Sunday, December 26, 2021

عجائب خانہ دانش وراں



ضروری نہیں کہ جس بلاگ کا عنوان خشک ہو اسمیں پاۓ جانے والی معلومات بھی آپکےحلق سے نہ اتریں
 مثلا آج کا میرا بلاگ آپکو یقینن بور نہیں ہونے دیگا اور وجہ یہ ہے کہ اس میں عجائب خانے میں آن لائین ہوۓ کچھ  عظیم  دانشوراں کا تذکرہ موجود  ہے ... جی یہ درست  ہے کہ  اُنکا نام تو شاید اِس بلاگ کی زینت نہ بن سکے مگریقین کریں اُن  باکمال ٹویپس  کا ذکرِ خیر ڈھکے چھپے لفظوں میں  یہیں کہیں موجود ہو سکتا ہے جو آپکی ٹا ئم لا ئین پر اپنی دانش کے موتی بکھیرتے رہتے ہیں۔ 
ذرا اطمینان سے ٹِک  جائیں ،ٹویٹر اور فیس بک پیج پرتانکا جھانکی کچھ پل کے لیے موقوف کریں چاۓ کی پیالی بنا کر بیٹھیں کیونکہ ہوسکتا ہے بلاگ کے درمیان سردرد کی وجہ سے آپکو چاۓ کی طلب ہو مگر اپنے خوبصورت ہاتھوں سے چاۓ بنانے والی بیگم ، بہن ، بیٹی یا  پھرکسی خوشقسمت خاتون ٹویپ کے شوہر یہ کہہ کر روزانہ کی طرح انکارکردیں کہ " نوکر نہیں ہیں تمہارے ،انہی سے مانگ لو جنکی تعداد بڑھنے پر تمہاری آنکھیں چمکتی ہیں "....  مجھے علم ہے جناب کہ  گھرکےافراد  خاص کر جو سوشل میڈیا کے نشے میں مبتلا نہ ہوں  وہ  میرے اور آپکے فالوورز کی تعداد سے کس قدرحسد  اور جلن محسوس کرتے ہیں ...... اتنا  تو بجلی کےجانےاوربجلی کے بِل آنےپرغصہ سے بَل نہیں کھاتے جتنا ہمارے فالورز کی تعداد پرپُھنکارتے رہتے  ہیں 
 خیر قصہ کوتاہ کہ اس عجائب خانہ میں قدم  رکھے اس  سال مئی میں  نو سال پورے ہوجائیں گے  اس دوران شاید ہی پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کے سپورٹرز سے مڈ بھیڑ نہ ہوئی ہو اور شاید ہی کسی لسانی اکائی کی فطرت و عادات کا بھانڈا اس چوک پر آنکھوں کے سامنے نہ پھوٹتا  دیکھا ہو
یھاں نام لیے بغیر کچھ   " دانشوراں " کا ذکر خیر کرتی ہوں نام اس لیے نہیں لوں گی کہ ادب کا تقاضہ یہی ہے اور ذکر اس لیے ضرور کروں گی کہ اچھا یا برا ان افراد سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا 
اس وقت جب مجھے بلاک اور اَن فالو ہونے اور کرنے کا صفر تجربہ تھا ایک صاحب جن کے بارے میں کچھ عرصے بعد پتہ چلا کہ " چوک ٹویٹر " میں اپنی دانشوری کی وجہ سے کافی مقبول تھے اورایک اچانک نظریاتی ہوجانے والی سیاسی جماعت کی سوشل میڈیا ٹیم کے موجد کی شہرت بھی رکھتے تھے، اللہ جانے مجھ ناچیز پر چوک میں قدم رکھتے ہی  کیوں مہربان ہوے فرمایا مجھے "بلوچوں کے حقوق سے بےانتہا دلچسپی ہے " شاید یہی بات فالونگ کا سبب تھی مگر انکی دلچسپی شاید صرف "حقوق  کی  بھیک مانگنے" پر تھی اور میں نے  حقوق چھیننے کا ذکر کردیا  محترم نے انفالو تو کیا سو کیا  دوسروں کو ترغیب دی کہ " دفع مارو سو  میں تے مائی نوں انفالو کر دتا ایویں دی بک بک اے 
 ہیں ؟؟؟؟ کوئی پوچھے انکل جی ! یہ اوپن فورم ہے،  بالغ افراد اپنی مرضی سے کسی کو فالو کسی کو انفا لو کرسکتے ہیں آپ کی تبلیغ کی بھلا آپ ہی  جیسے دوسرے بابے کو کیا ضرورت ہے ؟؟
سال گزرا  تو مزید دانشوروں کا سامنا ہوا
 ایک خودکار ذھانت کا منبع محترمہ  اس عجائب خانہ میں موجود ہیں جنکا  قبلہ اس تیزی سے بدلتا رہا  کہ آپ ابھی  انکی ٹویٹ پر کمنٹ دینے لگیں اور فون کی گھنٹی بج جائے کالر آئی ڈی پر رانگ نمبردیکھ کر آپ  ٹویٹر پیج کی طرف دوبارہ  پلٹے اور یہ کیا ؟؟؟ محترمہ دانشور صاحبہ نے "سیاسی قبلہ " بدل دیا اللہ جانے زندگی کی گاڑی  میں بریکیں بھی ہیں یا نہیں  ؟ 
  اِن  ہی جیسے ہزاروں ہزار فالوورز والے بڑے  بڑے نام اکثر لوگوں کی اچھی باتیں آگے ریٹویٹ کرنے میں اس قدر کنجوسی برتتے ہیں کہ بہت بار غیرت دلائیں تو بھی بات کو ٹال کر آگے نکل جاتے ہیں وجہ یہ ہے کہ ہمارے ٹویٹس اور کمنٹس ہی تیسرے دن انکی ٹویٹ بننے ہوتے ہیں اگر آج ہمارا کمنٹ ر یٹویٹ کردیا تو کل "کاپی/ پیسٹ " پر واہ واہ کیسےسمیٹیں گے؟ 
ایسی ہی ایک اور صاحبہ سے کافی لمبی سلام دعا رہی اور باوجود اسکے کہ سیاسی نظریات کا فرق میرے حلق سے کم ہی اترتا ہے لیکن انہوں نے "دھرنہ سیاست "کے دوران سیاسی محبت کی کچھ ایسی پینگیں بڑھائیں کہ میں بھی "جھولے "لینے پینگ پر بیٹھ گئی سمجھ جب آئی جب محترمہ نے  عمرانی دھرنہ الٹنے کے بعد نہ صرف پینگیں چڑھانی چھوڑ دیں بلکہ کشمیر الیکشنز کے دوران ایک عدد دھکے سے مجھے پینگ سے گرا کر بلاک دے مارا
خیرقدرت بھی ایسے میں دورکھڑی مسکرا رہی تھی تیسرا سال ہی آیا تو سنتے ہیں "ووٹ کو عزت دو "کی تسبیح پڑنی پڑی اسی لیے کہتے ہیں کہ غرور کا سر نیچا
ایک "فیفتھیے "ہیں جو چہرے سے تو لڑکے بالے لگتے ہیں مگر جس ڈھیٹائی سے ہر بار اپنا اکاؤنٹ سسپینڈ ہونے کے بعد دوسرا اکاؤنٹ بناتے ہیں اور پھر جمہوریت پسندوں اور خاص کر فیمنسٹ خواتین کے خلاف ٹویٹر اسپیسزکی  محفل سجاتے ہیں اس سے کافی "پکی عمر کے کھوچل مرد " لگتے ہیں 
مگر نہ جانے کھوچل ہیں یا بنتے ہیں کیونکہ یہ جانتے بوجھتے کہ میں بہت بار انکو ٹیگ کر کے حساس ادارے کی  بے حساسیت پر ٹھیک ٹھاک سنا چکی ہوں مگر خاموشی سے آکر فالو ضرور کرتے ہیں اور کبھی بھی فالو بیک نہیں مانگتے شاید " جاسوسی " کرنا چاہتے ہیں مگر کر نہیں پاتے کیونکہ انکی جاسوسی کے لیے میرا جاسوس ہونا ضروری ہے جو اُنکی بد قسمتی سے میں نہیں ہوں۔  
 اصل دنیا میں خواتین کو "دانشوری " کے وہ تمغات نہیں دیے جاتے جو کہ انکا حق ہیں اور یہی حال  اس "الفاظ "کی دنیا  کا ہے جہاں  آپکو خاتون ٹویپس اکثر دانشوروں کے کم شہرت یافتہ درجات میں ملیں گی یھاں بھی "ٹاپ "پر ایسے مردوں کا قبضہ ہے جوجھوٹی خبروں اورافواہوں  کو چڑیا کوے کی "چغلیاں " کہہ کر بیچتے ہیں اور لوگ ہیں کہ خریدتے رہتے ہیں . ایسے مردوں کی تعداد دائیں بازو کی دونوں  سیاسی پارٹیوں میں برابر کی ہے اور دلچسپی کی بات یہ کہ لسانی اکائی دونوں کی مشترکہ ہے ظاہر ہے زیادہ آبادی میں "دانشوروں " کی تعداد بھی زیادہ ہی ہوگی بھلے سے انکی دانشوری دو نمبر ہو  ایسے دانشوروں  کی پہچان یہ ہے کہ دانشوری جھاڑتے جھاڑتے کبھی اگر کوئی اونچ نیچ ہوجاۓ تو انکے کی بورڈ سے پیچ پر اور انکے منہ سے اسپیسز پر" پھول جھڑتے " صاف نظر آتے ہیں جن کو انکے ہزاروں فالورز مالا بنا کر جپنا شرو ع ہوجاتے ہیں 
بیرون ملک ریھایش پزیر دانشوروں کو  یہ کمال  حاصل ہے کہ ساتھ ساتھ یہ  بتانا " میں پچھلے تیس سال سے امریکہ  میں مقیم  ہوں " اور ساتھ ساتھ  یہ دکھڑا کہ  اپنے اندر سے "پاکستانی سیاست " نہ  نکال سکا  ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاۓ کسقدر محب وطنی ہے کہ تیس سال سے چھلک رہی ہے اور اسکا اچھا معاوضہ  تبدیلی سرکار نے "اوورسیز ووٹ "کا حق دیکر ادا کیا ہے 
تبدیلی سرکار کے ساتھ ساتھ بہت سے پاکستان میں " ووٹ کو عزت " دلوانے کے جنوں میں مبتلا دانشور بھی بیس ، تیس سال سے امریکہ کا پانی پیتے ہیں اُنکی جادوگری کچھ یوں ہیں کہ جب میں ٹویٹر پر وارد ہوئی تو دانشور صاحب جیالے سمجھے جاتے تھے پھر نہ جانے امریکہ میں بیٹھے بیٹھے " ایکس جیالے " کیسے بنے اور پھر کہانی میں اصل ٹویسٹ آیا اور محترم امریکہ میں رہتے ہوے پاکستان کے ووٹ کو عزت دینے لگے جب کہ یہ بات ابھی میاں صاحبان اور انکی دختر نیک اختر بھی نہیں جانتی تھیں۔   ویسے امریکہ کے ووٹ کو عزت دینے کا مرحلہ آیا تو محترم کا خیال تھا  جس کا ووٹ نیو یارک میں ہو اسکو لاڑکانہ میں ووٹ دینا چاہیے اور جس کو ہیلری کلنٹن کی بجائے برنی سینڈرز کے حق میں نعرے لگانے ہیں اس سوشلٹ کو صرف جئے بھٹو پر اکتفا کرنا ہوگا۔  خیر سے ڈرامے کا اینڈ بہت ہی "منورنجن "لیے تھا کہ موصوف کے عزت دار ووٹ کی وجہ سے سوشلسٹوں کے کیمپ میں تو آگ بھڑک ہی گئی مگر امریکی اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ اورموصوف کی  چہیتی ہیلری  بھی شکست کھا گئیں سنا ہے لوگ ان سے بہت عرصے تک اس شکست کی وجوہات پوچھتے  رہے مگر صاحب  ٹالتے رہے
ویسے یہ "ایکس جیالہ  " صرف دو چار شخصیات کے ساتھ نتھی نہیں کیا جاسکتا بہت سے دانشوران اپنی گفتگو کا آغاز اسی جملے سے کرتے ہیں کہ "ہم نے تو بنائی تھی پی پی پی " اور اسکے بعد انکے چراغوں کی کم ہوتی روشنی بتاتی ہے کہ ایکس کہلانے  کی وجہ  دراصل یہ ہے کہ وہ جب چاہے اپنی پٹری بدل لیں  اور جو سیاسی سورج انکے حساب سے طلوع ہوتا ہے اسکے آگے سجدہ ریز ہوجا ئیں  ایسے رہنے میں ایک فایدہ فالورز کی بڑھتی تعداد اور رنگ برنگی ٹویٹس کی آمد ہے 
ویسے یہ "ایکس " والا معاملہ مجھ پر  ذرا ہفتہ دس دن بعد کھلتا ہے جب سیاسی پھڈا ہوتا ہے اور چوک  میں بھانڈا پھوٹتا ہے
ایک اوورسیز "ووٹ کی عزت " کو کینڈا جاکر پہچانے، خیر سے پاکستان میں "دھواں " اڑاتے اڑاتے عوام کے "مالک " بن بیٹھے تھے.بڑی اسکرین پر جمہوریت کو گالی اور سیاستدانوں کو عفریت ثابت کر کے اپنے ہی چوکیداروں کے ہاتھوں مروانے پر شہرت پانے والے جمہوری ملک میں جاکر ایسے تبدیل ہوے ہیں کہ لگتا ہے ان پر بھی کسی "پیرنی " نے تعویز کردیا ہے شاید ہی کسی پر ایسی مثبت تبدیلی آئی ہو جیسی ان دانشور حضرت پر آئی ہے .آپ سب سے درخواست ہے کہ بآواز بلند صاحب کے لیے ماشاللہ اور چشم بددور کا نعرہ لگائیں
 بہت سوں نے اپے  یوٹیوب چینلز کی دکان  بھی اسی طرح بڑھوا لی ہے بقول شخصے " ہر ایک کے ساتھ پاپی پیٹ لگا ہے " اور یوٹیوب چینلز سے پاپی پیٹ کو اگر بھرنا ہے تو زیادہ  سبسکرائبرز چاہیے اور زیادہ  سبسکرائبرز  کے لیے بڑی مارکیٹ  میں "اِ ن " ہونا پڑتاہے اور بڑی مارکیٹ کے لیے بڑے صوبے کی بڑی آبادی کے دل میں گھر کرنا پڑتا ہے آج کل کی پود نہیں جانتی مگر بڑے صوبے کی ماضی میں ہٹ ہوئی فلمیں بتاتی ہیں کہ بڑے بھائی صاحب کو نوری نتھ اور مولا جٹ قسم کی سیاست پسند ہے  سو یوٹیوب چینلز کا فوکس بھی تمیز دار سیاستدانوں اور بھائی چارے کی  سیاست کی نسبت لندن میں بیٹھے ہیرو کی بھڑکیں ،جاتی عمرہ کی ہیروین کے ایک گانے میں پندرہ پھڑک دار ڈریسز اور ولن کے روپ میں کامیڈین  کے لہراتے گنڈاسے  اور اس کے  ہمنواؤں کی  گالیوں بھرے ٹھیکے پر رہتا ہے جن دانشوروں کوآپ  صرف چار سال پہلے انکی غیر صحافتی غیر جانبداری  کی وجہ سے "آگہی  ایوارڈ " دینے کو تیار تھے انکی آگہی  تو انہوں نے  لسی کے گلاس میں پیڑے ڈال کر پی لی آج جب انکو نیند سے جگایا جاۓ تو ہڑبڑا کر اٹھتے ہیں اور مجھ سے پوچھتے ہیں " کون ہو ؟  اچھا اچھا ٹرول ہو..... ماشاللہ  یعنی اب جوآپ سے سوال پوچھنے کی جرأت کر بیٹھے وہ "ٹرول" اور جو آپکو واہ وہ کہے وہ باشعور
 اورجو آپکو "لفافہ " کہہ دے  وہ ؟
حد تو یہ ہے کہ وادی مہران جہاں کے  باسی اپنے سیاسی شعور اور اختلاف راۓ پر برداشت میں نسبتا '' بہتر خیال کیے جاتے ہیں " بڑی مارکیٹ " میں دکان چلانے کے لیے وہ بھی اپنی اوپر کی منزل کراۓ پر دینے کے لیے راضی ہو گیے ہیں اور برداشت کا یہ عالم ہے کہ ایک سوال میں چھ "دانشوارن " کو ٹیگ کیا جاۓ تو
 صاحب ِعالم چھ میں سے واحد ہوتے ہیں جو جواب تو کیا دیں گے اپنے دروازے ہی سوال کرنے والے پر بند کر دیتے ہیں یقین نہیں آتا کہ کبھی انکے بزرگوں نے بھی ہندوستان سے آنے والے مہاجرین پر اپنے دروازے کھولے ہونگے خیر بڑی مارکیٹ کے چکر میں کراچی کے ہمنواؤں کو بھی سیدھی ستھری نہیں سناتے انکی دانش کے "پھول " ہمیشہ ایک پتلی گردن والی سیاسی پارٹی پر جھڑتے ہیں جس کے رہنما نے اپنے نمک کے بارے میں پہلے ہی قوم کو آگاہ کردیا ہے کہ جو جو ہمارے برانڈ ڈ نمک کا سالن  کھاۓ گا اپنا پیٹ ناک تک  بھرنے کے بعد سالن کی خالی پلیٹ تاک کر ہماری ہی پیٹھ میں مارے گا سو مبارک ہو وادی سندھ  سے بڑی مارکیٹ پر حکومت کرنے والے بزرگوار کو کہ انہوں نے اس پیشگوئی کو حرف بہ حرف پورا کیا ہے 
ویسے اس مرحلے پر ہمیں ہرگز بھی خواتین دانشوروں  کے درمیان جم کر کھڑی ،قلیل عرصے میں نام کماتی ان خاتون کو نہیں بھولنا چاہیے جو اپنی " غزل " سنا کر داد تو وصول کرنا چاہتی ہیں مگر تنقید کرو تو انکو " کتوں کے بھونکنے " کی آوازیں آنا شرو ع ہوجاتی ہیں محترمہ تین سال پہلے ہی بلاک کر گئیں جب انکو کہیں سے بھونکنے کی آوازیں نہیں آتیں تھیں ظاہر ہے تین سال پہلے صرف آٹھ دس ہزار فالورز تھے جن کو ڈھائی لاکھ تک پہنچانے کے لیے اُنکو کسی نہ کسی کو پہلے "جانور" بنانا ہوتا ہے سو انہوں نے بنادیا اور بدلے میں لاکھوں فالوورز پا لیے اس موقعے پر دانشور صاحبہ کو دلی مبارک باد اور یہ شکوہ کہ 
غیروں سے کہا تم نے ، غیروں سے سنا تم نے ....
کچھ ہم سے کہا ہوتا ، کچھ ہم سے سنا ہوتا
اِن غیروں کو ہیومن رائٹس سے کتنی دلچسپی رہی میں نہیں جانتی مگریہ  دانشوران عجائب خانہ  اپنےغائب ہونے سے بازیاب ہونے اور پھرباحفاظت ہجرت کرنے کے دوران ہی انسانی حقوق کے چمپئین کہلانے لگے وجہ تو بنتی تھی کہ آواز اٹھانے پر اٹھاۓ گیے مگراِن کی کہانی اُن ہزاروں جبری لاپتہ افراد سے بلکل مختلف ہے جن میں سے بہت سے تاریک راہوں میں مارے جاچکے ہیں اور بہت سے اپنی گویائی کھو بیٹھے ہیں ۔ زیر ِ تحریر دانشور صاحب جنکو گالی گلوچ اور اپنے ہی حق میں آواز اٹھانے والوں پر تبرے بھیجنے کا شوق شاید بچپن سے تھا یا ہوسکتا ہے با حفاظت  بازیابی کی اولین شرایط میں سے ہو، ٹویٹر کے لبرل ،  جمہوریت  پسندوں اور نئے نئے انقلابیوں میں بے پناہ شہرت رکھتے ہیں "اپنے آپ  میاں مٹھو" کی جیتی جاگتی تصویر ہے اپنے پیج ہیڈر کو اپنی ترجیحات کے حساب کتاب سے بدلتے ہیں جن پر آجکل واری صدقے جاتے ہیں وہ چار پانچ سال پہلے تک اِنکا " سر تن سے جدا " کرنے پر زور دے رہے تھے جنکو یہ بازیابی کے بعد سے گالیاں نکالتے ہیں وہ انکے چہروں کے پلے کارڈ اٹھاۓ اِنکی بازیابی کے نعرے لگاتے پاۓ جاتے تھے بس یہی تقدیر کے ہیر پھیر ہیں اور صرف حقیقی دنیا میں ہی نہیں عجائب خانہ کے صفحات پر ۔موجود  بڑے بھائی کی اکثر اولادیں بھی  اسی قسم کی  "احسان مندی" کی قائل  ہیں ۔
بلوچستان کے بارے میں مشہور ہے کہ یھاں  ایک کٹورا پانی کی قیمت سو سال وفاداری ہے مگر ان ہیومن رائٹس کے  لاپتہ و بازیاب اور پھر باحفاظت مہاجرین بنے  چئمپینز نے اپنی بازیابی  کے لیے اٹھائی جانے والی آوازوں کا معاوضہ  الزامات ، گالیوں, سازشی تھیوریوں  اور آخرمیں  فحش کلامی کی صورت میں دیا۔۔۔وفاداری توکیا کرنی تھی ؟ 
 دلچسپ امر یہ ہے کہ دیس میں اگر آپکو تبدیلی کے ساتھ چمٹے دانشور بآسانی دستیاب ہیں جو بڑی فراخدلی سے جھوٹ پر جھوٹ ٹویٹ کرتے ہیں تو " بدیس سے آپکو" شہری سندھ   " کو عقل و دانش کے ایفل ٹاور ثابت کرنے والے ایک دانش کے تاج محل بھی ملیں گے جنکی پہچان انکی ٹویٹ کے آخر میں لکھا  لفظ " سوچیے " ہے اور وہ اپنے ہر الزام ، ہر جھوٹ،سچ اور ہر تمسخر کے آخر میں سوچیے کا تڑکا ایسے لگاتے ہیں جیسے اڑد کی دال کو لہسن کا  تڑکا لگا رہےہوں۔انکی اکثر ٹویٹس میں دانش وری کا میعار یہ ہے کہ جو قومیں انکو پسند نہیں انکا پیٹ بھر کر تمسخر اڑایا جاۓ اور ٹویٹس کے آخر میں "سوچیے " کہہ کردانشوری کا جنازہ بھی اٹھا دیا جاۓ
بلاگ طویل ہو چکا جب کہ بہت سے ناموروں  کا ذکر ابھی کیا ہی نہیں ، خیر چلتے چلتے پوچھنا یہ تھا کہ دانشوروں کےاس بےلاگ تعارف پرآپکی کیا راۓ ہے؟ اگرتوآپ مسکرا رہے ہیں تو ثابت ہوا آپ کو" دانشوری" کا صفر تجربہ ہے اور اگر آپکے سر میں ہلکا ہلکا درد شرو ع ہے تو یقین کریں آپ دانشوری کی سیڑھیاں چڑھنا شرو ع ہوچکے ہیں اور اگرآپکےمنہ سےاس وقت  لکھاری کے لیے "پھول " جھڑ رہے ہیں تو آپ کو مبارک ہوآپ وہی  دانشورہیں جسکا ذکرخیراس بلاگ میں موجود ہے 
گزارش ہے کہ  مجھے بلاک کر کےثواب کمائیں 
شکریہ 

Thursday, November 4, 2021

چیف کے نام "کھلا خط "

محترم چیف صاحب 

السلام و علیکم 

بعد سلام عرض ہے کہ میرے والد صاحب فوج میں نہیں بلکہ میرے والد کے والد اورپھرانکےوالد کوئی بھی فوج میں نہیں اورجتنا شجرہ نسب  والدین  نے متعارف کروایا اس میں کہیں کسی فوج میں بھرتی کا ذکر نہیں اسی لیے اپنی " تلوار " یعنی  قلم تھاما اورآپ  کو خط لکھنے کا ارادہ باندھ لیا . پشت درپشت سویلین ہونے کا سب سے بڑا فایدہ یہی ہے کہ " ڈسپلن "کے نام پر انسان اپنی شخصی آزادی کا سودا نہیں کرتا سو یہ سودا میں نے نہیں کیا 

 محترم چیف صاحب عرض ہے کہ ایک عجیب و غریب خبر کی گُونج ہر طرف ہے کہ آپکی ہی برادری کے ایک ریٹایرڈ صاحب کے بیٹے نے آپ کو خط لکھا اور آپ پر تنقید کی اور سنا ہے کہ آپ نا راض ہو گئے یہ خبر ہی اِسقدر حیرت انگیز ہے کہ مزید تفصیل میں جانے میں مجھے کافی وقت لگا

پہلے تو یہ یقین ہی نہ آیا کہ  جس ملک کے نام کے ساتھ " جمہوریہ " لگا ہے وہاں " خط " لکھنا بھی کوئی جرم ہوسکتا ہے تحریر سے اپنا مقصد بتانا ، تعریف کرنا یا تنقید کرنا تعلیم یافتہ معاشروں کی نشانی ہوتی ہےاور اپنی راۓ مکمل آزادی سے کسی شخص یا ادارے تک تحریر و تقریر سے پہنچانا پہلا " جمہوری حق " ! جس سے نہ کوئی  قانون روکتا ہے نہ آئین مگر خبر کی تفصیل سے پتہ چلا کہ  آنجناب کو حسن عسکری کے خط پر اعتراض تھا سو حسن  پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلا ، حسن کو بنیادی انسانی حقوق سے  محروم رکھا گیا اور اِنکی مرضی کا وکیل ِصفائی فراہم نہ کیا گیا، میڈیا اور پریس کو اِس خبر پر  خاموشی کا حکم یقینن دیا گیا تھا ورنہ اینکر اور تجزیہ کار نامی مخلوق آزاد ہوتی تو اس مقدمے پر سات نہ سہی ایک شو تو ضرور کر گزرتی اور پھر بین الاقوامی خبر ایجنسی سے عوام کو اس "کورٹ مارشل "اور پانچ سال کی قید بامشقت کی خبر ملی جو صرف ایک  "خط لکھنے کی سزا "  ہے

  مزید آگے بڑھیں تو دیکھتے  کیا ہیں کہ ایک عوامی نمایندہ جو عوام کے ووٹوں سے قومی اسمبلی میں آئین کا حلف اٹھا کر بیٹھا تھا اس آئین کا۔۔۔۔ جس کی قسم کھا کر آپ جان دینے کے وعدے کیے بیٹھے ہیں،  اس نمایندے کو خط لکھنے کی بھی مہلت نہ دی گئی بلکہ اِس نے تو صرف چند جلے  کٹے  جملے ہی ادا کیے تھے وہ بھی نہ کسی بین الاقوامی فورم پر نہ کسی غیر ملکی نشریاتی ادارے پر بلکہ اپنے جیسے نہتے عوام کے سامنے اپنے دل کا حال سنایا تھا .وہ عوام جو اس نماندے اور آپکو آپکی تنخواہ دیتے  ہیں سو اگراپنے ہی  "مالکوں " کے سامنے کوئی اپنی  دکھ  بھری ِکتھا سنا کر ہمدردی حاصل کرتا ہے تو جناب والا یہ کونسا جرم ہے ؟؟ کون قتل ہوگیا تھا علی وزیر نام کے ممبر اسمبلی کی تقریر سے ؟ کس کا گھر بار جلا ؟ کون لُٹ گیا تھا چند الفاظ اور نعروں سے ؟ کہ علی وزیر آج تک جیل میں ہے اور کوئی عدالت ضمانت دینے کوبھی تیار نہیں کیونکہ آپ کا فرمان بابت  منتخب ممبر وزیرستان جاری ہوا کہ "توہینِ بسالت " پر عوامی نمایندہ آپ  سے معافی مانگے اور اپنے کیے پر شرمندہ ہو  مگر کیوں شرمندہ ہو ؟ کس بات کی معافی مانگے ؟ کیا اس ملک کے نام کے ساتھ " اسلامی" نہیں لکھا اور بولا جاتا ؟  اور کیا قرآن  میں اللہ کا فرمان نہیں کہ  "اللہ تعالیٰ بری بات کُھلم کھلا کہنا پسند نہیں کرتے،سوا ئے کسی مظلوم کے"۔ سورۃ النساء ۱۴۸ اور کون ہوگا اس سے بڑھ کر مظلوم جسکا سارا خاندان دہشتگردی کا شکار ہوا اور اس نے بندوق نہیں اٹھائی مگراپنی تحریر و تقریرکی آزادی اوراپنے حلقے کےعوام کی ُپرامن آواز بننےکےلیے آئین پر قسم اٹھا لی۔ 

سو جناب میرا آپ سے سوال ہے کہ یہ کس قسم کی ریاست ہے، کونسا آئین ہےاور کیسی مملکت ہے کہ جہاں خط لکھنے اور تقریر کرنے پر سخت   قید و بند کی سزائیں  اور معافی ناموں کے مطالبے ہیں جب کہ  ستر ہزار معصوموں کا لہو پینے والے ڈریکولا کو پچھلے دروازے سے فرار کی کھلی چھوٹ ہے ، ١٢٦ دن تک  دار الحکومت کو جام کر کے ملک  کی معیشت ، سیاست اور امن و امان کو زمیں بوس کرنے والوں  کو تخت شاہی پر زبردستی جلوہ افروز کیا جاتا ہے اور یونیفارم میں ملبوس صوبائی چوکیداروں کے قاتلوں کو نہ صرف دعوت مذاکرات ہے بلکہ قاتلوں اورانکے سرپرستوں کو کبھی سرعام  لفافے تو کبھی خاموشی سے گلدستے عنایت کیے جاتے ہیں اگراب  یہی ریاست پاکستان کا آئین اور قانون  بن چکا ہے تو آپ سے درخواست ہے کہ اس "تبدیلی " کا  اعلان اپنے چنیدہ وزیراعظم اورانکی کابینہ کے ذریعے گلی گلی کروادیں تاکہ وہ جو قانون اور آئین کی پاسداری میں " بکری " بنے ہوۓ ہیں وہ بھی ہمت پکڑیں اورخط وکتابت یا تقریر وں کے ذریعے ریاستی  بے انصافیوں  اور حکومتی  زیادتیوں  پرآوازاٹھانے کی بجاۓ پتھر، ڈنڈے ،گولی اور بم اٹھائیں اوراپنے مسائل  "شیر کے پتر " بن کر منٹوں میں حل کروا لیں 

آپکے اس اعلان  کی منتظر رہوں گی 

والسلام 

آئینہ  


Thursday, October 28, 2021

" ابھی تک ہم نہیں بو لے"

عدل کی کرسی جہاں بے انتہا مضبوط ہوتی ہے وہیں اُسپر بیٹھا شخص پلِ صراط پر چلنے والا وہ  خوفزدہ انسان ہوتا ہے جسکی انصاف سے روگردانی ایک منٹ میں اُسکو جنت سے جہنم میں دھکیل دیتی ہے .افسوسناک  حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اِس کرسی پر بیٹھنے والوں نے عوام کو ہمیشہ اتنا ہی مایوس کیا ہے جتنا دوسرے "حساس اداروں " نے .اپنے  فرایض منصبی کو ادا نہ کرنا اور دوسرے اداروں کے کام میں بد نیتی سے مخل ہونا  اب قومی کلچر بن چکا ہے جسکے بد اثرات نے معاشرے کو تقریبا ناقابلِ مرمت کردیا ہے 
انصاف کے دہرے میعار نے منصفوں کے چہرے پر سے نقاب تو بہت پہلے اٹھا دیے تھے مگر اب تو ایسی حد آچکی ہے کہ "محترم " کہلانے والے ججز کو گھروں ، محلوں ، گلیوں میں بیٹھے افراد گالیاں دے رہے ، جھولیاں اٹھا کر بد دعا ئیں دے رہے اور ہم سوچ سکتے ہیں کہ جس " ریاست مدینہ " میں  " قاضی القضاء " پر پاکستان مین بولے جانے والی  ہر زبان میں دل کی بھڑاس نکالی جارہی ہو اس ریاست کا انجام کیا ہوگا ؟
نسلہ ٹاورکو بموں سے منہدم کرنے کا فیصلہ ہو یا گجرنالہ کومسمار کرنے کا یا پھر ہزاروں برسرروزگار افراد کے یک جنبش ِ قلم چولہے ٹھنڈے کرنے کا، پاکستان کی  سپریم کورٹ میں بیٹھی "جج " نامی مخلوق  نے نہایت تکبر سےعام شہریوں سے وہ بد سلوکی کی ہےجو پاکستان کی عدالتی تاریخ  پر کلنک کا ٹیکہ بنی رہے گی . کمزوروں پر دانت گاڑنے والے یہی  جج  دوسری طرف بنی گالہ  کے محلات ،بحریہ ٹاؤن اوراسکی زیر نگرانی  کراچی سے پشاور تک  تعمیر ہوتی غیر قانونی ہاوسنگ سوسائیٹیز پرنہ صرف خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں بلکہ کوئ  اپیل وغیرہ اِن تک پہنچ جائےتوجرمانے کے نام پر غیر قانونی تعمیر کو قانونی بنانے میں دیر نہیں کرتے ۔ اپنی ریٹایرمنٹ کے آخری دن تک اپنی  لاکھوں کی پنشن اور بے تحاشہ مراعات کے بعد بھی انکو "نئی نوکری " کی فکرپڑی  ہوتی ہے مگر کس جلاد صفت بےرحمی سے سوئی گیس کے ادارے سے ہزاروں افراد کو بیروزگاری کے اندھے کوئیں میں دھکیل گیے  یہ دکھڑا بھی عام لوگ  سوشل میڈیا کے ذریعے ہی سامنے لاسکےہیں  کیونکہ حکومتِ وقت انکی باندی اورمیڈیا انکا غلام جو ٹہرا
  مجھے نہیں معلوم کہ نسلہ ٹاور میں امیر لوگ رہتے ہیں یا غریب یا پھروہ مڈل کلاس طبقہ ، جو پاکستان کی جمہوریت کو تباہ کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہا، میں یہ بھی نہیں جانتی کہ اس ٹاور میں کونسا لسانی گروپ رہتا ہے یا سیاسی طور پر یہ لوگ کس سیاسی پارٹی کے ووٹرز ہیں اور میں یہ سب جاننا بھی نہیں چاہتی کیونکہ یہ سب معلومات  حاصل ہوجائیں تو ہماری انسانی حقوق کے لیے اٹھتی آواز یں یا تو دب جاتی ہیں یا بلکل ہی غائب ہوجاتی ہیں 
مجھے بس اتنا علم ہے کہ  لوگ کس قدر تکلیف اٹھا کر ، پائی پائی جوڑ کر اپنے گھر بناتے ہیں ، کس کی زمین تھی اور کس نے بے ایمانی کی نہ وہ جانتے ہیں نہ یہ انکا قصور ہے کیوں کہ  ریکارڈ بتا رہا ہے یہ معاملہ پچھلی چھ دہائیوں سے چل رہا ہے اور چھ دھائیوں سے مراد یہ کہ پاکستان کی سب سے زیادہ کرپٹ  شہری حکومتیں جو فوجی آمروں کی ناک تلے پنپتی ہیں وہ بھی اس تمام قضئیے میں ملوث رہیں اور یقینن اُنکی کرپشن اتنی " ڈسپلنڈ " ہوتی ہے کہ اس کرپشن کا ملبہ بیس تیس سال بعد کسی  معمولی اہلکار پر ہی گرتا ہے کسی  طاقتور اور بااختیار پر نہیں سو ایسے میں مجبوراورلاعلم لوگوں کے سروں سے چھت کھینچنا  اور وہ بھی  "دہشت گردانہ "احکامات  کے ذریعے یعنی  ہفتے بھر کی مہلت میں عمارت میں ریھائش پزیربچوں، عورتوں ، بزرگوں اور بیماروں کو بجلی، گیس، پانی سے محروم کر دیا جائے اور پھر اِن  لوگوں کی  برسوں سے سجائی،  سنوارئی ریھایش گاہوں کو " بم "سے اڑا دیا جاۓ ایک نہایت ناپسندیدہ امر ہے اور یہ نفرت انگیز کام اُس صوبائی، منتخب حکومت کو کرنا ہے جس  کی گردن  پر ہر وقت وفاق ، فوج اورعدلیہ نے مل کر چھری رکھی ہوتی ہے تاکہ  ذرا سی چوں چرا ہو توچھری  پھیرکر کوئی آئینی بحران  پیدا کیا جاسکے یعنی ایک تیر سے دو شکار
عام عوام کے خلاف یہ امتیازی فیصلےانسانی حقوق اورانصاف کے ساتھ حد درجہ ناانصافی  ہیں  جس کی نہ   اخلاق اجازت دیتا ہے نہ ملکی قوانین اور نہ ہی "ریاست مدینہ " کے دعوے داروں  کے ماضی کے نعرے
ان منصفوں کے دہرے معیار انکی دہری شخصیت کی غمازی کرتے ہیں یہی خود پسند جج ہیں جو توہینِ جج کو توہینِ عدالت بنا دیتے ہیں اور پھراِس خود پسندی پر شرمندہ ہونے کی بجاۓ اِسکے خلاف آوازیں  اُٹھانے والے افراد کو جیلوں میں ڈال کر بھول جا تے ہیں یہ تو ایسا تکبر ہے جس کو قدرت معاف نہیں کرے گی اور آنے والا وقت آج کی عدلیہ اور اسکے فیصلوں کی کالک کو کبھی  بھی دھونہیں پاۓ گا 
پاکستان کی تاریخ میں یوں تو عدلیہ نے بہت سے ناقابل بیان قسم کے افسوسناک فیصلے دیے ہیں جس سے عدلیہ کا وقار مجروح ہوا مگر  ماضی قریب میں  افتخار چودھری  کے سیاسی فیصلوں سے جو بے وقاری  کا سفر شرو ع ہوا تھا ثاقب نثار ، آصف کھوسہ سے ہوتا ہوا جج گلزار تک پہنچ گیا ہے اور جس قسم کے فیصلے آج کی عدلیہ کر رہی ہے وہ ثابت کرتے ہیں کہ انصاف کا مردہ تدفین کے انتظار میں سرانڈ دینے لگا ہے 
ہم نہیں جانتے کہ یہ بنی گالہ  اور گجر نالہ میں فرق کرنے والے ناانصاف ججز کسی دھونس دھمکی کی وجہ سے ایسے  امتیازی  فیصلے کر رہے ہیں یا  اپنے لیے پلاٹوں کے لالچ میں ،  مگر یہ بھول رہے ہیں کہ جہاں یہ موجود ہیں وہ سدا رہنے کی جگہ نہیں بلکہ اس سے زیادہ کوئی خوف کی جگہ کائنات میں بنی ہی نہیں کیوں کہ جو عدل کے نام پر عدل سے ہٹ گیا اسکا نام و نشان مٹ گیا  
بڑی بڑی کرسیوں پر بیٹھے ان عدل کے ایوانوں میں تکبر کی بولیاں بولنے والے کم ظرفوں  کے لیے 

پیرزادہ قاسم کے اشعار پیش خدمت ہیں اگر دل میں کچھ  خدا کا خوف اور روح میں انسانیت باقی ہے تو ڈریں اُس وقت سے جب مخلوق ِخدا کے بولنے کی باری آجائے گی 

 

ابھی تو آپ ہیں اور آپ کا زورِ خطابت ہے "

بہت الفاظ ہیں نادر، بہت بے ساختہ جملے

ابھی تو لب کشائی آپ کی اپنی گواہی ہے

ابھی تو آپ ہیں ظلِّ الٰہی، آپ ہی کی بادشاہی ہے

ابھی سب زر، جواہر، مال و دولت آپ ہی کے ہیں

ابھی سب شہرت و اسبابِ شہرت آپ ہی کے ہیں

ابھی کیا ہے، ابھی تو آپ کا جبروت لہجے میں عیاں ہو گا

ابھی تو آپ ہی کے نطق و لب سے آپ کا قصہ بیاں ہو گا

ابھی تو محترم بس آپ ہیں، خود اپنی نظروں میں

معظم، محتشم القاب ہیں خود اپنی نظروں میں

ابھی تو گونجتے اونچے سُروں میں آپ ہی ہیں نغمہ خواں اپنے

سبھی لطف و کرم گھر کے، مکان و لا مکاں اپنے

ابھی تو آپ ہی کہتے ہیں کتنا خوب کہتے ہیں

جو دل میں آئے کہتے ہیں، جو ہو مطلوب کہتے ہیں

مگر جب آپ کی سیرت پہ ساری گفتگو ہو لے

"تو یہ بھی یاد رکھیے گا.............. ابھی تک ہم نہیں بولے 


Tuesday, October 26, 2021

آؤ سچ بولیں !



اخبارات اور رسائل  پڑھنے کا میرا شوق  کافی پرانا ہے اور پاکستانی سیاست میں دلچسپی بھی نئی نہیں سونے پرسہاگہ سوشل  میڈیا کی آمد !  خاص طور پر ٹویٹر نے اس سلسلے میں میری سب سے زیادہ مدد کی وہ اس طرح  کہ اب " خبرنامے کی  خبروں" اور نامور صحافیوں اور دانشوروں کے  کالمز، ٹویٹس اور پوسٹس  پر " سیدھا سیدھا  " تبصرہ کرنا بہت آ سان ہوگیا ہے . پہلے یہی کا م میں " لیٹر ٹو ایڈیٹر "اور  "اوپینین " کے سیکشن میں کرتی رہی ہوں  مگرجیسے کہ  ہمارے آرٹسٹ لوگ  کہتے ہیں کہ  فلموں اور ٹی وی ڈراموں کی نسبت  ہمیں "اسٹیج "پر کام کرنا زیادہ پسند ہے کیونکہ  فورا ہی  داد یا  جوتے وصول ہوجاتے ہیں اسی طرح  اپنے "کمنٹس "  پر فورا ہی رد عمل  جاننے کے لیے  مجھے بھی سب سے بہترین ذریعہ  ٹویٹر ہی  لگتا ہے اور بارہا اس  لاحاصل جہاد سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا ارادہ کر کے بھی اس سے علیحدگی اختیار نہیں کر سکی  کہ" چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی "  اور اب تویہ حال ہے کہ  صحافی یا کالم نگار سوال اٹھانے پرفورا ہی بلاک کردیں تو بھی ایک ایسا سرور ملتا ہے جو صرف کسی نشے باز "جہا ز" کو نشہ پورا ہونے پر ملتا ہے

      کچھ دن پہلے ٹویٹر پر محترم خرم قریشی نے ایک لاجواب ٹویٹ کی جسمیں وہ ٹویٹتے ہیں ”پرسنل ٹویٹر اکمپلشمنٹس " یعنی” ٹویٹر پر میرے ذاتی کارنامے " اور کارناموں کی فہرست میں وہ ان افراد کے ٹویٹر پیج منسلک کرتے ہیں جنہوں نے انکو بلاک کیا انمیں گلوکارو خلائی فنکار فخرعالم ، پاکستانی امور ِ جاسوسی میں ماہر سنتھیا رچی ، تبدیلی  بٹالین کے روح رواں  میرعلی محمد خان اور وزیراعظم  کی  ماورائی خوبیوں کو تاڑنے کا تین سالہ تجربہ رکھنے والی محترمہ مہر تارڑ شامل ہیں انکے یہ "ذاتی کارنامے " دیکھ کر خاکسارہ  کے دل میں بھی یہ خواہش جاگی کہ میں بھی  اپنے " ذاتی کارناموں "کی  لسٹ بنا ہی ڈالوں ، سو پچھلے آٹھ سال سے جن  مایہ ناز افراد نے بلاک کرکےعزت بخشی انکی فہرست بنالی اورآپکو یہ سن کر خوشی ہوگی کہ جن لوگوں کو میں فالو کرتی رہی ان میں سے بلاک کرنے والوں کی اکثریت " صحافی یا کالم نگار یا تجزیہ کار" ہے حتی کہ جن کو کبھی  فالو ہی نہ کیا تھا اُن میں بھی اسی پیشے کے لوگوں کی ایک معقول تعداد موجود ہے اور لگتا ہے اُنکو کسی " الہام " کے ذریعے میرے ان  گستاخ سوالات کے بارے میں علم دیا گیا جو میں آنے والے وقت میں ان سے کر کے اُن کے منہ کا زایقه خراب کر سکتی تھی

سنجیدگی  سے سوچا کہ  میرے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے تو وہ دو سوالات ہی سامنے آ ئے جن پر اکثر "پڑھے لکھے دانشوروں " نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے مجھ پراپنے گھر کے" دروازے " بند کرنا بہتر سمجھا 

پہلا سوال عموما بلوچستان ،سندھ اور پختونخواہ کے جبری لاپتہ افراد پر ریاست کا گریبان نہ پکڑنے  پر ہوتا ہے  کیونکہ میرے حساب سے صحافی اور خاص طور پر " تفتیشی صحافت "کرنےوالے  اور سیاستدانوں کے "پوشیدہ مالی جرائیم " کے بارے شو کرنےوالے اینکرز پرایسا سوال بنتا  بھی ہے  کیونکہ اگر وہ یہ چھبتا ہوا سوال ریاست کے اداروں سے نہیں کریں گے تو کون کرے گا ؟؟ 

دوسرا سوال پہلے سوال سے زیادہ تکلیف دہ ہے اور اسکی گردان بھی  روز جاری  رہتی ہے اور اسی طرح میرے بلاک ہونے کا سلسلہ بھی اور وہ سوال ہے  صحافی صاحب ، مسٹر اینکر اور شدید سینیرتجزیہ کاروں کی سیاسی وابستگی ۔

جب بھی اُنکے  یک طرفہ سیاسی جھکاؤ پر تنقید اوروضاحت مانگی جاۓ  یہ خواتین و حضرات ایسے چراغ پا ہوتے ہیں کہ لگتا ہے خدا نخواستہ  میں نے اُن سے اُنکی  اصل تنخواہ یا حقیقی عمر کے بارے پوچھ لیا ہو 

کوئی اِن اللہ کے بندوں کو ابھی تک یہ بات سمجھا نہیں پایا جواستاد ِ صحافت جناب وجاہت مسعود نے پچھلے دنوں ایک کافی بدتمیز قسم کے ٹویپ کو بہت ہی تمیز و تھذیب سے سمجھائی 

 انہوں نےاس ٹویپ کےاسی قسم کےالزامات کے جواب میں لکھا

"کہ" صحافی سیاسی طورپرغیرجانبدارنہیں ہوسکتا  ۔

درست ! یہی سچ ہے کہ خبر سیاسی ہوتواسکو سنانے والا جب اُس خبر کا تجزیہ  کرے گا تو وہ یقینن اپنےجانبدار دماغ و دل سے اُس خبرکو توڑ مروڑ کر اپنے سیا سی گرو کے حق میں اور اپنے نا پسندیدہ سیاسی رہنماوں اور  پارٹیوں کے خلاف پیش کرے گا

اور پھر پاکستان جیسے ملک میں جہاں ایک سے ذیادہ لسانی اکائیاں ہیں اِن صحافیوں ، اینکروں اور تجزیہ کاروں کا لسانی تعصب بھی ہمالیہ کی بلندیوں کوچھو رہا ہوتا ہے  ویسے یہ لفظ "اکائیاں " پاکستان کے مین اسٹریم نیوز میڈیا  کے لیے  میں نے بلاوجہ ہی استعمال کیا ہے  کیونکہ اردواور انگریزی پریس ہو یا چینلزمگر یہاں اکائیاں نہیں صرف" ڈیڑھ اکائیِ" سرگرم ِ عمل  ہے بقیہ تین  ساڑھے تین اکائیاں تو ایسے ہیں جیسے آٹے میں نمک بلکہ آٹےکوگوندھتے ہوئے صرف"نمک " کا نام ہی لے لیا جا ئے توکافی ہے

ایسے میں اِن “بے چارے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں“ کی آزمایش کرنا اپنے آپ میں ایک ظلم ہے جو مجھ سمیت بہت سوں سے ہر روز، ہر لمحے  سرزد ہوتا رہتا ہےمگر یھاں غلطی میڈیا برادری کی بھی ہےکیونکہ ہم نے تو صحافت نہیں پڑھی مگراِنکوتوصحافت ازبر ہونی چاہیے 

جب اِنکو پتہ ہےکہ  یہ غیرجانبدارنہیں  ہوسکتے،  یہ "غیرسیاسی  بچے" نہیں بن سکتے توکیوں عوام پراپنے 

 مسیحا " ہونے کا رعب ڈالتے ہیں؟  کیسےایسا ظاہرکرتےہیں کہ  یہ " دار" پرچڑھ جانےوالےسرمد ومنصورہیں؟   کس لیے لوگوں کوسقراط کی ایکٹنگ کر کے دیکھاتے ہیں جب کہ زہرکے پیالے شہروں میں بسنے والی  نام نہاد پڑھی لکھی مڈل کلاس کو پلاتے ہیں اورخود "دودھ کے پیالوں"پر پھل پھول رہے ہیں 

اِن مین اسٹریم صحافت میں پائ جانے والی مخلوق کو ایک بارتو یہ اعتراف کُھل کرکرلینا چاہیے کہ وہ “سیاسی وابستگی” کو گناہ نہیں سمجھتے اورجب اُنکو اُنکے معتصبانہ روئیے پرتنقید کا سامنا کرنا پڑے تومجھ جیسے سوال اٹھانےاور" طعنے" دینے والوں کو بلاک کرنے کی بجائے اِنکو اِس حقیقت  کا اظہارکرنا چاہیے  کہ ہاں ! ہمارا “سیاسی جھکاؤ “ ہے کیونکہ حال یہی ہے کہ  ہر ایک سو صحافیوں،کالم نگاروں ،اینکرز اور تجزیہ کاروں میں پچاس فیصد جی ایچ  کیو میں فوجی بوٹ پالش کرکے کماتے ہیں تو انچاس فیصد جاتی عمرہ کے بیانیے کی ما لش کرکےروزی روٹی کماتے ہیں اوربقیہ ایک فیصد اِس  تمام منظر کو خاموشی سے دیکھتے رہتے ہیں مگر حقیقت سننے کوکوئی  بھی تیار نہیں اور جِس بحث کو محترم وجاہت مسعود نے دو منٹ میں نمٹا دیا  اُسپر مجھ جیسے "طفلِ مکتب "کو جو مشکل سوال کرنے پر ویسے ہی مکتب سے نکال دیا جاتا ہے  کبھی " ٹرول " تو کبھی جعلی ا کاونٹ کے القابات سے نوازکر اپنے دروازے بند کر دیتے ہیں۔  حوصلہ کرِیں جناب اور سچ بولیں کیونکہ ہر سچائی تک پہنچنے کے لیے حوصلہ چاہیے ہوتا ہے


Monday, July 26, 2021

ملک خدادا کا بھکاری بادشاہ

 بزرگ بتاتے ہیں کہ ایک  بستی  کے بادشاہ کا  انتقال پر ملال ہوگیا ،  بےاولاد تھا شاید  !!  ورنہ اتنی آرام سے کونسا بادشاہ انتقال کرتا تھا  اکثر تو اپنی اولاد کے ہاتھوں مارے جاتے تھے خیر! کہتے ہیں کہ بادشاہ کی وفات پر  وزیر باتدبیر نے ایک  انوکھا " طریقہ انتخاب " جاری کیا کہ آج سے  تین دن بعد جو پہلا شخص  بستی کے صدر دروازے پر دستک دے گا وہی ہمارا اگلا  بادشاہ ہوگا سو اس  "سلیکشن "کے نتیجے میں جو پہلا شخص تین دن بعد صدر دروازے پر آوازہ لگانے آیا وہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے ، سر پر ٹاٹ لگی ٹوپی اور گلے میں کشکول لٹکاۓ ایک عدد "بھکاری "تھا سو  بستی والوں کی قسمت میں جو نیا بادشاہ  لکھا گیا وہ  پیشہ ور بھکاری  نکلا. 

 صدر دروازے پر دستک دے کر بھکاری سے بادشاہ  بننے والے کو وزیروں ، مشیروں نے تاجپوشی کا اعلان پڑھ کر سنایا اسکے بعد  پھٹے پرانے ٹاٹ لگے کپڑوں کی جگہ شاہانہ لباس زیب تن کروایا گیا ،  چھیتڑوں سے بنی ٹوپی ہٹا کر سر پر تاج اور سوراخوں  بھرے جوتوں کی جگہ شاہی موزے پہناۓ گیے اور کشکول ؟؟ بھلا بادشاہ کے گلے میں کشکول کیونکر لٹکتا سو سونے چاندی کی  دوہری اور سچے موتیوں کی مالا نے کشکول کی جگہ لے لی یوں " بھکاری  بادشاہ"کے دن و رات آرام و چین سے گزرنے لگے مگر دنیا میں وہ سکون کہاں جو قبر میں ملتا ہے سو ہمسایہ ملک  کے بادشاہ کو کسی نے خبر دے دی کہ  برابر والوں کا طاقتور بادشاہ تو لڑھک گیا ہے اب اسکی جگہ ایک ایسے شخص نے لے لی ہے جسکو امور حکمرانی کا اتنا ہی تجربہ ہے جتنا  ہمارے عالم پناہ کوبھیک مانگنے کا . ظل الہی نے یہ سنا تو کافی محظوظ ہوے اور کہا کہ بہت عرصے سے اس بستی پر قبضے کے خواب دیکھ رہا تھا جو پچھلے بادشاہوں کی طاقت اور عقل و فہم کی وجہ سے تعبیر نہ پاسکے مگر لگتا ہے اس بار قدرت بھی یہی چاہ رہی ہے کہ ہم اپنے ملک کو مزید وسییع کر لیں سو اے میری  سپآہ کے سالارو   ! حملے اور قبضے کی  تیاری کرو 

بستی کے مخبروں کو جب طاقتور ملک سے یہ خوفناک اطلاعات  موصول  ہوئیں تو بھاگم بھاگ دربار میں پہنچے جہاں سابقہ بھکاری عرف بادشاہ سلامت  انگور کھلانے  اور پکے راگ سنانے والوں کے درمیان موجود تھے مخبر نے تخلیے کی درخواست کی جسے عالم پناہ نے رد کر کے سرے عام " مخبری " کا حکم دیا مخبر نے ڈرتے ڈرتے کہا جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ  ہمسایہ ملک کے بادشاہ اپنی افواج کو حملے کے لیے تیار کر رہے ہیں یہ سن کر بادشاہ سلامت کچھ لمحوں کے لیے ٹھٹکے اور  پھر بولے " کرتے ہیں کچھ گھبراؤ نہیں " دربار میں اس جملے سے کافی اطمینان چھاگیا  .دو روز گزر گیے  اور دشمن ہمساۓ کی فوج اپنے ملک کی  سرحدوں  سے آگے  بھکاری بادشاہ کی بستی کے حدود اربع  تک پہنچ گئی مخبر تو مخبر فصیلوں پر کھڑے پہرہ داروں  نے بھی دشمن کے عظیم الشان لشکر کی پیش قدمی کو دیکھ لیا اور سب لگے دربار کی طرف دوڑ لگانے جہاں شہنشاہ دوپہر کے بڑے کھانےکے بعد قیلولہ فرما رہے تھے کنیزوں نے "اک پھل موتیے دا "  مار مار کر جگایا کہ عالم پناہ ! خدا کی پناہ ذرا باہر کی خبر لیں کہ دشمن سرحدوں تک پہنچ گیا ہے. بادشاہ سلامت ہڑبڑا کر اٹھے دشمن افواج کی پیشقدمی کی خبریں سنیں اور بولے "ٹھیک ہے سمجھ گیا کرتے ہیں کچھ اس سلسلے میں " عوام میں جو ٹینشن دشمن افواج کے بوٹوں کی دھمک سے پھیل گئی تھی قدرے کم ہوئی 

ابھی عوام نے قبر سے باہر ہی سکون  کا سانس لیا تھا کہ صدر دروازے پر توپوں کے گولے اوربستی کے پہریداروں پر دشمن کے  اڑتے تیروں کی بوچھاڑ ہوگئی  عوام جو بادشاہ سلامت  کی طرف سے پالیسی بیان اور جنگی چالوں کو عملی جامہ پہنانے  کا انتظار کررہےتھےسخت خوفزدہ ہو گیے اپنے گھروں، دکانوں ،کھیتوں ،کھلیانوں کو چھوڑ کر محل کی طرف چل نکلے اور دوسری طرف دشمن ملک کی فوج نے بھی محل کی طرف رخ کیا اور راستے میں جس نے بھی اس پیشقدمی کو روکنے کی کوشش کی اسکو موت اور تباہی کا منہ دیکھنا پڑا یہ حالت زار بستی کی افواج کے سپہ سالار اور امور مملکت چلانے والے وزراء اور مشیروں کے ذریعے شہنشاہ تک پہنچی تو وہ سمجھ گیا کہ اب پانی سر سے اسقدر اونچا ہوچکا ہے کہ زیادہ دیر ناک منہ بند کر کے اس پانی میں رہنا موت کو دعوت دینا ہے عوام کے غیض و غضب سے بھرے نعرے محل کی در و دیوار کو ہلا رہے تھے تو دشمن کی توپیں زمین کو لرزہ رہی تھیں ایسے میں   " بھکاری بادشاہ " نے بھرے دربار میں اعلان کیا " میں نے فیصلہ کر لیا ہے " تمام درباری منتظر تھے کہ بادشاہ  اپنا فیصلہ سناۓ جس پر عملدرآمد سے بستی اور بستی کے عوام کو دشمن کی چیرہ دستیوں سے  بچایا جاۓ کہ  دیکھتے کیا ہیں عالم پناہ نے اپنی خوابگاہ کی طرف دوڑ لگا دی اور کچھ لمحوں بعد خوابگاہ سے ظل الہی کی جگہ ایک پھٹے پرانے کپڑوں ، ٹوٹی جوتی اور کشکول گلے میں ڈالے بھکاری نمودار ہوا ،گلا صاف کر کے بولا " بھائیوں ! یہ حکومت وغیرہ تو میرے بس کی بات نہیں ہاں اگر کبھی بھیک وغیرہ مانگنی ہو تو خاکسار کو ضرور یاد کر لینا  آپکی نوازشات کا شکریہ میرا تو اس مملکت میں کچھ لینا دینا نہیں سو جو کشکول اور ٹاٹ پہن کر آیا تھا وہی پہن کر جا رہا ہوں اب آپ جانیں اور آپکی بستی......... اللہ حافظ

( ہر قسم کی مماثلت اتفاقی ہے ادارہ ذمہ دار نہیں )   

Friday, July 16, 2021

اسلام کا قبرستان

    کراچی کے گٹروں پر سےگم ہوتے ڈھکنوں اور لاڑکانہ کے باؤلے کتوں سے کاٹے کے نایاب انجیکشنوں کا سفر کویٹہ ،شاہ نورانی ، پشاور ،مہمند ، سیہون کی دہشتگردی میں جانے والی جانوں سےہوتا ہوا پانامہ کیس اور سلیکٹڈ کےانتخاب سے گزرتا گزراتا گجرنالے تک آ پہنچا ہے مگر آج بھی پاکستان کی طاقتوراشرافیہ  بلوچستان ، سندھ اور پختونخواہ  کے جبری گمشدہ بیٹےبیٹیوں سے  بے پرواہ ہے اور   گلی محلوں میں بسے بے بس عوام گریہ کناں

نیوزمیڈیا توکچھ ٹکوں میں بکنے والی شے ہے مگرسوشل میڈیا پرموجود بہت سےاحمق آج بھی اس صورتحال میں پاکستان کو"اسلام  کا قلعہ" کہتےشرم سے پانی نہیں ہوتے
 اپنےبنائےہو ئےاس ٹہرے پانی کےبدبودار کوئیں سے باہر آکردیکھیں کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے یا اسلام کا قبرستان بن چکا ہے ؟؟     حقیقت یہ ہے کہ ستر سال میں اس ملک کے مختلف علاقوں میں  اسلام کی صرف " تدفین " ہو ئی ہے
ویسے تو عالم اسلام کے کسی بھی ملک میں اسلام کی عزت افزائی نہیں ہو پا ئی کسی ایک اسلامی ملک میں بھی فلاحی  مملکت کا تصورموجود نہیں کہیں ڈیکٹیٹر شپ ہے تو کہیں بادشاہت اور ملا گردی اور بالفرض کوئی مغربی دنیا کی جمہوریتوں کو متاثرکرنےکو انتخابات کروا بھی دیتا ہے توحیرت انگریز نتایج کے تحت چالیس سال تک ہرانتخاب ایک ہی پارٹی یا ایک ہی شخص جیتتا چلا جاتا ہے جیسے ملک کی عوام اندھی  ہے وہ ایک پارٹی کے سوا کچھ اوردیکھ ہی نہیں سکتی مگر ان تمام ممالک میں پاکستان کوایک امتیاز حاصل ہے وہ یہ کہ اسلام کےبنیادی احکامات کو بڑی ڈھٹائی سے دفن کرنے کے باوجود یہ  بلند ا بانگ دعوے کہ "پاکستان اسلام کا قلعہ " ہے 
حقیقت یہ ہے کہ جس دن پاکستان میں حسن ناصرکوانکےنظریات کی وجہ سے شاہی قلعہ کےعقوبت خانوں میں تشدد کرکے قتل کیا گیا اورانکی میت کونامعلوم قبرمیں اتاردیا گیا اسی دن پاکستان کےسینےپرقدرت نےایک کتبہ لکھ دیا تھا کہ
 "یہاں اسلام دفن ہے"
 آج آپ مجھ سےلاکھ حجتیں کرلیں ، بحث کریں  یا منطق اٹھا لائیں  لیکن اسلام کےکسی نکتے سے یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ کسی بھی قسم کے نظریات کا حامل کسی بھی اسلامی شق یا روایات  کی رو سے جبری گمشدگی ، ٹارچر ، ہلاکت اور پھر نامعلوم قبر کا حقدار ٹھرسکتا ہے 
 پھر کون سا اسلام اس قلعےکی حفاظت پر مامور ہے؟ یہ کونسا قلعہ ہے جہاں اسلام کےنام پردہشتگردی ناچ رہی ہے ؟ 
جنوری دو ہزارچودہ میں بلوچستان کے علاقے خضدار میں تین اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں یہ آ ثا رقدیمہ کی دریافت نہیں تھیں جس پرمیں اورآپ فخر کرسکیں یہ میرےاورآپکےبھائیوں کی چونا لگی لاشوں کا ڈھیر تھا جوحریت پسندوں کے مطابق تو سو سےزیادہ افراد تھےمگرآپ تعصب سےکام لےکربلوچ حریت پسندوں کے دعوں کی نفی کرسکتے ہیں لیکن حکومتی اہلکاروں کےسچ کومان لیں کہ وہاں سترہ افراد اجتماعی طورپردفن تھے 
 سترہ افراد کی تشدد زدہ ، ناقابل شناخت لاشیں.... سرزمین پاکستان سے دریافت ہوتی ہیں جہاں مسلمانوں کی 97فیصد آبادی ہے جہاں کی حکومت مسلمان اور ستانوے فیصد  مسلمانوں کے آزادانہ ووٹوں سے منتخب ہے جہاں پانچ وقت مسجدوں سے اذان کی آواز گونجتی ہے جہاں رمضان میں سرے عام کھانے پینے والے پرمعاشرہ اسلامی غیرت سے سرشار ہو کر ٹوٹ پڑتا ہے یہ وہ واحد اسلامی مملکت ہے جہاں " عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم " کا دن  بڑی دھوم دھام سے منایا گیا جہاں منصف توہین رسالت کے دوسٹیٹس ا پ ڈیٹس اور تین ٹویٹس کےخلاف جذباتی  ہوکرٹسوےبھاتےہیں مگرسترہ افراد کی ناقابل شناخت لاشوں کےقضیے کوآئیں بائیں شائیں کردیا جاتا ہے 
کس کی لاشیں تھیں ؟ کس نے تشدد کیا ؟ کس نے چونا ڈال کر ناقابل شناخت کیا ؟ اس ملک کے محافظوں نے یا آزادی کی جنگ لڑنے والوں نے یا ہمسایہ ممالک کی ایجنسیوں نے؟ سوال انگنت مگر جواب  ندارد ؟
 حسن ناصر کی نامعلوم قبرہو یا توتک خضدار کی  اجتماعی قبریں، اسد مینگل کی جبری گمشدگی ہو یا ذاکر مجید بلوچ اوران جیسے بہت سےنظریاتی کارکنوں کا ریاستی اغواء  ..... یہ واقعات ایک ایسا کلنک کا ٹیکہ ہیں جو ہردور میں پاکستان  کی پیشانی پرنمازوں کے نشان سے زیا دہ نمایاں رہے گا
 ہم اعتراف کریں یا نہیں مگر امر وا قعہ یہی ہے کہ برسوں سے گمشدہ افراد ، تشدد زدہ لاشیں ، نامعلوم اور اجتماعی  قبریں اسلام کے قلعےکو اسلام  کے مقبرے میں تبدیل کرچکیں.... آپ سبکو اطلاع  ہو کہ ایٹمی پاکستان اسلام کا قبرستان بن چکا ہے
آپکی پانچ نمازیں ، تہجد گزاریاں، لگاتارعمرے،حج پرحج ،رمضانوں  میں نعتوں کےدور،غیرت اسلام اورگستاخ رسول (ص ) کا سرتن سے جدا کرنے کے آسمان تک گونجتےنعرے........ یہ سب کچھ ملا جلا کربھی آپکودین و دنیا میں ایک چونا لگی ناقابل شناخت لاش پرجوابداری سے نہیں بچا پائیں گے 
بلوچستان کی اجتماعی قبریں ہم پرحد نافذ کرچکی ہیں ہر بااختیارجو مسلمان ہونے کا دعوی کرتا ہے اس پرآسمان سے حد جاری ہوچکی ہے 
حقیقت یہی ہے کہ  پاکستان نہ تواسلامی ریاست  ہے نہ ہی اسلام کا قلعہ....... اگرمیں اورآپ یہ حقیقت نہیں مانتےتوصرف اپنےآپ کو دھوکہ دےرہے ہیں اوردھوکے کا انجام جلد یا بدیر ہماری اپنی ہلاکت ہی ہوگا  

Saturday, July 10, 2021

پاکستانی نیوز چینلز اور جرنیل ضیا کی پھانسی

 کچھ روز قبل  جولائی کی پانچ تاریخ گزری ہے .اس تاریخ کے پاکستان پر ایسے گہرے اور دردناک نقوش ہیں کہ  شاید ہی کوئی پاکستآنی ہو جو اسکے اثرات سے بچا ہو  یہ سن ستتر کی پانچ جولائی تھی جس نے ملک خدا داد کے چہرے پر آمریت کی نحوست کے انمٹ داغ لگا دیے گو کہ اس نحوست سے پاکستان پہلے بھی دو بار گزر چکا تھا مگر پانچ جولائی سن ستتر کی فوجی آمریت نے گیارہ سال میں جو زہر کے بیج بوۓ وہ آئیندہ آنے والی تین نسلوں نے کاٹے اور  نہ جانے ابھی یہ سلسلہ کہاں تک جانا ہے 

اس بلاگ کو لکھنے کا مقصد ضیا آمریت کے نازل ہونے کی  وجوہات یا اس پھر اسکے پاکستانی عوام پر بد اثرات کو اجاگر کرنا نہیں حالنکہ یہ کام  ان  تمام  لوگوں کا   فرض تھا جو قلم کارہیں، تاریخ کو بیان کرنا جانتے ہیں اورپھر ان گیارہ برسوں کے عینی گواہ  بھی رہے ہیں ، اسکے ساتھ ساتھ اسکرینوں پر بیٹھے ان  تمام  "سینئیر تجزیہ کار" بمعہ  اپنی صحافت کے جھنڈے ہمارے لاؤنجز میں گاڑتے سب کے سب  صحافیوں کو بھی ضیا فوجی آمریت کا حال دہرانا  ہی چاہیے مگر فالحال ایسا نہیں ہورہا  . سو اس بلاگ کا موضو ع  ضیا آمریت کے بد اثرات نہیں بلکہ ان اثرات کو نظر انداز کرنے کا خمیازہ ہے جو نئی نسل بھگت رہی ہے  

اس سال پانچ جولائی کو پاکستان کے ایک جانے مانے صحافی جنکو" صحافی" کہتے کم از کم مجھے  کبھی سوچنا نہیں پڑتا  انہوں نے ایک بہت ہی دلچسپ پروگرام تیار کیا ویسے تو پبلک سے آراء لینے والا ہر شو ہی بہت دلچسپ  ہوتا ہے مگر مطیع اللہ جان  کا یہ شو  "دلچسپ" تو تھاہی مگر قومی شرمندگی  کا با عث بھی تھا   

مطیع اللہ جان نے فیصل مسجد اسلام آباد کے احاطے سے یہ شو کیا  اور وہاں موجود عوام سے ایک سادہ سا سوال  پوچھا کہ احاطے میں یہ "کس کی قبر  ہے" ؟ اورپھرضیا الحق کے نام بتانے کے ساتھ ہی مزید سوال و جواب. مزید  سوالات بہت ہی برجستہ تھےاور جوابات  سے ہی منسلک تھے

قارئین یقینن جانتے ہونگے کہ شہر اقتدار کی آبادی کی اکثریت شہری اور خواندگی کا تناسب پاکستان میں  سب سے زیادہ ہے مگر کیوں کہ  فیصل مسجد  ایک سیر کی جگہ تصور کی جاتی ہے اس لیے ہم فرض کر لیتے ہیں کہ شو کے دوران عوام کا کم پڑھا لکھا طبقہ بھی  یھاں  سیر کے لیے موجود  تھا  

مطیع اللہ جان کے سوال " احاطے میں کس کی قبر ہے "کا جواب تو اکثریت نے  درست بتا دیا کہ قبر ضیاالحق کی ہے مگر جس چیز کی کمی تھی وہ پاکستان کی سیاست اور تاریخ سے جڑی  عام معلومات تھی اور اس قسم کی عام معلومات کو حاصل کرنے کا زریعہ یقینن ان  پچپن ساٹھ  نیوز چینلز کو ہونا چاہیے تھا جو سن ٢٠٠٢ سے مسلسل چوبیس گھنٹے چلتے ہیں ، ہر گھنٹے پر خبریں قومی زبان اردو میں ہوتی ہیں ہر چینل پر کم از کم تین اور زیادہ سے زیادہ پانچ ٹاک شوز کیے جاتے ہیں اور سب کے سب ان چوبیس گھنٹوں میں نشر مکرر پیش کیے جاتے ہیں ان پر بیٹھے سقراط ، بقراط اور افلاطون اپنے کو ایسی اعلی مخلوق سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر انکی شان میں ہلکی پھلکی  گستاخی بھی ہوجاۓ تو یہ ایسے  " گستاخ " کو دوسرا موقع نہیں دیتے اور بلاک کر کے بھول جاتے ہیں اور تو اور اسکرینوں سے اٹھ کر سیدھا اپنے یوٹیوب چینلز پر پہنچتے ہیں تاکہ  روپے میں ملتی لاکھوں کی تنخواہ میں ڈالرز بھی شامل کر سکیں یہ انکی لالچ کی انتہا ہے مگر انکی ان سب " آنیوں جانیوں " کا حاصل وصول یہ ہے کہ وہ طبقہ جومکانوں ، دکانوں سے جھونپڑیوں تک اور ٹی وی اسکرینوں  سے اپنے موبائلوں تک انکو دیکھتا اور سنتا ہے وہ ضیا کے بارے میں یہی جانتا ہے کہ " جرنیل ضیا کو پھانسی دی گئی تھی" 

اس بلاگ کے ذریعے میرا سوال ان تمام  تجزیہ کاروں، صحافیوں اور اینکرز سے یہ ہے کہ سن ٢٠٠٢ سے سن ٢٠٢١ تک آپ نے کیا کیا ؟؟  مطیع اللہ جان کے شو میں اکثریت  نوجوانوں کی تھی جن کا علم  اپنے ہی ملک کی تاریخ کے بارے میں اگر صفر نہیں تھا تو منفی ایک ضرور تھا سو اسکرینوں میں جلوہ افروز یہ خواتین و حضرات پچھلے انیس ، بیس برسوں میں نئی نسل کے علم میں کیا اضافہ کر سکے ؟ نوجوان افراد نہ صرف پاکستان  تاریخ سے انجان تھے بلکہ نظریاتی طور پر تقریبا  بے سمت  تھے انکو نہ جمہورت اور آمریت کا فرق پتہ تھا نہ ہی غاصب  اور منتخب کا!  ضیا کو ایک ساتھ  آمر اور ملک کا وزیراعظم بتا  رہے تھےاور کبھی بغیر داڑھی کا اسلام نافذ کرنے والا مجاہد اسپرسوال کیا جاتا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے تو جواب ندارد.    اس پروگرام میں کچھ استاد بھی فیصل مسجد میں سیر کی غرض سے موجود تھے انکے جوابات سے یہ تو پتہ چل رہا تھا کہ انکا نالج کچھ بہتر ہے مگر جس طرح وہ مطیع  کے سوالات کو ٹال رہے تھے صاف اندازہ ہورہا تھا کہ ایک خوف ہے جو انکو  بہت کچھ بتانے سے روک رہا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ جہالت اور کم علمی  پھیلانے میں خوف کو بھی ھتیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اس " خوف " کے تدارک کے لیے بھی علم ، آگہی اور سیاسی شعور چاہیے ہوتا ہے مگر چوبیس گھنٹے اپنے کو معاشرے کا  خود ساختہ جج سمجھنے والے بھی اس خوف کے سامنے ویسے ہی ڈھیر ہیں جیسے وہ سیاستدان جن پر یہ " خود ساختہ جج " انگلیاں اٹھاتے ہیں 

جیسے کسی استاد کی مضمون میں دسترس اسکے شاگرد کو جانچ کر پتہ چلتی ہے اسی طرح عوام کی اپنے ہی ملک کی تاریخ سے لاعلمی  ہمارے نیوز میڈیا پر بیٹھے صحافیوں اور تجزیہ کاروں  کی نالائقی اور نااہلی کا قصّہ سنا رہی ہے انکو  لاکھوں کی تنخواہ اگر میڈیا ہاؤس کے مالک کو خوش کرنے کی ملتی ہے تو انکے لیے بہت بہتر ہوگا کہ  میڈیا مالک کے گھریلو ملازم بن جائیں نہ کہ عوام میں جہالت  اور جھوٹ پھیلائیں. آج کے پاکستان میں چلتے ان  سینکڑوں  چینلز سے تو بہت بہتروہ  "سرکاری چینل " تھا جو ایک تھا مگر کم از کم اتنا نیک ضرور تھا کہ ہم بچے اسکو حکومت کا چمچہ سمجھ کر بی بی سی ، وایس آف امریکہ ، سی این این ،انٹرنیشنل اور نیشل اخبارات سے خبریں کھوجتے تھے اور اپنے علم میں اضافہ کرتے تھے  جبکہ  یہ " نجی " اور "آزاد " کہلانے والے چینلز چلانے والے میڈیا ہاوسز خود تو "حرام " کھآتے ہی ہیں عوام  کو بھی اتنا "ھڈ حرام " بنا دیا ہے کہ جو جھوٹی خبریں ، مصالحے بھرے واقعات، مرغے لڑانے کی ترکیبیں اوریوٹیوب چینلزپرگھٹیا ہیڈنگز کی بھرمار دیکھ کرمطمین ہوجاتے ہیں کہ ہم نے اپنےتئیں ملکی سیاست اور اسمیں استعمال مہروں کو جان بھی لیا اور پہچان بھی لیا مگر حقیقت یہ  ہے کہ  نیوز چینلز کہلانے والی یہ" دکانیں" عوام کو پاکستان کی سیاسی اور قومی  تاریخ بتانے میں مکمل ناکام ہیں یہاں سواۓ "کتے ، ریچھ اور مرغے" لڑانے اور سیاسی تاریخ کو مسخ کرنے والوں کے بوٹ چمکانے کے کوئی کام نہیں ہوتا یقینن تاریخ لکھنے والے پاکستان کے اس دور کو قومی زندگی کا المیہ لکھیں گے کہ جب چوبیس گھنٹے چلتے سینکڑوں نیوز چینلز کی  موجودگی میں کوئی با ہوش وحواس  شخص  مائیک اورکیمرے کےسامنےکھڑا ہو کرکہےکہ جرنیل ضیا کوغدارکہا گیا تھا اور یہ کہ "جرنیل ضیا کو پھانسی پرلٹکا دیا گیا تھا" 

Sunday, June 20, 2021

پی ٹی آئی کی زلیخا

 کراچی کے حلقہ 249 کا  ضمنی انتخاب اس لحاظ سے منفرد تھا کہ جن پارٹیوں کے نمایندے یہاں قومی الیکشن میں سر فہرست تھے وہ ضمنی الیکشن میں سرفہرست سے  پھسل گیے  وہ عوام  کی ناپسندیدگی کی  گہری کھائی میں جاپڑے  اور ایک عدد بلیک بیلٹ ،سماجی کارکن اور پیپلزپارٹی کا جیالہ پشتون  بازی لے گیا اس انفرادیت کو تحریک انصاف اور نواز لیگ ماننے کو تیار نہ تھیں اور نواز لیگ تو کچھ عرصے سے  خود پسندی کے ایک ایسے نشے میں  مبتلا ہوچکی ہے کہ آئیندہ بھی جو ضمنی الیکشنز ہونگے کچھ بعید نہیں  اسپر انکی یہی گردان رہے گی کہ "ووٹ کو عزت دو "کا ہمارا بیانیہ ہی عوام میں مقبول ہے لحاظہ جب بھی کسی کو ووٹ پڑے وہ ہمارے ہی ہونگے نہ کہ ہمارے سامنے کھڑے مخالف سیاسی نمایندے کے .اور نون لیگ کا یہ نشہ جلدی اترتا نہیں دیکھائی دیتا کیونکہ "کچھ شہر دے صحافی بھی لفافی ہیں اور کچھ تجزیہ کار بھی بریف کیس ہیں

خیر بات ہورہی تھی جناب  عبد القادرخان  مندوخیل کی جیت کی ......جس نے سرکاری اور نیم سرکاری  پارٹیوں کو تو ضمنی الیکشن میں  پریشان کیا ہی مگر عوام کو اسوقت حیران کیا جب ایک ٹاک شو کے دوران "پنجاب کی شیر پتر " نامی گرامی پہلوان کو بیچ شو میں "پچھاڑ " دیا اور جو حالات اس وقت اس مملکت خدا داد کے چل رہے ہیں جن میں اسمبلی سے لیکر سوشل میڈیا اور میڈیا سے لیکر گلی محلوں تک اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جاتا ہے وہاں ایک مرد کا ایک مرد نما عورت کو اپنے ضبط و برداشت سے  پچھاڑنا ایسا حیران کن منظر ہے جس نے مندوخیل جیسے گمنام سماجی کارکن کو راتوں رات اسکرینوں کا ہیرو بنا دیا ہے 

اگلے دن دیکھتی کیا ہوں کہ تمام چینلز کے پرائیم ٹایم شو ز میں قاد ر خان کا طوطی بول رہا ہے شاید یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ممبر اسمبلی کو اسکے  گالی گلوچ یا مکے بازی، تھپڑ بازی کے میرٹ پر نہیں بلکہ برداشت اور حوصلے پر نیوز چینلز دعوت دے رہے ہیں اور قارئین  مزید انگشت بدنداں رہ جائیں کہ ممبر بھی پاکستان پیپلزپارٹی کا جس پارٹی کے کھاتے  میں پچھلے پچاس سالوں میں قلم کاروں ، تجزیہ کاروں ، صحافیوں اور اینکروں نے صرف " ملبہ " ڈالا ہے متفقہ آئین سے بینظیر انکم سپورٹ اور میزائل پروگرام سے بین الاقوامی میعار کے علاج کی مفت سہولتوں تک کو یہ "پڑھے لکھے "بہت محنت سے اپنی چاۓ کی پیالی میں گھول کر پی جاتے ہیں اور ہر وہ مسلہ جو پاکستان کے طول و عرض میں موجود ہے پیپلزپارٹی کی حکمرانی کو اسکا ذمہ دار ٹہرا کر نیوز میڈیا ہاؤس اور راولپنڈی میں قائم "پاور ہاؤس " سے برابر کی تنخواہ وصول کر لیتے ہیں 

چلیں یہ تو پرانا  درد  ہے اس لیے بار بار اسکا ذکر کرنا سواۓ درد کو بڑھانے کے کچھ نہیں کرے گا ہم تو آج کی نئی بات کرنا چاہ رہے ہیں  جو نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ تاریخ کو ہزاروں سال بعد دہرانے وا لا معاملہ  ہے . آسمانی کتابوں میں درج ہے کہ کس طرح ایک طاقتور شخص کی بااختیار بیوی  نے حضرت یوسف کی وجاہت پر فریقتہ ہوکر انپر "حملہ " کیا اور حضرت یوسف کے بارے میں بیان ہے کہ  وہ اپنی عزت بچاتے ہوے پیٹھ دیکھا کر بھاگے اس دوران انکا کرتا زلیخا کے ہاتھوں  پیچھے سے پھٹ گیا اور یہی پیٹھ سے پھٹا کرتا  عدالت میں انکی بے گناہی  کا ثبوت بن گیا . اس وقت کا مصر یقینن آج کی "نیو ریاست مدینہ " سے بہت بہتر تھا کیونکہ عزیز مصر ہو یا زلیخا دونوں ہی پاکباز و باوقار یوسف کی بے گناہی کے کھلے کھلے ثبوت دیکھ کرکم از کم  کچھ شرافت دیکھا گیے ایک  ہماری ریاست مدینہ  ہے اوراسمیں گریبان کھینچتی ، تھپڑ لگاتی، گالم گلوچ کرتی  فردوس اور اعوان کے درمیان "عاشق " نامی خاتون  ہیں جنکی نظر میں اگرمرد اپنی عزت اور وقار انکے ہاتھوں سے بچا کر "کمرے سے نکل جاے" تو وہ مرد نہیں بلکہ " کھسرا " ہے..... وہ تو بھلا ہو زلیخا کا کہ  سیالکوٹ میں ہوش نہیں سنبھالا اور نہ ہی سیاست میں لوٹا بنتی بناتی چیف منسٹر پنجاب کی خاص الخاص معاون بنی ورنہ  جس لمحے  حضرت یوسف کا پیچھے سے پھٹا کرتا عزیز مصر کو انکی بے گناہی کی گواہی دیتا اسی لمحے  زلیخا نے گرج کے کہنا تھا " جو سچا ہے اسکو بھاگنے کی کیا ضرورت ہے جس کے دل میں چور نہیں اسکو کنڈیاں لگا کر باہر بھاگنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور وہ بھی ایک " عورت " سے ..... یہ کیسا "کھسرا مرد" ہوگا کہ جو ایک عورت سے ڈر کر بھاگ رہا ہے یہ روایت ہے نہ آپکو زیب دیتا ہے  " .......اور یوں تاریخ کےاوراق ہمیں کچھ اور ہی کہانی سناتے ، کچھ اور ہی سبق ہماری روایات کا حصہ ہوتے پھر ہمارے الہامی مذاہب ہمیں یہی  تعلیم دیتے  کہ ہر باوقار اور عزت دار مرد "کھسرا "  ہے  اورہر بے راہ رو اور بد چلن مرد " مرد کا بچہ "   

Monday, June 14, 2021

معافیو ں کی ماں


بچپن میں اپنے بزرگوں سے "گورے کی انصاف پسند " حکومت کی تعریفیں سنتے تھے تو اکثر ناک بھوں چڑا کر کہہ دیتے تھے کہ آپ لوگوں کو بھی نہ جانے غلامی کی زندگی کیوں یاد آتی رہتی ہے مگر یہ تو عقل آنے پر پتہ چلا کہ "ناانصافی "بھی غلامی جیسا ہی طوق ہے جو مخلوق کے گلے پڑ جاۓ تو وہ زندہ لاش کی صورت اختیار کر لیتی ہے
سوانصاف کی طلب بھی کسی طرح آزادی کی خواہش سے کم نہیں مگر مسلہ یہ ہے کہ ہم ہر بار ہر نئی حکومت سے جس انصاف کی آرزو رکھتے ہیں وہ ہمیں انصاف کیوں نہیں دے پاتی ؟؟ کیوں یہ ناانصافی کا طوق ہرپیدایشی پاکستانی کے گلے کا ہار ہے ؟ کیوں ہم اس ناانصافی کے طوق کو ویسے ہی اتارناچاہتے ہیں جیسے غلام قومیں غلامی کا پٹہ اپنی گردنوں سے اتار کر آزادی کا سانس لینا چاہتی ہیں یاد رہے کہ نانصافی ہی وہ بیج تھا جو سابقہ مشرقی پاکستان میں بویا گیا اور اس سے چھٹکارہ پانے کے لیے بنگالی قوم نے جو کہ متحدہ پاکستان بنانے والی قوم تھی ،اپنے آپ کو "آزاد" کر لیا
بنگالیوں نے ناانصافی کا طوق گلے سے اتارا اور بنگلہ دیش بن گیا
اس راستے میں  بنگلہ دیش نے فوجی بغاوتوں کی کالک بھی منہ پر مل لی اور اپنے بانی اور اسکے گھر والوں کو موت کے گھاٹ بھی اتار دیا مگراپنے حقوق اورذمہ داری اب بنگالیوں نے خود اٹھا لی تھی انہوں نے اپناراستہ  خود بنایا اور آج اقوام عالم میں ترقی یافتہ نہ سہی ترقی پزیر ضرور ثابت ہوچکے  ہیں ہمارے "گھر " کی طرح پسماندہ 
اور بدنام نہیں
پھر  دوسری  طرف ہم ہیں.....بے منزل اور بے مراد 
 ہم یہاں تک کیسے پہنچے ؟
 یہ سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں آسان سا معاملہ  ہے 
 آمریت کے بطن سے نکلی ناانصافی اور جبر و استبداد نے ہمیں ترقی پزیر سے پسماندہ اقوام کی راہ پر ڈال دیا .آمر کبھی بھی اتنے لمبے عرصے مختلف قوموں کے اس مجموعے کو دبا کر نہیں رکھ سکتے تھے مگر جب مفاد پرستی اداروں میں سرایت کرچکی ہو تو آمرانہ ادوار طویل تر ہوجاتے ہیں عدلیہ کے  مکروہ کردار ، سرمایہ داروں کا پیسہ ،جاگیر داروں  کی طاقت، لوٹے نام کے سیاستدان ، قلم بیچ کر اولادوں کو حرام کھلانے والوں کا گروہ  اور شہروں میں رہتی نام نہاد تعلیم یافتہ مڈل کلاس  دولے شاہ کے چوہوں کی بٹالینز  .......  یہ سب آمروں کے ھتیار بنے 
ستر  برسوں میں ایسے بھی موقعے آ ئے کہ عدلیہ کو اپنے گناہوں پر معافی مانگنی پڑی یہی صورتحال سیاستدانوں اور میڈیا میں بیٹھے کچھ بقراطوں پر بھی آئی اور انکو یہ ماننا پڑا کہ ہماری ناانصافی ، متعصب رویوں ، کبھی لالچ تو کبھی خوف میں   پاکستان کو اس حال میں پہنچا دیا  کہ اب اس کو پاک کہتے بھی شرم آتی ہے تاریخ بتاتی ہے کہ جس خطے پر متحدہ پاکستان بنا تھا اسکی تاریخ اتنی زبوں حال نہ تھی
مختلف قومیتیں اپنے اختیارات اور اقتدار کے ساتھ اپنے  خطہ حکمرانی میں اپنی  رعایا کا خیال رکھتی تھیں حالات کبھی برے تو کبھی اچھے مگر جسطرح پاکستان پچھلے بیس سے تیس برسوں میں تیزی سے زبوں حالی کی طرف گیا ہے اسکی مثال بہت کم ممالک میں دیکھنے کو ملتی ہے ہاں ! جو ممالک جنگوں سے نبرد آزما ہیں وہاں حالات دگرگوں ہیں مگر اپنے آپ پر "جنگ " مسلط کرنا وہ بھی پیسہ کمانے کے لیے ؟؟ جی ہاں آپ نے صحیح پڑھا ہے " پیسہ کمانے کے لیے زمین زادوں کا قتل عام " اور صورتحال یہ ہے کہ افغان جنگ ہو یا گلف وار یا پھر وار آن ٹیرر ہر مال بکے گا "ڈالروں " میں کے مصداق ہمارے سرحدوں کے پاسبان خود بھی بکے اور بے گناہ سویلینز کو بھی بیچا اور تو اور ایک ایسی جنونی راہ کو ریاست کے بیانیے کے طور پر قوم کو متعارف کروایا کہ ایک پوری نسل "جنونیوں " کی پیدا ہوچکی ہے 
جسکو پاکستان کی بین الاقوامی خفت "یہود کی سازش " لگتی ہے ،  ہر وہ شخص انکو  "قادیانی " دیکھائی دیتا ہے جس سے ان دولے شاہ کے چوہوں کومذہبی یا  نظریاتی اختلاف ہوتا ہے . اپنے ہی ملک کے منتخب نمایندوں کو چور ، ڈاکو ، ہائی جیکر ، ٹین پرسنٹ ، قاتل  ،دہشتگرد، سسلین مافیا  مشہور کروانے کے لیے عوام کے خون پسینے کی کمائی کو پانی کی طرح بہایا جاتا رہا ہے اور حیرت کی بات کہ جیسے ہی یہ ٹاسک مکمل کرنے والے ریٹائیرڈ  ہوتے ہیں مزید دولت کمانے کے لیے ان "رازوں " کو اپنی خود نوشت میں  مصالحہ لگا لگا کر تحریر کرتے ہیں اور جو مال پہلے کسی کو "  مسٹر ٹین پرسنٹ " کا لقب دلوانے کے لیے غیر ملکی نامہ نگاروں پر خرچ کیا اب یہ راز فاش کرنے میں دوبارہ کمایا جاتا ہے یعنی دسیوں انگلیاں تیل میں اور سر کڑھائی میں 
 .......افسوس یہ ہے کہ بطور  پاکستانی ہماری یاداشت حد سے زیادہ کمزور ہے
 ورنہ ہم طاقت کے مینارے پر کھڑے اپنے کو "پارسا " سمجھنے والوں سے پوچھیں   کیا وہ  اپنے گریبان میں جھانک کر یہ بتانا پسند کریں گے کہ 
 کس نے پنجاب کے پانچ دریاؤں کو ڈھائی کر دیا ؟
کس نے غیر ملکی انجینیروں کی ملی بھگت سے نہری نظام بنا کر لاکھوں ایکڑ زمین تھور اور سیم کے حوالے کی ؟
کس نےسیاست کو شجرے ممنوعہ قرار دے کرسیاست میں پیسے کو داخل کیا  ؟
کس نے منتخب نمایندوں کو نہ صرف انکا عوامی حق نہ دیا بلکہ عوام میں رسوا کیا ؟
کس نے بنگال کو فوجی آپریشنوں میں دھکیل کر پاکستان کو دو لخت کرنے کا  بیچ ڈالا ؟
کس نے شراب ؤ شباب کے نشے میں ٩٠ ہزار کو ھتیار ڈالنے کا حکم دیا ؟
 کس نے خارجہ پالیسی کو آزادانہ  رہنے نہ دیا اور "بخشو " کا کردار ادا کر کے  پاکستان کا وقار بیچا ؟
کس نے پاکستان کا پہلا منتخب وزیر اعظم قتل کروایا  ؟
کس نے پاکستا ن کی نسلوں کو ہیروین اور کلاشنکوف کے بھنورمیں پھنسا دیا ؟
 کس نے مہاجر قومی موومنٹ اور پنجابی پختون اتحاد کے ذریعے منی پاکستان میں زہر کے پودے لگاۓ ؟
کس نے پاکستان کے منتخب نمایندوں کو کبھی قاتل کبھی ہائی جیکر ،کبھی کرپشن کوئین کبھی مسٹر ٹین پرسنٹ مشہور کرنے کے لیے قومی خزانے کو پانی کی طرح بہایا ؟
کس نے ذاتی اکاؤنٹس میں ڈالر بھرنے کے لیے پاکستانی بیچے ؟
کس نے اوجڑی کیمپ جیسے سانحات کرواۓ جن میں سینکڑوں بیگناہ مارے گیے؟؟
کس نے بازار سے اٹھا کر لوہاروں، کا نسٹبلو ں  اور کرکٹروں کو سیاستدان جیسی معزز نام سے مشہور کروایا ؟
کس نے امریکیوں کو پاکستان کی زمین "فروخت " کی ؟
کس نے سندھ اور بلوچستان کے معدنیات سے بھر پور خطے کو عیاش عربوں اور بے حس چینوں  میں تقسیم کیا ؟
کس نے بلوچستان میں ہر دوسری دہائی میں فوجی آپریشن کر کے بلوچستان کو آگ میں دھکیلا ؟
کس نے بلوچستان کے نمایندہ سرداروں کو کبھی جیل ،  کبھی جلاوطنی  تو کبھی  پتھروں میں دفن کر کے پاکستان اور بلوچستان میں ہمیشہ کے لیے نفرت کی دیوار اٹھا دی ؟
کس نے بجلی  نہ بنانے کی ایسی قسم کھائی کے اسکے جانے کے ١٣ سال بعد بھی یہ کمی پوری ہونے میں نہیں آرہی ؟
 یہ لسٹ مزید لمبی ہوگی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی 
   اگر آپ میں رتی برابر بھی سچائی ہے تو تسلیم کریں کہ سیاستدان پاکستان کی تباہی میں  صرف اتنے ھی حصے دار  ہیں جتنے کی اجازت  یہ گھر کے" مالک " بننے والے " چوکیدار"  انہیں دیتے ہیں
ان کی فیکٹری سے تیار کردہ سیاستدان معافی مانگ چکے، کچھ جج بھی اپنی حرکتوں پر  توبہ کر اٹھے اور تو اور کچھ صحافیوں نے بھی اپنی "گمراہی " کی کہانی سرے عام سنا دی  مگر ایک " آپ " ہیں جنکا نہ تکبر ختم ہونے کو آتا ہے نہ  ضمیر کا بوجھ روح پر محسوس ہوتا ہے کہ عوام سے اپنے کیے کی معافی ہی مانگ لیں 
یقینن یہ  کوئی عام معافی نہیں ہوگی ...... اس ملک کی تاریخ میں اگر کبھی ایسا دن آگیا تو یہ معافی " معافیوں کی ماں "کہلاۓ گی اے کاش ! ہم اس وقت تک زندہ رہیں  
 



Thursday, June 10, 2021

سیلف میڈ


 سیلف میڈ 

میں ایک اوورسیز پاکستانی ہوں .میری کہانی سچی ہے اور آپ سے میری مماثلت اتفاقیہ ہے
میرا تعلق پنجاب کے ایک چھوٹے شہر سے ہے.میرے والدین سیدھے سادے دیہاتی تھےمیں تین بھائیوں اورتین بہنوں پر مشتمل بڑےکنبے کا فرد ہوں
 اس وقت تو میری عمر 63 سال ہے مگر جب اچھے مستقبل کے خواب دیکھنا شر و ع کیۓ تو میں صرف 19 سال کا تھا لیکن تین سال کے اندر اندر میں نے اپنے خوابوں کو سچ کرنے کے لیے اپنا وطن پاکستان چھوڑ دیا 
  ٢٢ برس کی عمرتھی جب میں نے "سیلف میڈ " بننے کی ٹھان لی .آج بھی میں اپنے حلقے میں ایک کامیاب سیلف میڈ شخصیت  کہلاتا ہوں. یہ الگ کہانی ہے کہ پردیس تک پہنچنے کا خواب پورا کرنے کے لیے میں نے اماں کے زیور  اور ابا کی چھوٹی موٹی زمین  بیچی ،اپنے دوست کما لے کے ٹریولنگ ایجنسی والے چاچا  سے دو نمبر ویزہ لگوایا آپا  کے
 ہمسا یۓ ریاست اللہ کےشہر والےگھرمیں دو ہفتے قیام کیا ،خلیل ماما سے ادھار لیا اور آپا کا زیور گروی رکھوا کر ٹکٹ اورکرنسی جیب میں ڈالی
بیرون ملک پہنچنےپرمردان کے ارشد خان کی سفارش پرگیس اسٹیشن کی نوکری ہاتھ میں کی اور اسی ارشد  خان  کی منت سماجت پرمجھے ایک ٹیکسی بھی چلانے کومل گئی لائسنس حاصل کرنے کی آسان ترکیب گیس اسٹیشن پر کام کرنے والے عربی بھائی حبیب نے بتائی اس دوران شکار پور والے اختر سومرو نے مجھے اپنے کمرے میں مفت ریھایش دی اور  اپنی لینڈ  لیڈی کو یہ کہہ کر رام کر لیا کہ میں اسکا بھائی ہوں اور کچھ دن کے لیے سیر کرنے آیا ہوں میں ٹیکسی ڈرائیونگ میں
بہتر ہوگیا اور ایک ہفتہ بعد ہی مجھے پہلی دھاڑی موصول ہوگئی. آ ٹھ دس مہینے میں نے ٹیکسی چلائی اس دوران ایک کمپیوٹر ادارے میں داخلہ لیا اور وہاں سے کچھ ضروری کورسز کر لیے میں ذہین تھا اور اپنے خوابوں کو حقیقت بنانا چاہتا تھا مگر اسکے لیے میرا غیر ملک میں رہنا ضروری تھا
 ایک سال بعد  اختر سومرو نے اپنے دوست شجاعت ملتانی  سے سفارش کروا کر مجھے ایک ریسٹورینٹ میں  نوکری دلوادی  میں نے ریسٹورینٹ کے قریب ایک اسٹوڈیو میں بسیرا کر لیا میرا وزٹ ویزہ ختم ہوچکا تھا اور میں یہاں غیر قانونی طور پر نوکری کر رہا تھا سو میں نے چھپ کر زندگی بسر کرنے کی بجاۓ ریسٹورینٹ میں کام کرنے والی ڈورتھی سے دوستی کر لی  ،اپنی منزل پانے کے لیے میرے ارادے مضبوط تھے سو یہ کوئی بہت مشکل کام نہ تھا
  ڈورتھی بس  ایک عام سی لڑکی تھی ،کچھ خاص نہ تھی عقل میں نہ شکل میں.... ہاں مال میں مجھ سے بہتر تھی اس لیے کہ دو تین جگہ کام کرتی تھی 
خیروہ  میری ضرورت تھی اس لیے اس وقت  " اہم " بھی تھی سومیں نےاسکو محبت اورشادی دونوں پرراضی کرلیا گو کہ ڈورتھی کی سگی ماں اور سوتیلا باپ  اپنی بیٹی کی ایک مسلمان اور پاکستانی سے شادی کے خلاف تھے مگر میری محبت "جیت " گئی اور ڈورتھی نے" بغاوت" کرتے ھوۓ مجھ سےشادی رچا  لی وہ بھی اس سے پہلے کہ میرےغیرقانونی قیام کی وجہ سے پولیس مجھ پر ہاتھ ڈالے. ڈورتھی سے شادی نے مجھے ایک قانونی شہری بنا دیا تھا
ڈورتھی کی ماں ایک بہترین ادارے میں ٣٠ سال سے کام کرتی تھی اسی کی سفارش پرمجھے اچھی نوکری مل گئی خدا نے اس دوران مجھے دو بیٹوں سے نوازا یوں میرا خواب تکمیل کے مراحل میں پہنچ گیا.آج میرے پاس ایک  سجاسجایا گھر، نیۓماڈل کی گاڑی ،اچھا کاروبار،گوری بیوی اوردوبیٹے ہیں  
ڈورتھی چاہتی تھی کہ  ہمارے یہاں ایک  بیٹی ہو کیونکہ یہ ڈورتھی کا خواب تھا مگر میں ایسا نہیں چاہتا تھا میں اس ماحول میں کبھی نہیں چاہتا تھا کہ میری بیٹی بھی کل کو ڈورتھی کی طرح کسی لڑکے کے لیے میرے سامنے کھڑی ہو جاۓ 
سو میں نے ڈورتھی کو اپنا یہ خواب پورا کرنے نہ دیا لیکن مجھ پر خدا کا یہ فضل رہا کہ میرا ہر خواب پورا ہوا اور کیوں نہ ہوتا میں ایک " سیلف میڈ " انسان ہوں اور اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے میں نے کسی امداد ،سفارش ، اقربا پروری رشوت وغیرہ کا سہا ر ا نہیں لیا بلکہ اپنے قوت بازو اور ذھانت سے ہر مرحلہ طے کیا
آج بھی جب میں کسی  نئے نئے تا رک وطن پاکستانی سے ملتا ہوں تو اپنی کامیابی کا یہی راز بتاتا ہوں کہ میں ایک  آزاد  جمہوری ملک میں رہنے والا "سیلف میڈ "  شخص  ہوں جس نے کسی کے سامنے امداد ، سفارش کے لیے ہاتھ نہ پھیلایا نہ ہی پاکستان کی طرح مجھے غیر قانونی حربے اختیار کر کے کامیاب ہونا پڑا،میں نے اس جمہوری ، آزاد ملک میں رہ کر   دوسروں کے حقوق بھی پورے کیے اور اپنی ذمہ داریاں بھی ادا کیں
میں پاکستانیوں کو کہتا ہوں کہ  اگرآج  میں  پاکستان میں ہوتا تو  سفارش ، اقربا پروری اور جھوٹ  کی وجہ سے اپنے خواب  کبھی بھی پورے نہ کر سکتا اور نہ ہی دوسروں کے حقوق ادا کرسکتا 
  میں نے محنت کی اور اپنے زور بازو سے یہاں تک پہنچا مجھے یقین ہے کہ  اگر پاکستان میں ڈنڈے کی حکومت ہو تو لوگوں کو سفارش جھوٹ، اقرباپروری ، کرپشن ،رشوت ستانی اور دوسروں کے حقوق غصب کرنے کی ہمت ہی  نہ ہو
 اچھا میں ایک فون سن لوں پھر آپ کو اپنی کامیابی کی مزید داستانیں سناتا ہوں
!! ہیلوکون ؟جی نہیں نام سے نہیں پہچانتا"
   !کون ؟ راشد خان کون ؟ اچھا وہ ٹیکسی ڈرائیور  نہیں مجھےکچھ خاص علم نہیں 
 سومرو؟  ہاں یہ کچھ  سنا سا نام  لگ رہا ہے اچھا ہاں اختر سومرو ! نہیں  جاننے والاتو نہ تھا بس آتے جاتے سلام د عا  ہو جاتی تھی کافی پرانی بات ہے  
جی ایسا ہے کہ میں ذرا مصروف ہوں سب کچھ مجھے ہی سنبھالنا ہوتا ہے آخر اتنی محنت کی ہے یہاں تک پہنچنے میں  کاروبار کو وقت تو دینا ہی ہوتا ہے
 یوں کرتے ہیں باہر ملتے ہیں پھر آپکے مسلۓ کا کچھ کرتے ہیں ... وہ آپ فکر نہ کریں چالیس سال میں اس ملک کا  قانون اتنا تو سمجھ آگیا ہے کہ اچھی "جوگاڑ " لگا لوں گا بندے بھی آپ تک پہنچ جائیں گے اور ٹیکس کو تو بھول جائیں
..... بس پھرمیرے  کمیشن کی بات پکی کریں  اگلی ملاقات پر
اوکے پھر ملتےہیں اس ویک اینڈ پرمڈ نائیٹ کلب میں  !  اللہ حافظ 

Tuesday, June 8, 2021

بلاول کا پیغام......... بابا کے نام ١٩٩٠ محسن نقوی




 میرے بابا اداس مت ہونا 

ختم ہونے کو ہیں یہ غم سارے 

آپ ہی نے مجھے سکھایا ہے 

زندگی امتحان ہے پیارے 

---------

میرے بابا اداس مت ہونا 

کیا ہوا گر ستم مزید ہوئے 

وقت کے ظالموں سے ٹکرا کر 

میرے نانا بھی تو شہید ہوئے 

----------

سازشوں کے ہجوم میں گھر کر 

داغ سینے میں پڑ گئے غم سے 

وہ میرے شاہنواز ماموں بھی 

بس اچانک بچھڑ گیے ہم سے 

-------

میری نانی وہ عزم کی رانی 

بن گئ دیس کی سپر بابا 

پاک دھرتی کی خاک پر جس نے 

وار ڈالا ہے گھر کا گھر بابا 

-----------

مرتضی وہ جری دلیر جواں 

وہ ہے کب سے وطن بدر بابا 

انکی خاطر تو تھک گئیں آنکھیں 

کب لوٹیں گے کیا خبر بابا 

-------------

آپ کی ذات ان اندھیروں میں 

روشنی کی لکیر ہے بابا 

میرے  نانا عظیم  تھے لیکن 

میری ماں بے نظیر ہے بابا 

------------

ہم پر اکثر یہ دشمنوں کی صفیں 

تہمتیں تک اچھال دیتی ہیں 

میری ماں کا بھی حوصلہ دیکھیں 

ہنس کے ہر غم کو ٹال دیتی ہیں 

-------------

میں بلاول میں آپ کا بیٹا 

آپ کے دکھ کا راز داں ہوتا 

آپ کے دشمنوں سے ٹکراتا 

کاش اس وقت میں جواں ہوتا 

------------

مانگتا ہوں دعائیں خالق سے 

کاش میری دعا اثر پاۓ 

شیر خوار حسین ( ع ) کا صدقه 

ٹال اس گھر سے درد کے ساۓ 

میرے بابا کو کچھ نہ ہو مولا 

میری ماں کا سہا گ بچ جاۓ 

محسن نقوی 

١٩٩٠


Thursday, May 6, 2021

اور فیصلہ آگیا .........

قدرت کے راز قدرت ہی جانتی ہے 
مگر انسانی ذہن کی اڑان بھی قدرت کا ہی عطیہ ہے............ ایک انمول تحفہ
اور آجکل ہم جس محاذ پر لڑ رہے ہیں وہ بھی  قدرت کا تیار کیا محاذ ہے چاروں طرف ایک آگ کا سا سماں ہے 
آگ بجھانے کی کوششیں جاری ہیں مگر الاؤ ہے کہ کم ہونے کا نام نہیں لیتا کوئی یہ بھی نہیں جانتا کہ آگ کیسے لگی ؟   کس چیز سے لگی اور کیونکر بجھے گی  ؟؟؟ 
انسانی دماغ کی اڑان نے البتہ ایک بات تو واضح کر دی ہے کہ قدرت  کرونا وائرس سے لگائی اس  آگ سے کیا  چاہ رہی ہے   ؟؟؟
ہوسکتا ہے میری توجیہات کسی سائینٹفک ذہن کو قبول نہ ہوں کیونکہ دنیا میں ایک ہی مسلے کو مختلف زاویوں سے دیکھنے والے سینکڑوں نہیں ہزاروں نہیں لاکھوں اور کروڑوں ہیں سو میرا نکتہ نظر کرونا وایرس کی آمد اور اسکے دنیا والوں پر اثرات کے بارے میں کچھ یوں ہے کہ یہ وائرس لیب میں تیار ہوا ہو  یا  کسی جانوروں  کی مارکیٹ سے دنیا بھر میں پھیل گیاہو یعنی کوئی سازش ہے یا ناگہانی ہر صورت میں اسکے پھیلاؤ کا مرکز اجتماعات "کو ہی سمجھا گیا "
کعبۂ ہو یا کلیسا یا مندر ...... پر طبی ماہرین کی متفقہ راۓ ہے کہ لوگوں کا ہجوم اس مرض کے پھیلاؤ کا ذریعہ ہے اوراگر  یہ اجتماعیت ختم کی جاۓ  گی  تو ہی اس موذی  مرض کا پھیلاؤ روکا جاسکے گا  سو کھیلنے کے میدان ہوں یا ساحل سمندر کی رونقیں , جوا خانے ہوں یا نائیٹ کلب یا جم یا میوزیم سب کے سب اپنی رونقیں کھو بیٹھے کیونکہ اس تمام ہلے گلے کا محور ہوتا ہی لوگوں کا ہجوم ہے  اور ہجوم ہی اس ناگہانی کو بڑھانے کا سبب بن رہا ہے  
قصہ مختصر لوگوں کو قدرت نے تنبیہہ کردی کہ  اب "اجتماعی "زندگی سے انفرادی رہن سہن کی طرف لوٹ آ ؤ عبادت گاہوں کو تالے پڑ گیے کہ خدا نے اپنا فیصلہ سنا دیا "جو دکھ سکھ بنی نوع انسان کو ایک دوسرے سے کرنا تھا تم انسان اسمیں ناکام ہوۓ "  کیونکہ  
   تم  نے عبادت بھی کی تو بناوٹ سے ، ریاکاری سے اور دل میں کھوٹ لیے .... سب کے سب پہنچ جاتے اپنی پرہیزگاری کے جھنڈے گاڑنے، اسکی مخلوق پر رحم سے زیادہ تمہیں اپنی "پارسائی " کی دھاک بیٹھانے کا شوق چڑھا تھا تو جسکی نظر دلوں پر ہے وہ کیا سمجھتا ہے ہماری  اس دوغلی پارسائی کو ؟؟ 
اب  فیصلہ یہی ہوا ہے  کہ اپنی عبادتیں اپنے گھروں میں خالص کرو اگر میری عبادت ہے تو شان و شوکت سے بنائی عمارتوں میں اسکی ضرورت نہیں ، مجھ سے محبت کے بول سچے  دل سے نکلتے ہیں اور مجھ تک  پہنچ جاتے ہیں ایسے میں  منبروں پر دیکھاوے کرنے کی ضرورت ہے نہ مزاروں ، مجلسوں میں حاضریاں لگانے کی  سو آج  دنیا کی شکل تبدیل ہوچکی ہے  
سن دوہزار بیس کے بارے میں ستارہ شناسوں کا بھی  یہی خیال تھا کہ ایک " نئی دنیا جنم لے گی " اور ایک نئی دنیا نے  جنوری  سن دوہزار دو  کے آ س پاس میں اپنی پوری آب و تاب سے جنم  لے لیا 
اب آئیں اس متفقہ لائحہ عمل پر جس پر طبی ماہرین متفق ہوچکے 
چہرے پر ماسک رکھو یعنی  سب کالے گورے ،پیلے، نیلے ایک سے دیکھائی دو، آنکھیں جو کہ دماغ سے جڑے کیمرے ہیں کافی ہیں تمھاری نیت کھوجنے کے لیے ، اپنے چہروں کی خوبصورتی یا بدصورتی کے اثرات دیکھنے کا چکر بھی ختم ہوا 
آپکے ہاتھ " آلودہ " ہیں سو اکثر دھویں بلکہ دھوتے ہی رہیں اور کیوں نہ آلودہ ہوں انسانیت کے خون سے رنگے ہیں
گلے ملنے اور ہاتھ ملانے سے بھی گیے کیونکہ قدرت جانتی ہے کہ کس طرح گلے مل کر سینوں میں خنجر اتارا جاتا ہے اور ہاتھ ملانے والا ہر شخص " دوست " نہیں ہوتا توپھر ہاتھ ملانے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟؟؟
ماسک کے پیچھے سے مسکراہٹ تو نظر آ نہیں سکتی البتہ آنکھیں انسانیت کے دکھ  دیکھ کر بھیگ سکتی ہیں سو آپکی مرضی ہے کہ لوگوں کے دکھوں پر آنکھیں نم کریں یا پھر اپنے " نقابوں " کے پیچھے سے مسکرائیں کم از 
کم آپ اپنی مسکراہٹ سے دکھی دلوں کو مزید  ٹھیس نہیں پہنچا سکیں گے
دو اشخاص کے درمیان کم از کم  چھ فٹ فاصلہ رکھیں کیونکہ جب دل میں قربت نہیں بلکہ کینہ پل رہا ہے تو محبت کی پینگیں بڑھانے کا ڈرامہ بھی کیوں رچایا جاۓ ؟
اس تبدیلی زدہ دنیا کی سب سے افسوسناک حقیقت یہ  ہے کہ لاکھوں افراد اس نئی دنیا میں اپنے پیاروں کے ساتھ داخل نہیں ہوسکے  
قدرت نے  اشرف المخلوقات کو اتنی مہلت بھی نہ دی کہ  کرونا کے ہاتھوں بیمار مریض اپنے پیاروں کے ہاتھوں میں جان دے سکتے. ساری زندگی بزرگوں کو ایک دعا کرتے سنتے رہے کہ خدایا ! اپنی آل اولاد کے درمیان ہی وفات دینا مگر اسبار لگتا ہے یہ دعائیں رد کی گئیں اور آج  صرف بزرگ ہی  نہیں دنیا کے ہر ملک میں بسی ہر قوم کے ہر عمر کے، ہر مذھب و عقیدے کے افراد کو اس کرب سے گزرنا ہے کہ بیماری کے ساتھ تنہائ اور وفات کی صورت میں  اکثر و بیشتر لاوارث میت !! اس کائنات نے تو ہوسکتا ہے یہ مناظر صدیوں پہلے دیکھے ہوں مگر ہمارے لیے تو یہ سب ایک قیامت سے کم نہیں 
کیا یہی قیامت ہے ؟؟؟ 
 شاید ............. شاید وہ فیصلہ آچکا جس کا ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا 
 کیونکہ  
ہر مذھب کے لیے اور خاص کر مسلمانوں کے لیے اس کرونا وائرس کے پھیلاؤ ،پرہیز اور علاج میں ایک بہت ہی خاص خدائی نشان ہے اور وہ یہ کہ آپ اپنے کو کتنا ہی پارسا خیال کریں،   دن بھر کی عبادات ہوں یا عشق
 رسول اللہ  کے دعوے یا رات رات بھر کی تہجد گزاری یا  درس قرآن  کے لمبے دور،  سڑکوں پر بیٹھے مولویوں کے جتھے ، منبر پر درس دیتے علماء اکرام یا توہین مذھب و رسالت کے نعرے لگاتے فرزندان توحید جب کرونا کا شکار ہوتے ہیں تو کسی مسجد ، مجلس میں جانےکی بجاۓ سیدھا اسپتال پہنچتے ہیں سانس پلٹے تو نہ پیش امام یاد آتا ہے نہ کوئی خلیفہ نہ علامہ یا ذاکر بس ایک " ڈاکٹر " چاہیے ہوتا ہے جو آپکا "مسیحا " بھی ہوتا ہے اور امام بھی اسی کے  ہاتھ  میں اللہ شفا دیتا ہے اور زندگی کی سانسیں بحال ہوجاتی ہیں  
  یہ  وائرس کسی کی نیکی،  پارسائی یا بدی  کو خاطر میں نہ لانے کا خداۓ جبار و قہار کا حکم ایسے بجا لایا ہے کہ کچھ وقت کے لیے تو  پکے ، کھرے مسلمان کا ایمان بھی  متزلزل  ہو جاتا ہے کہ یاالہی یہ کیسا قہر ہے جو تیرے نام لیواؤں پر بھی اسی طرح ٹوٹ پڑا ہے جیسے تجھے نہ ماننے والوں پر 
ایسے قیامت کے دور میں آپکا ایمان صرف انسانیت پر ہی رہ جاتا ہے یہ کہ آپ اپنی نیک خواہشوں میں بنی نو ع کو شامل رکھیں .اپنے اور غیر سب آپکی محبتوں کے حقدار ہیں کیونکہ آپ نہیں جانتے کب وائرس آپ پر یا آپکے کسی محبت کرنے والے پرحملہ کردے ........ ہوسکتا ہے یہ آپکی اس سے آخری ملاقات ہو 
 

 

Tuesday, April 6, 2021

میر مرتضی بھٹو کے نام


 پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم اوراسلامی سربراہی کانفرنس کے چئیرمین کی سپریم کورٹ آف پاکستان میں قانونی جنگ ختم ہوچکی ہے .نظر ثانی کی درخواست رد ہونے کے بعد صرف "رحم کی اپیل " کا طریقہ بچا ہے مگر ملک کے مقبول ترین اور عوامی سیاست کے بانی وزیراعظم  ذوالفقارعلی بھٹو رحم کی اپیل کیوں کریں ؟    وہ کہہ چکے کہ میں ایسی کوئی درخواست نہیں کروں گا کیونکہ میں بے گناہ ہوں اور ایسے میں رحم کی اپیل کرنے سے بہتر ہے میں تختہ دار پر چڑھ جاؤں . 

ایسے میں انکو اپنے بڑے بیٹے کو خط لکھنا ہے ...............شاید آخری خط . اس خط کو لکھنا انکے لیے بہت مشکل ہے.    ایک مشہور سیاسی لیڈر ، کراچی سے بلتستان  تک ہر دلعزیز رہنما جو نوجوانی کی عمر سے مسلسل طاقت کے ایوانوں میں بڑے عھدوں پر فائز رہا  اور آج قتل کےایک جھوٹے  مقدمے میں  سزاۓ موت کا قیدی ہے وہ کس طرح اس کال کوٹھری سے اپنے پیارے بڑے بیٹے کو مخاطب کرے ؟  بھٹو اپنے بیٹے کو بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں ،  یہ کہ چھوٹے بہن بھائی کا خیال رکھنا ، اپنی ذمہ داریاں نبھانا ، یہ نصیحت بھی کہ آنے والے برے وقت کی تیاری کرنا اور اور یہ شعور بھی کہ  حالات جیسے بھی ہوں انکا پامردی سے مقابلہ کرنا  اور انہوں نے  اپنے بیٹے میر مرتضی کے نام  خط ، یعنی آخری خط لکھ ڈالا 

 یہ خط ایک غیر معمولی بہادر انسان کا خط ہے جو موت کے دروازے پربڑی شان سے  دستک دے رہا ہے اسکو پتہ ہے کہ اسکی زندگی ختم کرنے والے اپنے مکروہ عزایم سے پیچھے نہیں ہٹیں گے مگر وہ اپنے بیٹے کو کوئی ایسی وصیت نہیں کرتا جو کسی غیر جمہوری ، غیر قانونی ،پر تشدد راہ کی طرف لے جاتی ہو ،وہ اپنے بیٹے کو کسی جائیداد ، مال و  متا ع  کے حساب کتاب اور بٹوارے  کا بھی  مشورہ نہیں دیتا نہ  ہی اسکو اپنے پر ڈھاۓ گیے مظالم کا حال سناتا ہے بلکہ اس باوقار سیاستدان اور زیرک حکمران کا آخری خط بھی اسکی زندگی کی طرح ذمہ داریوں کے احساس ، عوام سے محبت اور مشکلات کا مقابلہ جوانمردی سے کرنے کے عزم سے بھرپور ہوتا ہے  

یہ تاریخی خط حاضر ہے   

میرے پیارے بیٹے میر 

یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ میں نے تمہیں خط لکھنے کے لیے قلم اٹھایا ہو مگر ہر بار ذہنی یکسوئی نہ ہونےکے سبب مجھے اپنا ارادہ ملتوی کرنا پڑا  کیونکہ  مجھ پرقتل کا مقدمہ چلا یا گیا  اور میں اس وقت کال کوٹھری میں بند ہوں ایسے میں  اپنے بڑے بیٹے سے کس طرح مخاطب ہوں ؟ .... میرا پیارا بڑا بیٹا ایک ایسا نوجوان جو میرا "چوغہ" زیب تن کرے گا، جسکے پا س میری نشانیاں ہونگیں کچھ عرصے پہلے میں نے شاہ اور صنم کو خط لکھے تھے کیوں کہ انکو خط لکھنا نسبتا'' آسان تھا  اگر بےنظیر ملک سے باہر ہوتی تو اس کو بھی خط لکھنا ایک دشوار عمل ہوتا . بے نظیر میری پیاری بیٹی بچوں میں سب سے بڑی ہے اور تم میرے بڑے بیٹے ہو چناچہ تم دونوں  اور دوسرے دو چھوٹے بچوں میں یہ فرق ہے کہ وہ میری اور ممی کی طرح بوڑھے بھی ہو جائیں پھر بھی ہمارے لیے چھوٹے ہی رہیں گے . صنم بہت ہی حساس لڑکی ہے  اور میں صرف امید ہی کر سکتا ہوں کہ  اخبارات کی چند رپورٹیں یا بعض حرکات اس کے احساسات کو مجروح نہیں کریں گی ایک زمانے میں میں چاہتا تھا کہ وہ خود فیصلہ کرے کہ آیا اسکوہاورڈ میں تعلیم حاصل کر کہ وطن واپس آجانا چاہیے یا مزید تعلیم حاصل کرنے آکسفورڈ چلا جانا چاہیے لیکن اب یھاں کی  صورتحال کے پیش نظر یہ بہتر ہوگا کہ وہ آکسفورڈ چلی جاۓ . وہ بہت ہی لاپرواہ لڑکی ہے اس لیے تمہیں آکسفورڈ میں اس کو داخلہ دلوانے میں مدد کرنی ہوگی .بینظیر سے بھی اسکی مدد کے لیے کہہ سکتا تھا لیکن وہ بیچاری لڑکی پہلے ہی مسائل ، پریشانیوں اور کام میں گردن تک دھنسی ہوئی ہے مجھے ابھی تک علم نہیں کہ شاہ کیا کرنا چاہتا ہے .وہ اپنی ماں پر زیادہ اعتماد کرتا ہے بہرحال تم اسکے نزدیک ہو اور مجھے یقین ہے کہ اسکی دیکھ بھال اور نگرانی کر رہے ہوگے جب کبھی اس سے ملو براہ مہربانی اسکی سوچ کو صحیح سمت میں استوار کرنے کی کوشش کرنا وہ بہت اسمارٹ اور ذہین ہے لیکن بعض اوقات عجیب و غریب نظریات اسکے ذہن پر مسلط ہوجاتے ہیں اسکی وجہ بتانا مشکل ہے کیونکہ جب خود میں اسکی عمر کا تھا تو میں بھی ایسے ہی نظریات کا مالک تھا تم سب کی رگوں میں میرا خون دوڑ رہا ہے لیکن شاہ نواز پر میرے نظریات اور رجحانات کی چھاپ زیادہ ہی محسوس ہوتی ہے 

گزشتہ گرمیوں میں جب تم یھاں تھے تو تم نے نہایت عظیم الشان کارنامے انجام دیے تھے .تم میرے لیے طاقت اور حوصلے کا ایک ذریعہ تھے عوام نے تمہیں اس طرح ہاتھوں ہاتھ لیا جیسے پانی سے نکلی ہوئی مچھلی کو لیا جاتا ہے تمھاری کارکردگی نے مجھے ناقابل یقین حد تک پرجوش بنا دیا تھا ایسے میں جو خوش خوشی اور راحت مجھے محسوس ہوئی اسکی کیفیت ناقابل بیان ہے یہ امر بھی نہایت اطمینان بخش ہے کہ عوام تمہیں یاد کرتے ہیں اور تمھاری عدم موجودگی کو محسوس کرتے ہیں 

میں سمجھتا ہوں کہ میرا اپنے عوام کے لیے سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ میں نے ملک کے استحصال زدہ اور کچلے ہوے غریب عوام کو بیدار کیا ، انہیں امور مملکت میں اپنی راۓ دینے کا حق دیا ملک کو  ١٩٧١ کی شرمناک ذلت سے نکالا اور انکے وقار کو بحال کیا 

اہم بات یہ ہے کہ وقت گزر جاۓ گا لیکن اس سے زیاد اہم یہ ہے کہ میں اس سے عزت و وقار کے ساتھ گزروں انجام خواہ کچھ ہو وقت کے چیلنج کا مقابلہ جرأت اور پامردی سے کیا جاۓ 

موجودہ بحران ان بحرانوں میں سے بد ترین ہے جو کہ ہم نے دیکھے ہیں .تمھاری والدہ اور تمھاری بہن حوصلہ مندی اور طاقت کے روشن مینار ہیں انکی عظیم الشان اور جرأت مندانہ امداد کے بغیر یہ بہت مشکل ہوتا بلکہ میں یہ خوں گا کہ ناممکن ہوتا 

صرف خداۓ بزرگ و برتر اور عوام ہی مجھے بچا سکتے ہیں لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ بیرونی اثرو رسوخ اور دباو فضول اور بیکار ہے بیرونی دباؤ اسی وقت موثر اور کار آمد ہوتا ہے جب اسے صحیح مقامات پر ڈالا جاۓ مصال کے طور پر بیرونی پریس ایک تعمیری کردار ادا کر سکتا ہے حکومتوں اور پارلیمان کے بااثر افراد معاون ثابت ہوسکتے ہیں ہمیں اپنی انگلیاں اور حساس پہلؤں پر رکھنی چاہیں اور اپنی طاقت فضل ضا ئع نہیں کرنی چاہیے 

مجھے یقین ہے کہ تم اپنا خیال رکھ رہے ہوگے اور اچھے دوست بنا رہے ہوگے خدا تم پر اپنی رحمتیں نازل کرے انتہائی پیارے ..........  اور محبوب بیٹے تمہارا والد ذوا لفقار علی