FACE it
Sunday, June 29, 2025
اظہار ہمدردی مگر کب تک ؟
Friday, April 18, 2025
کامیاب سیاستدان کون ؟ ذوالفقار علی بھٹو یا آصف علی زرداری
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں چند ہی نام ایسے ہیں جنکو وقت کی گرد دھندلا نہ سکی ان میں سر فہرست ذوالفقار علی بھٹو کا نام ہے انکی پیدایش کو نو دہائیوں سے زیادہ عر صہ گزر چکا اور ان کے عدالتی قتل کو چالیس سال سے زیادہ مدت ہوچکی مگر آج بھی سیاست ، ریاست، اقتدار اوراختیار کے میدانوں میں بھٹو کا نام گونجتا ہے . دوست ہو یا دشمن ، عوام کے درمیان دھواں دار خطاب کرتا سیاسی حریف ہو یا پارلیمان میں نپے تلے الفاظ بولنے والا حکومتی ممبر کہیں نہ کہیں ، کبھی نہ کبھی بھٹو کا تذکرہ ضرور آتا ہے ، میڈیا پر بیٹھے گھا گ صحافی ہوں یا یوٹیوب کے کلکس پر انحصار کرتے نئی نسل کے نوجوان یہ ہو نہیں سکتا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے تذکرے کے بغیر کسی بھی سیاسی موضوع کو زیر بحث لائیں
مگر ایک تلخ حقیقت پر روشنی ڈالنا سب بھول جاتے ہیں کہ ٹوٹے پھوٹے پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم، کامیاب لیڈر تو تھے مگر وہ پاکستان کے زمینی حقایق، مفاد پرست ٹولوں ، بے حس اداروں اور خودغرض عوامی جتھوں کی سمجھ بوجھ رکھنے والے کامیاب سیاستدان نہیں تھے . شکست خوردہ قوم کے بدن میں ولولہ و عزم کی روح پھونکنے والا لیڈراگر صرف چھ سال کی مختصر مدت میں کال کوٹھری تک پہنچ گیا تو سوچیں کہ اس نے کیسی سیاست کی ہوگی ؟ ؟ ظاہر ہے اسکی سیاست ناکام رہی ہوگی اس لیے نہیں کہ وہ شخص ذہین ومدبر سیاستدان نہ تھا کیونکہ وقت نے ثابت کیا کہ بھٹو صاحب اگر دنیا کے کسی اور ملک میں سیاستدان ہوتے تو اپنی عوامی سیاست کے کامیاب ترین کھلاڑی ہوتے، مگرپاکستان کی سیاست میں وہ لیڈر ہوتے ہوۓ بھی ، اناڑی ثابت ہوے اگر ہم یہ کہیں کہ ان سے کہیں بہترانکے داماد نے پاکستانی سیاست کو سمجھا اور کامیاب سیاستدان ثابت ہورہے ہیں تو یہ مبلغہ آرائی نہ ہوگی
پاکستان کی تاریخ میں پہلا منتخب صدر جس نے نہ صرف اپنی جمہوری مدت پوری کی بلکہ دوسری بارمنتخب صدر ہونے کا نایاب ترین اعزاز بھی حاصل کیا ہے جب کہ گیارہ بارہ سال کی پس زنداں ریاضت میں بھی کامیاب رہا ، سیاسی مخالفین کو ناقابل یقین حد تک اپنا گرویدہ بنالینا ایک سیاستدان کی کامیابی نہیں تو کیا ہے ؟ ؟ قارئین کواعتراض ہوسکتا ہے کہ زرداری صاحب "لیڈر " نہیں ! جی بلکل درست بات ہے ایسا ہی ہے نہ وہ لیڈر ہیں نہ کبھی موصوف نے قوم کی رہنمائی کا دعوی کیا ہے ہم نے بہت ہی کم کم صدرکوعوام میں گھلتے ملتے دیکھا ، کوئی تحریک، کوئی دھرنہ یا احتجاج ؟ نہیں ! اور ہر سیاستدان کے لیے ضروری بھی نہیں .ہمارے سامنے قائداعظم کی مثال موجود ہے بلکہ قاید تو زرداری صاحب سے ایک قدم آگے نکل گیے تھے کہ کبھی جیل کا منہ بھی نہ دیکھا تھا کم ازکم زرداری صاحب نے جیل میں تشدد کا سامنا کر کے "لیڈروں "والی کوئی صفت تواپنائی ، آپ کہیں گے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کم ہی کوئی اسٹیبلشمنٹ ، پریس، الیکٹرونک میڈیا اور سیاسی مخالفین کے ہاتھوں اتنا بدنام ہوا ہے ، جی ہاں ! حقیقت یہی ہے کہ " بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا " سو دو بار منتخب ہونے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کی سیاسی کامیابی بھی یہی ہے کہ جو اسٹیبلشمنٹ اپنی زرخرید پریس اور کالم نویسوں کے ذریعے جناب کو" مسٹر دس فیصد "، "پلے بواے " اور "دنیا کا کرپٹ ترین انسان "قرار دلوا چکی ، اپنی ایجنسیوں اور اداروں کی مدد سےبغیر ثبوتوں کے کبھی کسی جج ، کسی سیاسی حریف ، کسی بزنس مین، کسی رشتےدار تک کے قتل میں ملوث کرنے کی کامیاب سازشیں بھی کرچکی وہ آخر کار آصف علی زرداری کی کامیاب سیاست کا شکار ہوکر ان کو صدر بننے سے روک نہ سکی اور وہ بھی ایک بارنہیں دودو بار
سو قارئین محترم ! اس فیصلے کا بال اب آپکی کورٹ میں ہے کہ کیا ایک بدترین شکست سے دوچار ، برباد معیشت والی سرزمین بے آئین کو چھ سال میں اپنے پیروں پر کھڑا کرنے والا لیڈر جو ایک عدد جھوٹی ایف آئی آر کا شکار ہوکر پھانسی پاگیا کامیاب سیاستدان تھا؟ یا عوامی حلقوں میں دانستہ بدنام کیا گیا کمزور ڈومیسائل کا حامل شخص جو بار بار اپنی کامیاب سیاست سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی مخالفین کو مجبورکردیتا ہے کہ وہ اسکے در پر اپنا اپنا کشکول لیکر پہنچ جائیں اور ملک کی ڈولتی کشتی کو کچھ عرصے کے لیے مزید سہارا مل جائے . کاش کہ آج پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ذوالفقار علی بھٹو حیات ہوتے تو ہم ان کی بے پناہ ذھانت کا فایدہ اٹھاتے ہوۓ ان سے ضرور دریافت کرتے کہ آپکا جناب آصف علی زرداری کی کامیاب ترین سیاست کے بارے میں کیا خیال ہے؟
Wednesday, April 9, 2025
موت کا ایک دن معین ہے .....
Monday, April 7, 2025
.......جالا بُنا گیا تھا پتا ہی نہیں چلا ......
Thursday, October 20, 2022
بات کرتے ہیں تو اُوقات بتا دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگ کردار سے اب ذات بتا دیتے ہیں
Sunday, December 26, 2021
عجائب خانہ دانش وراں
سال گزرا تو مزید دانشوروں کا سامنا ہوا
ایک خودکار ذھانت کا منبع محترمہ اس عجائب خانہ میں موجود ہیں جنکا قبلہ اس تیزی سے بدلتا رہا کہ آپ ابھی انکی ٹویٹ پر کمنٹ دینے لگیں اور فون کی گھنٹی بج جائے کالر آئی ڈی پر رانگ نمبردیکھ کر آپ ٹویٹر پیج کی طرف دوبارہ پلٹے اور یہ کیا ؟؟؟ محترمہ دانشور صاحبہ نے "سیاسی قبلہ " بدل دیا اللہ جانے زندگی کی گاڑی میں بریکیں بھی ہیں یا نہیں ؟
خیرقدرت بھی ایسے میں دورکھڑی مسکرا رہی تھی تیسرا سال ہی آیا تو سنتے ہیں "ووٹ کو عزت دو "کی تسبیح پڑنی پڑی اسی لیے کہتے ہیں کہ غرور کا سر نیچا
ایک "فیفتھیے "ہیں جو چہرے سے تو لڑکے بالے لگتے ہیں مگر جس ڈھیٹائی سے ہر بار اپنا اکاؤنٹ سسپینڈ ہونے کے بعد دوسرا اکاؤنٹ بناتے ہیں اور پھر جمہوریت پسندوں اور خاص کر فیمنسٹ خواتین کے خلاف ٹویٹر اسپیسزکی محفل سجاتے ہیں اس سے کافی "پکی عمر کے کھوچل مرد " لگتے ہیں
Thursday, November 4, 2021
چیف کے نام "کھلا خط "
محترم چیف صاحب
السلام و علیکم
بعد سلام عرض ہے کہ میرے والد صاحب فوج میں نہیں بلکہ میرے والد کے والد اورپھرانکےوالد کوئی بھی فوج میں نہیں اورجتنا شجرہ نسب والدین نے متعارف کروایا اس میں کہیں کسی فوج میں بھرتی کا ذکر نہیں اسی لیے اپنی " تلوار " یعنی قلم تھاما اورآپ کو خط لکھنے کا ارادہ باندھ لیا . پشت درپشت سویلین ہونے کا سب سے بڑا فایدہ یہی ہے کہ " ڈسپلن "کے نام پر انسان اپنی شخصی آزادی کا سودا نہیں کرتا سو یہ سودا میں نے نہیں کیا
محترم چیف صاحب عرض ہے کہ ایک عجیب و غریب خبر کی گُونج ہر طرف ہے کہ آپکی ہی برادری کے ایک ریٹایرڈ صاحب کے بیٹے نے آپ کو خط لکھا اور آپ پر تنقید کی اور سنا ہے کہ آپ نا راض ہو گئے یہ خبر ہی اِسقدر حیرت انگیز ہے کہ مزید تفصیل میں جانے میں مجھے کافی وقت لگا
پہلے تو یہ یقین ہی نہ آیا کہ جس ملک کے نام کے ساتھ " جمہوریہ " لگا ہے وہاں " خط " لکھنا بھی کوئی جرم ہوسکتا ہے تحریر سے اپنا مقصد بتانا ، تعریف کرنا یا تنقید کرنا تعلیم یافتہ معاشروں کی نشانی ہوتی ہےاور اپنی راۓ مکمل آزادی سے کسی شخص یا ادارے تک تحریر و تقریر سے پہنچانا پہلا " جمہوری حق " ! جس سے نہ کوئی قانون روکتا ہے نہ آئین مگر خبر کی تفصیل سے پتہ چلا کہ آنجناب کو حسن عسکری کے خط پر اعتراض تھا سو حسن پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلا ، حسن کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا اور اِنکی مرضی کا وکیل ِصفائی فراہم نہ کیا گیا، میڈیا اور پریس کو اِس خبر پر خاموشی کا حکم یقینن دیا گیا تھا ورنہ اینکر اور تجزیہ کار نامی مخلوق آزاد ہوتی تو اس مقدمے پر سات نہ سہی ایک شو تو ضرور کر گزرتی اور پھر بین الاقوامی خبر ایجنسی سے عوام کو اس "کورٹ مارشل "اور پانچ سال کی قید بامشقت کی خبر ملی جو صرف ایک "خط لکھنے کی سزا " ہے
مزید آگے بڑھیں تو دیکھتے کیا ہیں کہ ایک عوامی نمایندہ جو عوام کے ووٹوں سے قومی اسمبلی میں آئین کا حلف اٹھا کر بیٹھا تھا اس آئین کا۔۔۔۔ جس کی قسم کھا کر آپ جان دینے کے وعدے کیے بیٹھے ہیں، اس نمایندے کو خط لکھنے کی بھی مہلت نہ دی گئی بلکہ اِس نے تو صرف چند جلے کٹے جملے ہی ادا کیے تھے وہ بھی نہ کسی بین الاقوامی فورم پر نہ کسی غیر ملکی نشریاتی ادارے پر بلکہ اپنے جیسے نہتے عوام کے سامنے اپنے دل کا حال سنایا تھا .وہ عوام جو اس نماندے اور آپکو آپکی تنخواہ دیتے ہیں سو اگراپنے ہی "مالکوں " کے سامنے کوئی اپنی دکھ بھری ِکتھا سنا کر ہمدردی حاصل کرتا ہے تو جناب والا یہ کونسا جرم ہے ؟؟ کون قتل ہوگیا تھا علی وزیر نام کے ممبر اسمبلی کی تقریر سے ؟ کس کا گھر بار جلا ؟ کون لُٹ گیا تھا چند الفاظ اور نعروں سے ؟ کہ علی وزیر آج تک جیل میں ہے اور کوئی عدالت ضمانت دینے کوبھی تیار نہیں کیونکہ آپ کا فرمان بابت منتخب ممبر وزیرستان جاری ہوا کہ "توہینِ بسالت " پر عوامی نمایندہ آپ سے معافی مانگے اور اپنے کیے پر شرمندہ ہو مگر کیوں شرمندہ ہو ؟ کس بات کی معافی مانگے ؟ کیا اس ملک کے نام کے ساتھ " اسلامی" نہیں لکھا اور بولا جاتا ؟ اور کیا قرآن میں اللہ کا فرمان نہیں کہ "اللہ تعالیٰ بری بات کُھلم کھلا کہنا پسند نہیں کرتے،سوا ئے کسی مظلوم کے"۔ سورۃ النساء ۱۴۸ اور کون ہوگا اس سے بڑھ کر مظلوم جسکا سارا خاندان دہشتگردی کا شکار ہوا اور اس نے بندوق نہیں اٹھائی مگراپنی تحریر و تقریرکی آزادی اوراپنے حلقے کےعوام کی ُپرامن آواز بننےکےلیے آئین پر قسم اٹھا لی۔
سو جناب میرا آپ سے سوال ہے کہ یہ کس قسم کی ریاست ہے، کونسا آئین ہےاور کیسی مملکت ہے کہ جہاں خط لکھنے اور تقریر کرنے پر سخت قید و بند کی سزائیں اور معافی ناموں کے مطالبے ہیں جب کہ ستر ہزار معصوموں کا لہو پینے والے ڈریکولا کو پچھلے دروازے سے فرار کی کھلی چھوٹ ہے ، ١٢٦ دن تک دار الحکومت کو جام کر کے ملک کی معیشت ، سیاست اور امن و امان کو زمیں بوس کرنے والوں کو تخت شاہی پر زبردستی جلوہ افروز کیا جاتا ہے اور یونیفارم میں ملبوس صوبائی چوکیداروں کے قاتلوں کو نہ صرف دعوت مذاکرات ہے بلکہ قاتلوں اورانکے سرپرستوں کو کبھی سرعام لفافے تو کبھی خاموشی سے گلدستے عنایت کیے جاتے ہیں اگراب یہی ریاست پاکستان کا آئین اور قانون بن چکا ہے تو آپ سے درخواست ہے کہ اس "تبدیلی " کا اعلان اپنے چنیدہ وزیراعظم اورانکی کابینہ کے ذریعے گلی گلی کروادیں تاکہ وہ جو قانون اور آئین کی پاسداری میں " بکری " بنے ہوۓ ہیں وہ بھی ہمت پکڑیں اورخط وکتابت یا تقریر وں کے ذریعے ریاستی بے انصافیوں اور حکومتی زیادتیوں پرآوازاٹھانے کی بجاۓ پتھر، ڈنڈے ،گولی اور بم اٹھائیں اوراپنے مسائل "شیر کے پتر " بن کر منٹوں میں حل کروا لیں
آپکے اس اعلان کی منتظر رہوں گی
والسلام
آئینہ