Monday, July 26, 2021

ملک خدادا کا بھکاری بادشاہ

 بزرگ بتاتے ہیں کہ ایک  بستی  کے بادشاہ کا  انتقال پر ملال ہوگیا ،  بےاولاد تھا شاید  !!  ورنہ اتنی آرام سے کونسا بادشاہ انتقال کرتا تھا  اکثر تو اپنی اولاد کے ہاتھوں مارے جاتے تھے خیر! کہتے ہیں کہ بادشاہ کی وفات پر  وزیر باتدبیر نے ایک  انوکھا " طریقہ انتخاب " جاری کیا کہ آج سے  تین دن بعد جو پہلا شخص  بستی کے صدر دروازے پر دستک دے گا وہی ہمارا اگلا  بادشاہ ہوگا سو اس  "سلیکشن "کے نتیجے میں جو پہلا شخص تین دن بعد صدر دروازے پر آوازہ لگانے آیا وہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے ، سر پر ٹاٹ لگی ٹوپی اور گلے میں کشکول لٹکاۓ ایک عدد "بھکاری "تھا سو  بستی والوں کی قسمت میں جو نیا بادشاہ  لکھا گیا وہ  پیشہ ور بھکاری  نکلا. 

 صدر دروازے پر دستک دے کر بھکاری سے بادشاہ  بننے والے کو وزیروں ، مشیروں نے تاجپوشی کا اعلان پڑھ کر سنایا اسکے بعد  پھٹے پرانے ٹاٹ لگے کپڑوں کی جگہ شاہانہ لباس زیب تن کروایا گیا ،  چھیتڑوں سے بنی ٹوپی ہٹا کر سر پر تاج اور سوراخوں  بھرے جوتوں کی جگہ شاہی موزے پہناۓ گیے اور کشکول ؟؟ بھلا بادشاہ کے گلے میں کشکول کیونکر لٹکتا سو سونے چاندی کی  دوہری اور سچے موتیوں کی مالا نے کشکول کی جگہ لے لی یوں " بھکاری  بادشاہ"کے دن و رات آرام و چین سے گزرنے لگے مگر دنیا میں وہ سکون کہاں جو قبر میں ملتا ہے سو ہمسایہ ملک  کے بادشاہ کو کسی نے خبر دے دی کہ  برابر والوں کا طاقتور بادشاہ تو لڑھک گیا ہے اب اسکی جگہ ایک ایسے شخص نے لے لی ہے جسکو امور حکمرانی کا اتنا ہی تجربہ ہے جتنا  ہمارے عالم پناہ کوبھیک مانگنے کا . ظل الہی نے یہ سنا تو کافی محظوظ ہوے اور کہا کہ بہت عرصے سے اس بستی پر قبضے کے خواب دیکھ رہا تھا جو پچھلے بادشاہوں کی طاقت اور عقل و فہم کی وجہ سے تعبیر نہ پاسکے مگر لگتا ہے اس بار قدرت بھی یہی چاہ رہی ہے کہ ہم اپنے ملک کو مزید وسییع کر لیں سو اے میری  سپآہ کے سالارو   ! حملے اور قبضے کی  تیاری کرو 

بستی کے مخبروں کو جب طاقتور ملک سے یہ خوفناک اطلاعات  موصول  ہوئیں تو بھاگم بھاگ دربار میں پہنچے جہاں سابقہ بھکاری عرف بادشاہ سلامت  انگور کھلانے  اور پکے راگ سنانے والوں کے درمیان موجود تھے مخبر نے تخلیے کی درخواست کی جسے عالم پناہ نے رد کر کے سرے عام " مخبری " کا حکم دیا مخبر نے ڈرتے ڈرتے کہا جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ  ہمسایہ ملک کے بادشاہ اپنی افواج کو حملے کے لیے تیار کر رہے ہیں یہ سن کر بادشاہ سلامت کچھ لمحوں کے لیے ٹھٹکے اور  پھر بولے " کرتے ہیں کچھ گھبراؤ نہیں " دربار میں اس جملے سے کافی اطمینان چھاگیا  .دو روز گزر گیے  اور دشمن ہمساۓ کی فوج اپنے ملک کی  سرحدوں  سے آگے  بھکاری بادشاہ کی بستی کے حدود اربع  تک پہنچ گئی مخبر تو مخبر فصیلوں پر کھڑے پہرہ داروں  نے بھی دشمن کے عظیم الشان لشکر کی پیش قدمی کو دیکھ لیا اور سب لگے دربار کی طرف دوڑ لگانے جہاں شہنشاہ دوپہر کے بڑے کھانےکے بعد قیلولہ فرما رہے تھے کنیزوں نے "اک پھل موتیے دا "  مار مار کر جگایا کہ عالم پناہ ! خدا کی پناہ ذرا باہر کی خبر لیں کہ دشمن سرحدوں تک پہنچ گیا ہے. بادشاہ سلامت ہڑبڑا کر اٹھے دشمن افواج کی پیشقدمی کی خبریں سنیں اور بولے "ٹھیک ہے سمجھ گیا کرتے ہیں کچھ اس سلسلے میں " عوام میں جو ٹینشن دشمن افواج کے بوٹوں کی دھمک سے پھیل گئی تھی قدرے کم ہوئی 

ابھی عوام نے قبر سے باہر ہی سکون  کا سانس لیا تھا کہ صدر دروازے پر توپوں کے گولے اوربستی کے پہریداروں پر دشمن کے  اڑتے تیروں کی بوچھاڑ ہوگئی  عوام جو بادشاہ سلامت  کی طرف سے پالیسی بیان اور جنگی چالوں کو عملی جامہ پہنانے  کا انتظار کررہےتھےسخت خوفزدہ ہو گیے اپنے گھروں، دکانوں ،کھیتوں ،کھلیانوں کو چھوڑ کر محل کی طرف چل نکلے اور دوسری طرف دشمن ملک کی فوج نے بھی محل کی طرف رخ کیا اور راستے میں جس نے بھی اس پیشقدمی کو روکنے کی کوشش کی اسکو موت اور تباہی کا منہ دیکھنا پڑا یہ حالت زار بستی کی افواج کے سپہ سالار اور امور مملکت چلانے والے وزراء اور مشیروں کے ذریعے شہنشاہ تک پہنچی تو وہ سمجھ گیا کہ اب پانی سر سے اسقدر اونچا ہوچکا ہے کہ زیادہ دیر ناک منہ بند کر کے اس پانی میں رہنا موت کو دعوت دینا ہے عوام کے غیض و غضب سے بھرے نعرے محل کی در و دیوار کو ہلا رہے تھے تو دشمن کی توپیں زمین کو لرزہ رہی تھیں ایسے میں   " بھکاری بادشاہ " نے بھرے دربار میں اعلان کیا " میں نے فیصلہ کر لیا ہے " تمام درباری منتظر تھے کہ بادشاہ  اپنا فیصلہ سناۓ جس پر عملدرآمد سے بستی اور بستی کے عوام کو دشمن کی چیرہ دستیوں سے  بچایا جاۓ کہ  دیکھتے کیا ہیں عالم پناہ نے اپنی خوابگاہ کی طرف دوڑ لگا دی اور کچھ لمحوں بعد خوابگاہ سے ظل الہی کی جگہ ایک پھٹے پرانے کپڑوں ، ٹوٹی جوتی اور کشکول گلے میں ڈالے بھکاری نمودار ہوا ،گلا صاف کر کے بولا " بھائیوں ! یہ حکومت وغیرہ تو میرے بس کی بات نہیں ہاں اگر کبھی بھیک وغیرہ مانگنی ہو تو خاکسار کو ضرور یاد کر لینا  آپکی نوازشات کا شکریہ میرا تو اس مملکت میں کچھ لینا دینا نہیں سو جو کشکول اور ٹاٹ پہن کر آیا تھا وہی پہن کر جا رہا ہوں اب آپ جانیں اور آپکی بستی......... اللہ حافظ

( ہر قسم کی مماثلت اتفاقی ہے ادارہ ذمہ دار نہیں )   

Friday, July 16, 2021

اسلام کا قبرستان

    کراچی کے گٹروں پر سےگم ہوتے ڈھکنوں اور لاڑکانہ کے باؤلے کتوں سے کاٹے کے نایاب انجیکشنوں کا سفر کویٹہ ،شاہ نورانی ، پشاور ،مہمند ، سیہون کی دہشتگردی میں جانے والی جانوں سےہوتا ہوا پانامہ کیس اور سلیکٹڈ کےانتخاب سے گزرتا گزراتا گجرنالے تک آ پہنچا ہے مگر آج بھی پاکستان کی طاقتوراشرافیہ  بلوچستان ، سندھ اور پختونخواہ  کے جبری گمشدہ بیٹےبیٹیوں سے  بے پرواہ ہے اور   گلی محلوں میں بسے بے بس عوام گریہ کناں

نیوزمیڈیا توکچھ ٹکوں میں بکنے والی شے ہے مگرسوشل میڈیا پرموجود بہت سےاحمق آج بھی اس صورتحال میں پاکستان کو"اسلام  کا قلعہ" کہتےشرم سے پانی نہیں ہوتے
 اپنےبنائےہو ئےاس ٹہرے پانی کےبدبودار کوئیں سے باہر آکردیکھیں کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے یا اسلام کا قبرستان بن چکا ہے ؟؟     حقیقت یہ ہے کہ ستر سال میں اس ملک کے مختلف علاقوں میں  اسلام کی صرف " تدفین " ہو ئی ہے
ویسے تو عالم اسلام کے کسی بھی ملک میں اسلام کی عزت افزائی نہیں ہو پا ئی کسی ایک اسلامی ملک میں بھی فلاحی  مملکت کا تصورموجود نہیں کہیں ڈیکٹیٹر شپ ہے تو کہیں بادشاہت اور ملا گردی اور بالفرض کوئی مغربی دنیا کی جمہوریتوں کو متاثرکرنےکو انتخابات کروا بھی دیتا ہے توحیرت انگریز نتایج کے تحت چالیس سال تک ہرانتخاب ایک ہی پارٹی یا ایک ہی شخص جیتتا چلا جاتا ہے جیسے ملک کی عوام اندھی  ہے وہ ایک پارٹی کے سوا کچھ اوردیکھ ہی نہیں سکتی مگر ان تمام ممالک میں پاکستان کوایک امتیاز حاصل ہے وہ یہ کہ اسلام کےبنیادی احکامات کو بڑی ڈھٹائی سے دفن کرنے کے باوجود یہ  بلند ا بانگ دعوے کہ "پاکستان اسلام کا قلعہ " ہے 
حقیقت یہ ہے کہ جس دن پاکستان میں حسن ناصرکوانکےنظریات کی وجہ سے شاہی قلعہ کےعقوبت خانوں میں تشدد کرکے قتل کیا گیا اورانکی میت کونامعلوم قبرمیں اتاردیا گیا اسی دن پاکستان کےسینےپرقدرت نےایک کتبہ لکھ دیا تھا کہ
 "یہاں اسلام دفن ہے"
 آج آپ مجھ سےلاکھ حجتیں کرلیں ، بحث کریں  یا منطق اٹھا لائیں  لیکن اسلام کےکسی نکتے سے یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ کسی بھی قسم کے نظریات کا حامل کسی بھی اسلامی شق یا روایات  کی رو سے جبری گمشدگی ، ٹارچر ، ہلاکت اور پھر نامعلوم قبر کا حقدار ٹھرسکتا ہے 
 پھر کون سا اسلام اس قلعےکی حفاظت پر مامور ہے؟ یہ کونسا قلعہ ہے جہاں اسلام کےنام پردہشتگردی ناچ رہی ہے ؟ 
جنوری دو ہزارچودہ میں بلوچستان کے علاقے خضدار میں تین اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں یہ آ ثا رقدیمہ کی دریافت نہیں تھیں جس پرمیں اورآپ فخر کرسکیں یہ میرےاورآپکےبھائیوں کی چونا لگی لاشوں کا ڈھیر تھا جوحریت پسندوں کے مطابق تو سو سےزیادہ افراد تھےمگرآپ تعصب سےکام لےکربلوچ حریت پسندوں کے دعوں کی نفی کرسکتے ہیں لیکن حکومتی اہلکاروں کےسچ کومان لیں کہ وہاں سترہ افراد اجتماعی طورپردفن تھے 
 سترہ افراد کی تشدد زدہ ، ناقابل شناخت لاشیں.... سرزمین پاکستان سے دریافت ہوتی ہیں جہاں مسلمانوں کی 97فیصد آبادی ہے جہاں کی حکومت مسلمان اور ستانوے فیصد  مسلمانوں کے آزادانہ ووٹوں سے منتخب ہے جہاں پانچ وقت مسجدوں سے اذان کی آواز گونجتی ہے جہاں رمضان میں سرے عام کھانے پینے والے پرمعاشرہ اسلامی غیرت سے سرشار ہو کر ٹوٹ پڑتا ہے یہ وہ واحد اسلامی مملکت ہے جہاں " عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم " کا دن  بڑی دھوم دھام سے منایا گیا جہاں منصف توہین رسالت کے دوسٹیٹس ا پ ڈیٹس اور تین ٹویٹس کےخلاف جذباتی  ہوکرٹسوےبھاتےہیں مگرسترہ افراد کی ناقابل شناخت لاشوں کےقضیے کوآئیں بائیں شائیں کردیا جاتا ہے 
کس کی لاشیں تھیں ؟ کس نے تشدد کیا ؟ کس نے چونا ڈال کر ناقابل شناخت کیا ؟ اس ملک کے محافظوں نے یا آزادی کی جنگ لڑنے والوں نے یا ہمسایہ ممالک کی ایجنسیوں نے؟ سوال انگنت مگر جواب  ندارد ؟
 حسن ناصر کی نامعلوم قبرہو یا توتک خضدار کی  اجتماعی قبریں، اسد مینگل کی جبری گمشدگی ہو یا ذاکر مجید بلوچ اوران جیسے بہت سےنظریاتی کارکنوں کا ریاستی اغواء  ..... یہ واقعات ایک ایسا کلنک کا ٹیکہ ہیں جو ہردور میں پاکستان  کی پیشانی پرنمازوں کے نشان سے زیا دہ نمایاں رہے گا
 ہم اعتراف کریں یا نہیں مگر امر وا قعہ یہی ہے کہ برسوں سے گمشدہ افراد ، تشدد زدہ لاشیں ، نامعلوم اور اجتماعی  قبریں اسلام کے قلعےکو اسلام  کے مقبرے میں تبدیل کرچکیں.... آپ سبکو اطلاع  ہو کہ ایٹمی پاکستان اسلام کا قبرستان بن چکا ہے
آپکی پانچ نمازیں ، تہجد گزاریاں، لگاتارعمرے،حج پرحج ،رمضانوں  میں نعتوں کےدور،غیرت اسلام اورگستاخ رسول (ص ) کا سرتن سے جدا کرنے کے آسمان تک گونجتےنعرے........ یہ سب کچھ ملا جلا کربھی آپکودین و دنیا میں ایک چونا لگی ناقابل شناخت لاش پرجوابداری سے نہیں بچا پائیں گے 
بلوچستان کی اجتماعی قبریں ہم پرحد نافذ کرچکی ہیں ہر بااختیارجو مسلمان ہونے کا دعوی کرتا ہے اس پرآسمان سے حد جاری ہوچکی ہے 
حقیقت یہی ہے کہ  پاکستان نہ تواسلامی ریاست  ہے نہ ہی اسلام کا قلعہ....... اگرمیں اورآپ یہ حقیقت نہیں مانتےتوصرف اپنےآپ کو دھوکہ دےرہے ہیں اوردھوکے کا انجام جلد یا بدیر ہماری اپنی ہلاکت ہی ہوگا  

Saturday, July 10, 2021

پاکستانی نیوز چینلز اور جرنیل ضیا کی پھانسی

 کچھ روز قبل  جولائی کی پانچ تاریخ گزری ہے .اس تاریخ کے پاکستان پر ایسے گہرے اور دردناک نقوش ہیں کہ  شاید ہی کوئی پاکستآنی ہو جو اسکے اثرات سے بچا ہو  یہ سن ستتر کی پانچ جولائی تھی جس نے ملک خدا داد کے چہرے پر آمریت کی نحوست کے انمٹ داغ لگا دیے گو کہ اس نحوست سے پاکستان پہلے بھی دو بار گزر چکا تھا مگر پانچ جولائی سن ستتر کی فوجی آمریت نے گیارہ سال میں جو زہر کے بیج بوۓ وہ آئیندہ آنے والی تین نسلوں نے کاٹے اور  نہ جانے ابھی یہ سلسلہ کہاں تک جانا ہے 

اس بلاگ کو لکھنے کا مقصد ضیا آمریت کے نازل ہونے کی  وجوہات یا اس پھر اسکے پاکستانی عوام پر بد اثرات کو اجاگر کرنا نہیں حالنکہ یہ کام  ان  تمام  لوگوں کا   فرض تھا جو قلم کارہیں، تاریخ کو بیان کرنا جانتے ہیں اورپھر ان گیارہ برسوں کے عینی گواہ  بھی رہے ہیں ، اسکے ساتھ ساتھ اسکرینوں پر بیٹھے ان  تمام  "سینئیر تجزیہ کار" بمعہ  اپنی صحافت کے جھنڈے ہمارے لاؤنجز میں گاڑتے سب کے سب  صحافیوں کو بھی ضیا فوجی آمریت کا حال دہرانا  ہی چاہیے مگر فالحال ایسا نہیں ہورہا  . سو اس بلاگ کا موضو ع  ضیا آمریت کے بد اثرات نہیں بلکہ ان اثرات کو نظر انداز کرنے کا خمیازہ ہے جو نئی نسل بھگت رہی ہے  

اس سال پانچ جولائی کو پاکستان کے ایک جانے مانے صحافی جنکو" صحافی" کہتے کم از کم مجھے  کبھی سوچنا نہیں پڑتا  انہوں نے ایک بہت ہی دلچسپ پروگرام تیار کیا ویسے تو پبلک سے آراء لینے والا ہر شو ہی بہت دلچسپ  ہوتا ہے مگر مطیع اللہ جان  کا یہ شو  "دلچسپ" تو تھاہی مگر قومی شرمندگی  کا با عث بھی تھا   

مطیع اللہ جان نے فیصل مسجد اسلام آباد کے احاطے سے یہ شو کیا  اور وہاں موجود عوام سے ایک سادہ سا سوال  پوچھا کہ احاطے میں یہ "کس کی قبر  ہے" ؟ اورپھرضیا الحق کے نام بتانے کے ساتھ ہی مزید سوال و جواب. مزید  سوالات بہت ہی برجستہ تھےاور جوابات  سے ہی منسلک تھے

قارئین یقینن جانتے ہونگے کہ شہر اقتدار کی آبادی کی اکثریت شہری اور خواندگی کا تناسب پاکستان میں  سب سے زیادہ ہے مگر کیوں کہ  فیصل مسجد  ایک سیر کی جگہ تصور کی جاتی ہے اس لیے ہم فرض کر لیتے ہیں کہ شو کے دوران عوام کا کم پڑھا لکھا طبقہ بھی  یھاں  سیر کے لیے موجود  تھا  

مطیع اللہ جان کے سوال " احاطے میں کس کی قبر ہے "کا جواب تو اکثریت نے  درست بتا دیا کہ قبر ضیاالحق کی ہے مگر جس چیز کی کمی تھی وہ پاکستان کی سیاست اور تاریخ سے جڑی  عام معلومات تھی اور اس قسم کی عام معلومات کو حاصل کرنے کا زریعہ یقینن ان  پچپن ساٹھ  نیوز چینلز کو ہونا چاہیے تھا جو سن ٢٠٠٢ سے مسلسل چوبیس گھنٹے چلتے ہیں ، ہر گھنٹے پر خبریں قومی زبان اردو میں ہوتی ہیں ہر چینل پر کم از کم تین اور زیادہ سے زیادہ پانچ ٹاک شوز کیے جاتے ہیں اور سب کے سب ان چوبیس گھنٹوں میں نشر مکرر پیش کیے جاتے ہیں ان پر بیٹھے سقراط ، بقراط اور افلاطون اپنے کو ایسی اعلی مخلوق سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر انکی شان میں ہلکی پھلکی  گستاخی بھی ہوجاۓ تو یہ ایسے  " گستاخ " کو دوسرا موقع نہیں دیتے اور بلاک کر کے بھول جاتے ہیں اور تو اور اسکرینوں سے اٹھ کر سیدھا اپنے یوٹیوب چینلز پر پہنچتے ہیں تاکہ  روپے میں ملتی لاکھوں کی تنخواہ میں ڈالرز بھی شامل کر سکیں یہ انکی لالچ کی انتہا ہے مگر انکی ان سب " آنیوں جانیوں " کا حاصل وصول یہ ہے کہ وہ طبقہ جومکانوں ، دکانوں سے جھونپڑیوں تک اور ٹی وی اسکرینوں  سے اپنے موبائلوں تک انکو دیکھتا اور سنتا ہے وہ ضیا کے بارے میں یہی جانتا ہے کہ " جرنیل ضیا کو پھانسی دی گئی تھی" 

اس بلاگ کے ذریعے میرا سوال ان تمام  تجزیہ کاروں، صحافیوں اور اینکرز سے یہ ہے کہ سن ٢٠٠٢ سے سن ٢٠٢١ تک آپ نے کیا کیا ؟؟  مطیع اللہ جان کے شو میں اکثریت  نوجوانوں کی تھی جن کا علم  اپنے ہی ملک کی تاریخ کے بارے میں اگر صفر نہیں تھا تو منفی ایک ضرور تھا سو اسکرینوں میں جلوہ افروز یہ خواتین و حضرات پچھلے انیس ، بیس برسوں میں نئی نسل کے علم میں کیا اضافہ کر سکے ؟ نوجوان افراد نہ صرف پاکستان  تاریخ سے انجان تھے بلکہ نظریاتی طور پر تقریبا  بے سمت  تھے انکو نہ جمہورت اور آمریت کا فرق پتہ تھا نہ ہی غاصب  اور منتخب کا!  ضیا کو ایک ساتھ  آمر اور ملک کا وزیراعظم بتا  رہے تھےاور کبھی بغیر داڑھی کا اسلام نافذ کرنے والا مجاہد اسپرسوال کیا جاتا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے تو جواب ندارد.    اس پروگرام میں کچھ استاد بھی فیصل مسجد میں سیر کی غرض سے موجود تھے انکے جوابات سے یہ تو پتہ چل رہا تھا کہ انکا نالج کچھ بہتر ہے مگر جس طرح وہ مطیع  کے سوالات کو ٹال رہے تھے صاف اندازہ ہورہا تھا کہ ایک خوف ہے جو انکو  بہت کچھ بتانے سے روک رہا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ جہالت اور کم علمی  پھیلانے میں خوف کو بھی ھتیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اس " خوف " کے تدارک کے لیے بھی علم ، آگہی اور سیاسی شعور چاہیے ہوتا ہے مگر چوبیس گھنٹے اپنے کو معاشرے کا  خود ساختہ جج سمجھنے والے بھی اس خوف کے سامنے ویسے ہی ڈھیر ہیں جیسے وہ سیاستدان جن پر یہ " خود ساختہ جج " انگلیاں اٹھاتے ہیں 

جیسے کسی استاد کی مضمون میں دسترس اسکے شاگرد کو جانچ کر پتہ چلتی ہے اسی طرح عوام کی اپنے ہی ملک کی تاریخ سے لاعلمی  ہمارے نیوز میڈیا پر بیٹھے صحافیوں اور تجزیہ کاروں  کی نالائقی اور نااہلی کا قصّہ سنا رہی ہے انکو  لاکھوں کی تنخواہ اگر میڈیا ہاؤس کے مالک کو خوش کرنے کی ملتی ہے تو انکے لیے بہت بہتر ہوگا کہ  میڈیا مالک کے گھریلو ملازم بن جائیں نہ کہ عوام میں جہالت  اور جھوٹ پھیلائیں. آج کے پاکستان میں چلتے ان  سینکڑوں  چینلز سے تو بہت بہتروہ  "سرکاری چینل " تھا جو ایک تھا مگر کم از کم اتنا نیک ضرور تھا کہ ہم بچے اسکو حکومت کا چمچہ سمجھ کر بی بی سی ، وایس آف امریکہ ، سی این این ،انٹرنیشنل اور نیشل اخبارات سے خبریں کھوجتے تھے اور اپنے علم میں اضافہ کرتے تھے  جبکہ  یہ " نجی " اور "آزاد " کہلانے والے چینلز چلانے والے میڈیا ہاوسز خود تو "حرام " کھآتے ہی ہیں عوام  کو بھی اتنا "ھڈ حرام " بنا دیا ہے کہ جو جھوٹی خبریں ، مصالحے بھرے واقعات، مرغے لڑانے کی ترکیبیں اوریوٹیوب چینلزپرگھٹیا ہیڈنگز کی بھرمار دیکھ کرمطمین ہوجاتے ہیں کہ ہم نے اپنےتئیں ملکی سیاست اور اسمیں استعمال مہروں کو جان بھی لیا اور پہچان بھی لیا مگر حقیقت یہ  ہے کہ  نیوز چینلز کہلانے والی یہ" دکانیں" عوام کو پاکستان کی سیاسی اور قومی  تاریخ بتانے میں مکمل ناکام ہیں یہاں سواۓ "کتے ، ریچھ اور مرغے" لڑانے اور سیاسی تاریخ کو مسخ کرنے والوں کے بوٹ چمکانے کے کوئی کام نہیں ہوتا یقینن تاریخ لکھنے والے پاکستان کے اس دور کو قومی زندگی کا المیہ لکھیں گے کہ جب چوبیس گھنٹے چلتے سینکڑوں نیوز چینلز کی  موجودگی میں کوئی با ہوش وحواس  شخص  مائیک اورکیمرے کےسامنےکھڑا ہو کرکہےکہ جرنیل ضیا کوغدارکہا گیا تھا اور یہ کہ "جرنیل ضیا کو پھانسی پرلٹکا دیا گیا تھا"