچسپی رہی میں نہیں جانتی مگریہ  دانشوران عجائب خانہ  اپنےغائب ہونے سے بازیاب ہونے اور پھرباحفاظت ہجرت کرنے کے دوران ہی انسانی حقوق کے چمپئین کہلانے لگے وجہ تو بنتی تھی کہ آواز اٹھانے پر اٹھاۓ گیے مگراِن کی کہانی اُن ہزاروں جبری لاپتہ افراد سے بلکل مختلف ہے جن میں سے بہت سے تاریک راہوں میں مارے جاچکے ہیں اور بہت سے اپنی گویائی کھو بیٹھے ہیں ۔ زیر ِ تحریر دانشور صاحب جنکو گالی گلوچ اور اپنے ہی حق میں آواز اٹھانے والوں پر تبرے بھیجنے کا شوق شاید بچپن سے تھا یا ہوسکتا ہے با حفاظت  بازیابی کی اولین شرایط میں سے ہو، ٹویٹر کے لبرل ،  جمہوریت  پسندوں اور نئے نئے انقلابیوں میں بے پناہ شہرت رکھتے ہیں "اپنے آپ  میاں مٹھو" کی جیتی جاگتی تصویر ہے اپنے پیج ہیڈر کو اپنی ترجیحات کے حساب کتاب سے بدلتے ہیں جن پر آجکل واری صدقے جاتے ہیں وہ چار پانچ سال پہلے تک اِنکا " سر تن سے جدا " کرنے پر زور دے رہے تھے جنکو یہ بازیابی کے بعد سے گالیاں نکالتے ہیں وہ انکے چہروں کے پلے کارڈ اٹھاۓ اِنکی بازیابی کے نعرے لگاتے پاۓ جاتے تھے بس یہی تقدیر کے ہیر پھیر ہیں اور صرف حقیقی دنیا میں ہی نہیں عجائب خانہ کے صفحات پر ۔موجود  بڑے بھائی کی اکثر اولادیں بھی  اسی قسم کی  "احسان مندی" کی قائل  ہیں ۔
بلوچستان کے بارے میں مشہور ہے کہ یھاں  ایک کٹورا پانی کی قیمت سو سال وفاداری ہے مگر ان ہیومن رائٹس کے  لاپتہ و بازیاب اور پھر باحفاظت مہاجرین بنے  چئمپینز نے اپنی بازیابی  کے لیے اٹھائی جانے والی آوازوں کا معاوضہ  الزامات ، گالیوں, سازشی تھیوریوں  اور آخرمیں  فحش کلامی کی صورت میں دیا۔۔۔وفاداری توکیا کرنی تھی ؟ 
 دلچسپ امر یہ ہے کہ دیس میں اگر آپکو تبدیلی کے ساتھ چمٹے دانشور بآسانی دستیاب ہیں جو بڑی فراخدلی سے جھوٹ پر جھوٹ ٹویٹ کرتے ہیں تو " بدیس سے آپکو" شہری سندھ   " کو عقل و دانش کے ایفل ٹاور ثابت کرنے والے ایک دانش کے تاج محل بھی ملیں گے جنکی پہچان انکی ٹویٹ کے آخر میں لکھا  لفظ " سوچیے " ہے اور وہ اپنے ہر الزام ، ہر جھوٹ،سچ اور ہر تمسخر کے آخر میں سوچیے کا تڑکا ایسے لگاتے ہیں جیسے اڑد کی دال کو لہسن کا  تڑکا لگا رہےہوں۔انکی اکثر ٹویٹس میں دانش وری کا میعار یہ ہے کہ جو قومیں انکو پسند نہیں انکا پیٹ بھر کر تمسخر اڑایا جاۓ اور ٹویٹس کے آخر میں "سوچیے " کہہ کردانشوری کا جنازہ بھی اٹھا دیا جاۓ
بلاگ طویل ہو چکا جب کہ بہت سے ناموروں  کا ذکر ابھی کیا ہی نہیں ، خیر چلتے چلتے پوچھنا یہ تھا کہ دانشوروں کےاس بےلاگ تعارف پرآپکی کیا راۓ ہے؟ اگرتوآپ مسکرا رہے ہیں تو ثابت ہوا آپ کو" دانشوری" کا صفر تجربہ ہے اور اگر آپکے سر میں ہلکا ہلکا درد شرو ع ہے تو یقین کریں آپ دانشوری کی سیڑھیاں چڑھنا شرو ع ہوچکے ہیں اور اگرآپکےمنہ سےاس وقت  لکھاری کے لیے "پھول " جھڑ رہے ہیں تو آپ کو مبارک ہوآپ وہی  دانشورہیں جسکا ذکرخیراس بلاگ میں موجود ہے 
گزارش ہے کہ  مجھے بلاک کر کےثواب کمائیں 
شکریہ