Thursday, October 28, 2021

" ابھی تک ہم نہیں بو لے"

عدل کی کرسی جہاں بے انتہا مضبوط ہوتی ہے وہیں اُسپر بیٹھا شخص پلِ صراط پر چلنے والا وہ  خوفزدہ انسان ہوتا ہے جسکی انصاف سے روگردانی ایک منٹ میں اُسکو جنت سے جہنم میں دھکیل دیتی ہے .افسوسناک  حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اِس کرسی پر بیٹھنے والوں نے عوام کو ہمیشہ اتنا ہی مایوس کیا ہے جتنا دوسرے "حساس اداروں " نے .اپنے  فرایض منصبی کو ادا نہ کرنا اور دوسرے اداروں کے کام میں بد نیتی سے مخل ہونا  اب قومی کلچر بن چکا ہے جسکے بد اثرات نے معاشرے کو تقریبا ناقابلِ مرمت کردیا ہے 
انصاف کے دہرے میعار نے منصفوں کے چہرے پر سے نقاب تو بہت پہلے اٹھا دیے تھے مگر اب تو ایسی حد آچکی ہے کہ "محترم " کہلانے والے ججز کو گھروں ، محلوں ، گلیوں میں بیٹھے افراد گالیاں دے رہے ، جھولیاں اٹھا کر بد دعا ئیں دے رہے اور ہم سوچ سکتے ہیں کہ جس " ریاست مدینہ " میں  " قاضی القضاء " پر پاکستان مین بولے جانے والی  ہر زبان میں دل کی بھڑاس نکالی جارہی ہو اس ریاست کا انجام کیا ہوگا ؟
نسلہ ٹاورکو بموں سے منہدم کرنے کا فیصلہ ہو یا گجرنالہ کومسمار کرنے کا یا پھر ہزاروں برسرروزگار افراد کے یک جنبش ِ قلم چولہے ٹھنڈے کرنے کا، پاکستان کی  سپریم کورٹ میں بیٹھی "جج " نامی مخلوق  نے نہایت تکبر سےعام شہریوں سے وہ بد سلوکی کی ہےجو پاکستان کی عدالتی تاریخ  پر کلنک کا ٹیکہ بنی رہے گی . کمزوروں پر دانت گاڑنے والے یہی  جج  دوسری طرف بنی گالہ  کے محلات ،بحریہ ٹاؤن اوراسکی زیر نگرانی  کراچی سے پشاور تک  تعمیر ہوتی غیر قانونی ہاوسنگ سوسائیٹیز پرنہ صرف خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں بلکہ کوئ  اپیل وغیرہ اِن تک پہنچ جائےتوجرمانے کے نام پر غیر قانونی تعمیر کو قانونی بنانے میں دیر نہیں کرتے ۔ اپنی ریٹایرمنٹ کے آخری دن تک اپنی  لاکھوں کی پنشن اور بے تحاشہ مراعات کے بعد بھی انکو "نئی نوکری " کی فکرپڑی  ہوتی ہے مگر کس جلاد صفت بےرحمی سے سوئی گیس کے ادارے سے ہزاروں افراد کو بیروزگاری کے اندھے کوئیں میں دھکیل گیے  یہ دکھڑا بھی عام لوگ  سوشل میڈیا کے ذریعے ہی سامنے لاسکےہیں  کیونکہ حکومتِ وقت انکی باندی اورمیڈیا انکا غلام جو ٹہرا
  مجھے نہیں معلوم کہ نسلہ ٹاور میں امیر لوگ رہتے ہیں یا غریب یا پھروہ مڈل کلاس طبقہ ، جو پاکستان کی جمہوریت کو تباہ کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہا، میں یہ بھی نہیں جانتی کہ اس ٹاور میں کونسا لسانی گروپ رہتا ہے یا سیاسی طور پر یہ لوگ کس سیاسی پارٹی کے ووٹرز ہیں اور میں یہ سب جاننا بھی نہیں چاہتی کیونکہ یہ سب معلومات  حاصل ہوجائیں تو ہماری انسانی حقوق کے لیے اٹھتی آواز یں یا تو دب جاتی ہیں یا بلکل ہی غائب ہوجاتی ہیں 
مجھے بس اتنا علم ہے کہ  لوگ کس قدر تکلیف اٹھا کر ، پائی پائی جوڑ کر اپنے گھر بناتے ہیں ، کس کی زمین تھی اور کس نے بے ایمانی کی نہ وہ جانتے ہیں نہ یہ انکا قصور ہے کیوں کہ  ریکارڈ بتا رہا ہے یہ معاملہ پچھلی چھ دہائیوں سے چل رہا ہے اور چھ دھائیوں سے مراد یہ کہ پاکستان کی سب سے زیادہ کرپٹ  شہری حکومتیں جو فوجی آمروں کی ناک تلے پنپتی ہیں وہ بھی اس تمام قضئیے میں ملوث رہیں اور یقینن اُنکی کرپشن اتنی " ڈسپلنڈ " ہوتی ہے کہ اس کرپشن کا ملبہ بیس تیس سال بعد کسی  معمولی اہلکار پر ہی گرتا ہے کسی  طاقتور اور بااختیار پر نہیں سو ایسے میں مجبوراورلاعلم لوگوں کے سروں سے چھت کھینچنا  اور وہ بھی  "دہشت گردانہ "احکامات  کے ذریعے یعنی  ہفتے بھر کی مہلت میں عمارت میں ریھائش پزیربچوں، عورتوں ، بزرگوں اور بیماروں کو بجلی، گیس، پانی سے محروم کر دیا جائے اور پھر اِن  لوگوں کی  برسوں سے سجائی،  سنوارئی ریھایش گاہوں کو " بم "سے اڑا دیا جاۓ ایک نہایت ناپسندیدہ امر ہے اور یہ نفرت انگیز کام اُس صوبائی، منتخب حکومت کو کرنا ہے جس  کی گردن  پر ہر وقت وفاق ، فوج اورعدلیہ نے مل کر چھری رکھی ہوتی ہے تاکہ  ذرا سی چوں چرا ہو توچھری  پھیرکر کوئی آئینی بحران  پیدا کیا جاسکے یعنی ایک تیر سے دو شکار
عام عوام کے خلاف یہ امتیازی فیصلےانسانی حقوق اورانصاف کے ساتھ حد درجہ ناانصافی  ہیں  جس کی نہ   اخلاق اجازت دیتا ہے نہ ملکی قوانین اور نہ ہی "ریاست مدینہ " کے دعوے داروں  کے ماضی کے نعرے
ان منصفوں کے دہرے معیار انکی دہری شخصیت کی غمازی کرتے ہیں یہی خود پسند جج ہیں جو توہینِ جج کو توہینِ عدالت بنا دیتے ہیں اور پھراِس خود پسندی پر شرمندہ ہونے کی بجاۓ اِسکے خلاف آوازیں  اُٹھانے والے افراد کو جیلوں میں ڈال کر بھول جا تے ہیں یہ تو ایسا تکبر ہے جس کو قدرت معاف نہیں کرے گی اور آنے والا وقت آج کی عدلیہ اور اسکے فیصلوں کی کالک کو کبھی  بھی دھونہیں پاۓ گا 
پاکستان کی تاریخ میں یوں تو عدلیہ نے بہت سے ناقابل بیان قسم کے افسوسناک فیصلے دیے ہیں جس سے عدلیہ کا وقار مجروح ہوا مگر  ماضی قریب میں  افتخار چودھری  کے سیاسی فیصلوں سے جو بے وقاری  کا سفر شرو ع ہوا تھا ثاقب نثار ، آصف کھوسہ سے ہوتا ہوا جج گلزار تک پہنچ گیا ہے اور جس قسم کے فیصلے آج کی عدلیہ کر رہی ہے وہ ثابت کرتے ہیں کہ انصاف کا مردہ تدفین کے انتظار میں سرانڈ دینے لگا ہے 
ہم نہیں جانتے کہ یہ بنی گالہ  اور گجر نالہ میں فرق کرنے والے ناانصاف ججز کسی دھونس دھمکی کی وجہ سے ایسے  امتیازی  فیصلے کر رہے ہیں یا  اپنے لیے پلاٹوں کے لالچ میں ،  مگر یہ بھول رہے ہیں کہ جہاں یہ موجود ہیں وہ سدا رہنے کی جگہ نہیں بلکہ اس سے زیادہ کوئی خوف کی جگہ کائنات میں بنی ہی نہیں کیوں کہ جو عدل کے نام پر عدل سے ہٹ گیا اسکا نام و نشان مٹ گیا  
بڑی بڑی کرسیوں پر بیٹھے ان عدل کے ایوانوں میں تکبر کی بولیاں بولنے والے کم ظرفوں  کے لیے 

پیرزادہ قاسم کے اشعار پیش خدمت ہیں اگر دل میں کچھ  خدا کا خوف اور روح میں انسانیت باقی ہے تو ڈریں اُس وقت سے جب مخلوق ِخدا کے بولنے کی باری آجائے گی 

 

ابھی تو آپ ہیں اور آپ کا زورِ خطابت ہے "

بہت الفاظ ہیں نادر، بہت بے ساختہ جملے

ابھی تو لب کشائی آپ کی اپنی گواہی ہے

ابھی تو آپ ہیں ظلِّ الٰہی، آپ ہی کی بادشاہی ہے

ابھی سب زر، جواہر، مال و دولت آپ ہی کے ہیں

ابھی سب شہرت و اسبابِ شہرت آپ ہی کے ہیں

ابھی کیا ہے، ابھی تو آپ کا جبروت لہجے میں عیاں ہو گا

ابھی تو آپ ہی کے نطق و لب سے آپ کا قصہ بیاں ہو گا

ابھی تو محترم بس آپ ہیں، خود اپنی نظروں میں

معظم، محتشم القاب ہیں خود اپنی نظروں میں

ابھی تو گونجتے اونچے سُروں میں آپ ہی ہیں نغمہ خواں اپنے

سبھی لطف و کرم گھر کے، مکان و لا مکاں اپنے

ابھی تو آپ ہی کہتے ہیں کتنا خوب کہتے ہیں

جو دل میں آئے کہتے ہیں، جو ہو مطلوب کہتے ہیں

مگر جب آپ کی سیرت پہ ساری گفتگو ہو لے

"تو یہ بھی یاد رکھیے گا.............. ابھی تک ہم نہیں بولے 


Tuesday, October 26, 2021

آؤ سچ بولیں !



اخبارات اور رسائل  پڑھنے کا میرا شوق  کافی پرانا ہے اور پاکستانی سیاست میں دلچسپی بھی نئی نہیں سونے پرسہاگہ سوشل  میڈیا کی آمد !  خاص طور پر ٹویٹر نے اس سلسلے میں میری سب سے زیادہ مدد کی وہ اس طرح  کہ اب " خبرنامے کی  خبروں" اور نامور صحافیوں اور دانشوروں کے  کالمز، ٹویٹس اور پوسٹس  پر " سیدھا سیدھا  " تبصرہ کرنا بہت آ سان ہوگیا ہے . پہلے یہی کا م میں " لیٹر ٹو ایڈیٹر "اور  "اوپینین " کے سیکشن میں کرتی رہی ہوں  مگرجیسے کہ  ہمارے آرٹسٹ لوگ  کہتے ہیں کہ  فلموں اور ٹی وی ڈراموں کی نسبت  ہمیں "اسٹیج "پر کام کرنا زیادہ پسند ہے کیونکہ  فورا ہی  داد یا  جوتے وصول ہوجاتے ہیں اسی طرح  اپنے "کمنٹس "  پر فورا ہی رد عمل  جاننے کے لیے  مجھے بھی سب سے بہترین ذریعہ  ٹویٹر ہی  لگتا ہے اور بارہا اس  لاحاصل جہاد سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا ارادہ کر کے بھی اس سے علیحدگی اختیار نہیں کر سکی  کہ" چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی "  اور اب تویہ حال ہے کہ  صحافی یا کالم نگار سوال اٹھانے پرفورا ہی بلاک کردیں تو بھی ایک ایسا سرور ملتا ہے جو صرف کسی نشے باز "جہا ز" کو نشہ پورا ہونے پر ملتا ہے

      کچھ دن پہلے ٹویٹر پر محترم خرم قریشی نے ایک لاجواب ٹویٹ کی جسمیں وہ ٹویٹتے ہیں ”پرسنل ٹویٹر اکمپلشمنٹس " یعنی” ٹویٹر پر میرے ذاتی کارنامے " اور کارناموں کی فہرست میں وہ ان افراد کے ٹویٹر پیج منسلک کرتے ہیں جنہوں نے انکو بلاک کیا انمیں گلوکارو خلائی فنکار فخرعالم ، پاکستانی امور ِ جاسوسی میں ماہر سنتھیا رچی ، تبدیلی  بٹالین کے روح رواں  میرعلی محمد خان اور وزیراعظم  کی  ماورائی خوبیوں کو تاڑنے کا تین سالہ تجربہ رکھنے والی محترمہ مہر تارڑ شامل ہیں انکے یہ "ذاتی کارنامے " دیکھ کر خاکسارہ  کے دل میں بھی یہ خواہش جاگی کہ میں بھی  اپنے " ذاتی کارناموں "کی  لسٹ بنا ہی ڈالوں ، سو پچھلے آٹھ سال سے جن  مایہ ناز افراد نے بلاک کرکےعزت بخشی انکی فہرست بنالی اورآپکو یہ سن کر خوشی ہوگی کہ جن لوگوں کو میں فالو کرتی رہی ان میں سے بلاک کرنے والوں کی اکثریت " صحافی یا کالم نگار یا تجزیہ کار" ہے حتی کہ جن کو کبھی  فالو ہی نہ کیا تھا اُن میں بھی اسی پیشے کے لوگوں کی ایک معقول تعداد موجود ہے اور لگتا ہے اُنکو کسی " الہام " کے ذریعے میرے ان  گستاخ سوالات کے بارے میں علم دیا گیا جو میں آنے والے وقت میں ان سے کر کے اُن کے منہ کا زایقه خراب کر سکتی تھی

سنجیدگی  سے سوچا کہ  میرے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے تو وہ دو سوالات ہی سامنے آ ئے جن پر اکثر "پڑھے لکھے دانشوروں " نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے مجھ پراپنے گھر کے" دروازے " بند کرنا بہتر سمجھا 

پہلا سوال عموما بلوچستان ،سندھ اور پختونخواہ کے جبری لاپتہ افراد پر ریاست کا گریبان نہ پکڑنے  پر ہوتا ہے  کیونکہ میرے حساب سے صحافی اور خاص طور پر " تفتیشی صحافت "کرنےوالے  اور سیاستدانوں کے "پوشیدہ مالی جرائیم " کے بارے شو کرنےوالے اینکرز پرایسا سوال بنتا  بھی ہے  کیونکہ اگر وہ یہ چھبتا ہوا سوال ریاست کے اداروں سے نہیں کریں گے تو کون کرے گا ؟؟ 

دوسرا سوال پہلے سوال سے زیادہ تکلیف دہ ہے اور اسکی گردان بھی  روز جاری  رہتی ہے اور اسی طرح میرے بلاک ہونے کا سلسلہ بھی اور وہ سوال ہے  صحافی صاحب ، مسٹر اینکر اور شدید سینیرتجزیہ کاروں کی سیاسی وابستگی ۔

جب بھی اُنکے  یک طرفہ سیاسی جھکاؤ پر تنقید اوروضاحت مانگی جاۓ  یہ خواتین و حضرات ایسے چراغ پا ہوتے ہیں کہ لگتا ہے خدا نخواستہ  میں نے اُن سے اُنکی  اصل تنخواہ یا حقیقی عمر کے بارے پوچھ لیا ہو 

کوئی اِن اللہ کے بندوں کو ابھی تک یہ بات سمجھا نہیں پایا جواستاد ِ صحافت جناب وجاہت مسعود نے پچھلے دنوں ایک کافی بدتمیز قسم کے ٹویپ کو بہت ہی تمیز و تھذیب سے سمجھائی 

 انہوں نےاس ٹویپ کےاسی قسم کےالزامات کے جواب میں لکھا

"کہ" صحافی سیاسی طورپرغیرجانبدارنہیں ہوسکتا  ۔

درست ! یہی سچ ہے کہ خبر سیاسی ہوتواسکو سنانے والا جب اُس خبر کا تجزیہ  کرے گا تو وہ یقینن اپنےجانبدار دماغ و دل سے اُس خبرکو توڑ مروڑ کر اپنے سیا سی گرو کے حق میں اور اپنے نا پسندیدہ سیاسی رہنماوں اور  پارٹیوں کے خلاف پیش کرے گا

اور پھر پاکستان جیسے ملک میں جہاں ایک سے ذیادہ لسانی اکائیاں ہیں اِن صحافیوں ، اینکروں اور تجزیہ کاروں کا لسانی تعصب بھی ہمالیہ کی بلندیوں کوچھو رہا ہوتا ہے  ویسے یہ لفظ "اکائیاں " پاکستان کے مین اسٹریم نیوز میڈیا  کے لیے  میں نے بلاوجہ ہی استعمال کیا ہے  کیونکہ اردواور انگریزی پریس ہو یا چینلزمگر یہاں اکائیاں نہیں صرف" ڈیڑھ اکائیِ" سرگرم ِ عمل  ہے بقیہ تین  ساڑھے تین اکائیاں تو ایسے ہیں جیسے آٹے میں نمک بلکہ آٹےکوگوندھتے ہوئے صرف"نمک " کا نام ہی لے لیا جا ئے توکافی ہے

ایسے میں اِن “بے چارے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں“ کی آزمایش کرنا اپنے آپ میں ایک ظلم ہے جو مجھ سمیت بہت سوں سے ہر روز، ہر لمحے  سرزد ہوتا رہتا ہےمگر یھاں غلطی میڈیا برادری کی بھی ہےکیونکہ ہم نے تو صحافت نہیں پڑھی مگراِنکوتوصحافت ازبر ہونی چاہیے 

جب اِنکو پتہ ہےکہ  یہ غیرجانبدارنہیں  ہوسکتے،  یہ "غیرسیاسی  بچے" نہیں بن سکتے توکیوں عوام پراپنے 

 مسیحا " ہونے کا رعب ڈالتے ہیں؟  کیسےایسا ظاہرکرتےہیں کہ  یہ " دار" پرچڑھ جانےوالےسرمد ومنصورہیں؟   کس لیے لوگوں کوسقراط کی ایکٹنگ کر کے دیکھاتے ہیں جب کہ زہرکے پیالے شہروں میں بسنے والی  نام نہاد پڑھی لکھی مڈل کلاس کو پلاتے ہیں اورخود "دودھ کے پیالوں"پر پھل پھول رہے ہیں 

اِن مین اسٹریم صحافت میں پائ جانے والی مخلوق کو ایک بارتو یہ اعتراف کُھل کرکرلینا چاہیے کہ وہ “سیاسی وابستگی” کو گناہ نہیں سمجھتے اورجب اُنکو اُنکے معتصبانہ روئیے پرتنقید کا سامنا کرنا پڑے تومجھ جیسے سوال اٹھانےاور" طعنے" دینے والوں کو بلاک کرنے کی بجائے اِنکو اِس حقیقت  کا اظہارکرنا چاہیے  کہ ہاں ! ہمارا “سیاسی جھکاؤ “ ہے کیونکہ حال یہی ہے کہ  ہر ایک سو صحافیوں،کالم نگاروں ،اینکرز اور تجزیہ کاروں میں پچاس فیصد جی ایچ  کیو میں فوجی بوٹ پالش کرکے کماتے ہیں تو انچاس فیصد جاتی عمرہ کے بیانیے کی ما لش کرکےروزی روٹی کماتے ہیں اوربقیہ ایک فیصد اِس  تمام منظر کو خاموشی سے دیکھتے رہتے ہیں مگر حقیقت سننے کوکوئی  بھی تیار نہیں اور جِس بحث کو محترم وجاہت مسعود نے دو منٹ میں نمٹا دیا  اُسپر مجھ جیسے "طفلِ مکتب "کو جو مشکل سوال کرنے پر ویسے ہی مکتب سے نکال دیا جاتا ہے  کبھی " ٹرول " تو کبھی جعلی ا کاونٹ کے القابات سے نوازکر اپنے دروازے بند کر دیتے ہیں۔  حوصلہ کرِیں جناب اور سچ بولیں کیونکہ ہر سچائی تک پہنچنے کے لیے حوصلہ چاہیے ہوتا ہے