FACE it
Thursday, October 20, 2022
بات کرتے ہیں تو اُوقات بتا دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگ کردار سے اب ذات بتا دیتے ہیں
Sunday, December 26, 2021
عجائب خانہ دانش وراں
سال گزرا تو مزید دانشوروں کا سامنا ہوا
ایک خودکار ذھانت کا منبع محترمہ اس عجائب خانہ میں موجود ہیں جنکا قبلہ اس تیزی سے بدلتا رہا کہ آپ ابھی انکی ٹویٹ پر کمنٹ دینے لگیں اور فون کی گھنٹی بج جائے کالر آئی ڈی پر رانگ نمبردیکھ کر آپ ٹویٹر پیج کی طرف دوبارہ پلٹے اور یہ کیا ؟؟؟ محترمہ دانشور صاحبہ نے "سیاسی قبلہ " بدل دیا اللہ جانے زندگی کی گاڑی میں بریکیں بھی ہیں یا نہیں ؟
خیرقدرت بھی ایسے میں دورکھڑی مسکرا رہی تھی تیسرا سال ہی آیا تو سنتے ہیں "ووٹ کو عزت دو "کی تسبیح پڑنی پڑی اسی لیے کہتے ہیں کہ غرور کا سر نیچا
ایک "فیفتھیے "ہیں جو چہرے سے تو لڑکے بالے لگتے ہیں مگر جس ڈھیٹائی سے ہر بار اپنا اکاؤنٹ سسپینڈ ہونے کے بعد دوسرا اکاؤنٹ بناتے ہیں اور پھر جمہوریت پسندوں اور خاص کر فیمنسٹ خواتین کے خلاف ٹویٹر اسپیسزکی محفل سجاتے ہیں اس سے کافی "پکی عمر کے کھوچل مرد " لگتے ہیں
Thursday, November 4, 2021
چیف کے نام "کھلا خط "
محترم چیف صاحب
السلام و علیکم
بعد سلام عرض ہے کہ میرے والد صاحب فوج میں نہیں بلکہ میرے والد کے والد اورپھرانکےوالد کوئی بھی فوج میں نہیں اورجتنا شجرہ نسب والدین نے متعارف کروایا اس میں کہیں کسی فوج میں بھرتی کا ذکر نہیں اسی لیے اپنی " تلوار " یعنی قلم تھاما اورآپ کو خط لکھنے کا ارادہ باندھ لیا . پشت درپشت سویلین ہونے کا سب سے بڑا فایدہ یہی ہے کہ " ڈسپلن "کے نام پر انسان اپنی شخصی آزادی کا سودا نہیں کرتا سو یہ سودا میں نے نہیں کیا
محترم چیف صاحب عرض ہے کہ ایک عجیب و غریب خبر کی گُونج ہر طرف ہے کہ آپکی ہی برادری کے ایک ریٹایرڈ صاحب کے بیٹے نے آپ کو خط لکھا اور آپ پر تنقید کی اور سنا ہے کہ آپ نا راض ہو گئے یہ خبر ہی اِسقدر حیرت انگیز ہے کہ مزید تفصیل میں جانے میں مجھے کافی وقت لگا
پہلے تو یہ یقین ہی نہ آیا کہ جس ملک کے نام کے ساتھ " جمہوریہ " لگا ہے وہاں " خط " لکھنا بھی کوئی جرم ہوسکتا ہے تحریر سے اپنا مقصد بتانا ، تعریف کرنا یا تنقید کرنا تعلیم یافتہ معاشروں کی نشانی ہوتی ہےاور اپنی راۓ مکمل آزادی سے کسی شخص یا ادارے تک تحریر و تقریر سے پہنچانا پہلا " جمہوری حق " ! جس سے نہ کوئی قانون روکتا ہے نہ آئین مگر خبر کی تفصیل سے پتہ چلا کہ آنجناب کو حسن عسکری کے خط پر اعتراض تھا سو حسن پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلا ، حسن کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا اور اِنکی مرضی کا وکیل ِصفائی فراہم نہ کیا گیا، میڈیا اور پریس کو اِس خبر پر خاموشی کا حکم یقینن دیا گیا تھا ورنہ اینکر اور تجزیہ کار نامی مخلوق آزاد ہوتی تو اس مقدمے پر سات نہ سہی ایک شو تو ضرور کر گزرتی اور پھر بین الاقوامی خبر ایجنسی سے عوام کو اس "کورٹ مارشل "اور پانچ سال کی قید بامشقت کی خبر ملی جو صرف ایک "خط لکھنے کی سزا " ہے
مزید آگے بڑھیں تو دیکھتے کیا ہیں کہ ایک عوامی نمایندہ جو عوام کے ووٹوں سے قومی اسمبلی میں آئین کا حلف اٹھا کر بیٹھا تھا اس آئین کا۔۔۔۔ جس کی قسم کھا کر آپ جان دینے کے وعدے کیے بیٹھے ہیں، اس نمایندے کو خط لکھنے کی بھی مہلت نہ دی گئی بلکہ اِس نے تو صرف چند جلے کٹے جملے ہی ادا کیے تھے وہ بھی نہ کسی بین الاقوامی فورم پر نہ کسی غیر ملکی نشریاتی ادارے پر بلکہ اپنے جیسے نہتے عوام کے سامنے اپنے دل کا حال سنایا تھا .وہ عوام جو اس نماندے اور آپکو آپکی تنخواہ دیتے ہیں سو اگراپنے ہی "مالکوں " کے سامنے کوئی اپنی دکھ بھری ِکتھا سنا کر ہمدردی حاصل کرتا ہے تو جناب والا یہ کونسا جرم ہے ؟؟ کون قتل ہوگیا تھا علی وزیر نام کے ممبر اسمبلی کی تقریر سے ؟ کس کا گھر بار جلا ؟ کون لُٹ گیا تھا چند الفاظ اور نعروں سے ؟ کہ علی وزیر آج تک جیل میں ہے اور کوئی عدالت ضمانت دینے کوبھی تیار نہیں کیونکہ آپ کا فرمان بابت منتخب ممبر وزیرستان جاری ہوا کہ "توہینِ بسالت " پر عوامی نمایندہ آپ سے معافی مانگے اور اپنے کیے پر شرمندہ ہو مگر کیوں شرمندہ ہو ؟ کس بات کی معافی مانگے ؟ کیا اس ملک کے نام کے ساتھ " اسلامی" نہیں لکھا اور بولا جاتا ؟ اور کیا قرآن میں اللہ کا فرمان نہیں کہ "اللہ تعالیٰ بری بات کُھلم کھلا کہنا پسند نہیں کرتے،سوا ئے کسی مظلوم کے"۔ سورۃ النساء ۱۴۸ اور کون ہوگا اس سے بڑھ کر مظلوم جسکا سارا خاندان دہشتگردی کا شکار ہوا اور اس نے بندوق نہیں اٹھائی مگراپنی تحریر و تقریرکی آزادی اوراپنے حلقے کےعوام کی ُپرامن آواز بننےکےلیے آئین پر قسم اٹھا لی۔
سو جناب میرا آپ سے سوال ہے کہ یہ کس قسم کی ریاست ہے، کونسا آئین ہےاور کیسی مملکت ہے کہ جہاں خط لکھنے اور تقریر کرنے پر سخت قید و بند کی سزائیں اور معافی ناموں کے مطالبے ہیں جب کہ ستر ہزار معصوموں کا لہو پینے والے ڈریکولا کو پچھلے دروازے سے فرار کی کھلی چھوٹ ہے ، ١٢٦ دن تک دار الحکومت کو جام کر کے ملک کی معیشت ، سیاست اور امن و امان کو زمیں بوس کرنے والوں کو تخت شاہی پر زبردستی جلوہ افروز کیا جاتا ہے اور یونیفارم میں ملبوس صوبائی چوکیداروں کے قاتلوں کو نہ صرف دعوت مذاکرات ہے بلکہ قاتلوں اورانکے سرپرستوں کو کبھی سرعام لفافے تو کبھی خاموشی سے گلدستے عنایت کیے جاتے ہیں اگراب یہی ریاست پاکستان کا آئین اور قانون بن چکا ہے تو آپ سے درخواست ہے کہ اس "تبدیلی " کا اعلان اپنے چنیدہ وزیراعظم اورانکی کابینہ کے ذریعے گلی گلی کروادیں تاکہ وہ جو قانون اور آئین کی پاسداری میں " بکری " بنے ہوۓ ہیں وہ بھی ہمت پکڑیں اورخط وکتابت یا تقریر وں کے ذریعے ریاستی بے انصافیوں اور حکومتی زیادتیوں پرآوازاٹھانے کی بجاۓ پتھر، ڈنڈے ،گولی اور بم اٹھائیں اوراپنے مسائل "شیر کے پتر " بن کر منٹوں میں حل کروا لیں
آپکے اس اعلان کی منتظر رہوں گی
والسلام
آئینہ
Thursday, October 28, 2021
" ابھی تک ہم نہیں بو لے"
پیرزادہ قاسم کے اشعار پیش خدمت ہیں اگر دل میں کچھ خدا کا خوف اور روح میں انسانیت باقی ہے تو ڈریں اُس وقت سے جب مخلوق ِخدا کے بولنے کی باری آجائے گی
ابھی تو آپ ہیں اور آپ کا زورِ خطابت ہے "
بہت الفاظ ہیں نادر، بہت بے ساختہ جملے
ابھی تو لب کشائی آپ کی اپنی گواہی ہے
ابھی تو آپ ہیں ظلِّ الٰہی، آپ ہی کی بادشاہی ہے
ابھی سب زر، جواہر، مال و دولت آپ ہی کے ہیں
ابھی سب شہرت و اسبابِ شہرت آپ ہی کے ہیں
ابھی کیا ہے، ابھی تو آپ کا جبروت لہجے میں عیاں ہو گا
ابھی تو آپ ہی کے نطق و لب سے آپ کا قصہ بیاں ہو گا
ابھی تو محترم بس آپ ہیں، خود اپنی نظروں میں
معظم، محتشم القاب ہیں خود اپنی نظروں میں
ابھی تو گونجتے اونچے سُروں میں آپ ہی ہیں نغمہ خواں اپنے
سبھی لطف و کرم گھر کے، مکان و لا مکاں اپنے
ابھی تو آپ ہی کہتے ہیں کتنا خوب کہتے ہیں
جو دل میں آئے کہتے ہیں، جو ہو مطلوب کہتے ہیں
مگر جب آپ کی سیرت پہ ساری گفتگو ہو لے
"تو یہ بھی یاد رکھیے گا.............. ابھی تک ہم نہیں بولے
Tuesday, October 26, 2021
آؤ سچ بولیں !
اخبارات اور رسائل پڑھنے کا میرا شوق کافی پرانا ہے اور پاکستانی سیاست میں دلچسپی بھی نئی نہیں سونے پرسہاگہ سوشل میڈیا کی آمد ! خاص طور پر ٹویٹر نے اس سلسلے میں میری سب سے زیادہ مدد کی وہ اس طرح کہ اب " خبرنامے کی خبروں" اور نامور صحافیوں اور دانشوروں کے کالمز، ٹویٹس اور پوسٹس پر " سیدھا سیدھا " تبصرہ کرنا بہت آ سان ہوگیا ہے . پہلے یہی کا م میں " لیٹر ٹو ایڈیٹر "اور "اوپینین " کے سیکشن میں کرتی رہی ہوں مگرجیسے کہ ہمارے آرٹسٹ لوگ کہتے ہیں کہ فلموں اور ٹی وی ڈراموں کی نسبت ہمیں "اسٹیج "پر کام کرنا زیادہ پسند ہے کیونکہ فورا ہی داد یا جوتے وصول ہوجاتے ہیں اسی طرح اپنے "کمنٹس " پر فورا ہی رد عمل جاننے کے لیے مجھے بھی سب سے بہترین ذریعہ ٹویٹر ہی لگتا ہے اور بارہا اس لاحاصل جہاد سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا ارادہ کر کے بھی اس سے علیحدگی اختیار نہیں کر سکی کہ" چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی " اور اب تویہ حال ہے کہ صحافی یا کالم نگار سوال اٹھانے پرفورا ہی بلاک کردیں تو بھی ایک ایسا سرور ملتا ہے جو صرف کسی نشے باز "جہا ز" کو نشہ پورا ہونے پر ملتا ہے
کچھ دن پہلے ٹویٹر پر محترم خرم قریشی نے ایک لاجواب ٹویٹ کی جسمیں وہ ٹویٹتے ہیں ”پرسنل ٹویٹر اکمپلشمنٹس " یعنی” ٹویٹر پر میرے ذاتی کارنامے " اور کارناموں کی فہرست میں وہ ان افراد کے ٹویٹر پیج منسلک کرتے ہیں جنہوں نے انکو بلاک کیا انمیں گلوکارو خلائی فنکار فخرعالم ، پاکستانی امور ِ جاسوسی میں ماہر سنتھیا رچی ، تبدیلی بٹالین کے روح رواں میرعلی محمد خان اور وزیراعظم کی ماورائی خوبیوں کو تاڑنے کا تین سالہ تجربہ رکھنے والی محترمہ مہر تارڑ شامل ہیں انکے یہ "ذاتی کارنامے " دیکھ کر خاکسارہ کے دل میں بھی یہ خواہش جاگی کہ میں بھی اپنے " ذاتی کارناموں "کی لسٹ بنا ہی ڈالوں ، سو پچھلے آٹھ سال سے جن مایہ ناز افراد نے بلاک کرکےعزت بخشی انکی فہرست بنالی اورآپکو یہ سن کر خوشی ہوگی کہ جن لوگوں کو میں فالو کرتی رہی ان میں سے بلاک کرنے والوں کی اکثریت " صحافی یا کالم نگار یا تجزیہ کار" ہے حتی کہ جن کو کبھی فالو ہی نہ کیا تھا اُن میں بھی اسی پیشے کے لوگوں کی ایک معقول تعداد موجود ہے اور لگتا ہے اُنکو کسی " الہام " کے ذریعے میرے ان گستاخ سوالات کے بارے میں علم دیا گیا جو میں آنے والے وقت میں ان سے کر کے اُن کے منہ کا زایقه خراب کر سکتی تھی
سنجیدگی سے سوچا کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے تو وہ دو سوالات ہی سامنے آ ئے جن پر اکثر "پڑھے لکھے دانشوروں " نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے مجھ پراپنے گھر کے" دروازے " بند کرنا بہتر سمجھا
پہلا سوال عموما بلوچستان ،سندھ اور پختونخواہ کے جبری لاپتہ افراد پر ریاست کا گریبان نہ پکڑنے پر ہوتا ہے کیونکہ میرے حساب سے صحافی اور خاص طور پر " تفتیشی صحافت "کرنےوالے اور سیاستدانوں کے "پوشیدہ مالی جرائیم " کے بارے شو کرنےوالے اینکرز پرایسا سوال بنتا بھی ہے کیونکہ اگر وہ یہ چھبتا ہوا سوال ریاست کے اداروں سے نہیں کریں گے تو کون کرے گا ؟؟
دوسرا سوال پہلے سوال سے زیادہ تکلیف دہ ہے اور اسکی گردان بھی روز جاری رہتی ہے اور اسی طرح میرے بلاک ہونے کا سلسلہ بھی اور وہ سوال ہے صحافی صاحب ، مسٹر اینکر اور شدید سینیرتجزیہ کاروں کی سیاسی وابستگی ۔
جب بھی اُنکے یک طرفہ سیاسی جھکاؤ پر تنقید اوروضاحت مانگی جاۓ یہ خواتین و حضرات ایسے چراغ پا ہوتے ہیں کہ لگتا ہے خدا نخواستہ میں نے اُن سے اُنکی اصل تنخواہ یا حقیقی عمر کے بارے پوچھ لیا ہو
کوئی اِن اللہ کے بندوں کو ابھی تک یہ بات سمجھا نہیں پایا جواستاد ِ صحافت جناب وجاہت مسعود نے پچھلے دنوں ایک کافی بدتمیز قسم کے ٹویپ کو بہت ہی تمیز و تھذیب سے سمجھائی
انہوں نےاس ٹویپ کےاسی قسم کےالزامات کے جواب میں لکھا
"کہ" صحافی سیاسی طورپرغیرجانبدارنہیں ہوسکتا ۔
درست ! یہی سچ ہے کہ خبر سیاسی ہوتواسکو سنانے والا جب اُس خبر کا تجزیہ کرے گا تو وہ یقینن اپنےجانبدار دماغ و دل سے اُس خبرکو توڑ مروڑ کر اپنے سیا سی گرو کے حق میں اور اپنے نا پسندیدہ سیاسی رہنماوں اور پارٹیوں کے خلاف پیش کرے گا
اور پھر پاکستان جیسے ملک میں جہاں ایک سے ذیادہ لسانی اکائیاں ہیں اِن صحافیوں ، اینکروں اور تجزیہ کاروں کا لسانی تعصب بھی ہمالیہ کی بلندیوں کوچھو رہا ہوتا ہے ویسے یہ لفظ "اکائیاں " پاکستان کے مین اسٹریم نیوز میڈیا کے لیے میں نے بلاوجہ ہی استعمال کیا ہے کیونکہ اردواور انگریزی پریس ہو یا چینلزمگر یہاں اکائیاں نہیں صرف" ڈیڑھ اکائیِ" سرگرم ِ عمل ہے بقیہ تین ساڑھے تین اکائیاں تو ایسے ہیں جیسے آٹے میں نمک بلکہ آٹےکوگوندھتے ہوئے صرف"نمک " کا نام ہی لے لیا جا ئے توکافی ہے
ایسے میں اِن “بے چارے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں“ کی آزمایش کرنا اپنے آپ میں ایک ظلم ہے جو مجھ سمیت بہت سوں سے ہر روز، ہر لمحے سرزد ہوتا رہتا ہےمگر یھاں غلطی میڈیا برادری کی بھی ہےکیونکہ ہم نے تو صحافت نہیں پڑھی مگراِنکوتوصحافت ازبر ہونی چاہیے
جب اِنکو پتہ ہےکہ یہ غیرجانبدارنہیں ہوسکتے، یہ "غیرسیاسی بچے" نہیں بن سکتے توکیوں عوام پراپنے
مسیحا " ہونے کا رعب ڈالتے ہیں؟ کیسےایسا ظاہرکرتےہیں کہ یہ " دار" پرچڑھ جانےوالےسرمد ومنصورہیں؟ کس لیے لوگوں کوسقراط کی ایکٹنگ کر کے دیکھاتے ہیں جب کہ زہرکے پیالے شہروں میں بسنے والی نام نہاد پڑھی لکھی مڈل کلاس کو پلاتے ہیں اورخود "دودھ کے پیالوں"پر پھل پھول رہے ہیں
اِن مین اسٹریم صحافت میں پائ جانے والی مخلوق کو ایک بارتو یہ اعتراف کُھل کرکرلینا چاہیے کہ وہ “سیاسی وابستگی” کو گناہ نہیں سمجھتے اورجب اُنکو اُنکے معتصبانہ روئیے پرتنقید کا سامنا کرنا پڑے تومجھ جیسے سوال اٹھانےاور" طعنے" دینے والوں کو بلاک کرنے کی بجائے اِنکو اِس حقیقت کا اظہارکرنا چاہیے کہ ہاں ! ہمارا “سیاسی جھکاؤ “ ہے کیونکہ حال یہی ہے کہ ہر ایک سو صحافیوں،کالم نگاروں ،اینکرز اور تجزیہ کاروں میں پچاس فیصد جی ایچ کیو میں فوجی بوٹ پالش کرکے کماتے ہیں تو انچاس فیصد جاتی عمرہ کے بیانیے کی ما لش کرکےروزی روٹی کماتے ہیں اوربقیہ ایک فیصد اِس تمام منظر کو خاموشی سے دیکھتے رہتے ہیں مگر حقیقت سننے کوکوئی بھی تیار نہیں اور جِس بحث کو محترم وجاہت مسعود نے دو منٹ میں نمٹا دیا اُسپر مجھ جیسے "طفلِ مکتب "کو جو مشکل سوال کرنے پر ویسے ہی مکتب سے نکال دیا جاتا ہے کبھی " ٹرول " تو کبھی جعلی ا کاونٹ کے القابات سے نوازکر اپنے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ حوصلہ کرِیں جناب اور سچ بولیں کیونکہ ہر سچائی تک پہنچنے کے لیے حوصلہ چاہیے ہوتا ہے
Monday, July 26, 2021
ملک خدادا کا بھکاری بادشاہ
بزرگ بتاتے ہیں کہ ایک بستی کے بادشاہ کا انتقال پر ملال ہوگیا ، بےاولاد تھا شاید !! ورنہ اتنی آرام سے کونسا بادشاہ انتقال کرتا تھا اکثر تو اپنی اولاد کے ہاتھوں مارے جاتے تھے خیر! کہتے ہیں کہ بادشاہ کی وفات پر وزیر باتدبیر نے ایک انوکھا " طریقہ انتخاب " جاری کیا کہ آج سے تین دن بعد جو پہلا شخص بستی کے صدر دروازے پر دستک دے گا وہی ہمارا اگلا بادشاہ ہوگا سو اس "سلیکشن "کے نتیجے میں جو پہلا شخص تین دن بعد صدر دروازے پر آوازہ لگانے آیا وہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے ، سر پر ٹاٹ لگی ٹوپی اور گلے میں کشکول لٹکاۓ ایک عدد "بھکاری "تھا سو بستی والوں کی قسمت میں جو نیا بادشاہ لکھا گیا وہ پیشہ ور بھکاری نکلا.
صدر دروازے پر دستک دے کر بھکاری سے بادشاہ بننے والے کو وزیروں ، مشیروں نے تاجپوشی کا اعلان پڑھ کر سنایا اسکے بعد پھٹے پرانے ٹاٹ لگے کپڑوں کی جگہ شاہانہ لباس زیب تن کروایا گیا ، چھیتڑوں سے بنی ٹوپی ہٹا کر سر پر تاج اور سوراخوں بھرے جوتوں کی جگہ شاہی موزے پہناۓ گیے اور کشکول ؟؟ بھلا بادشاہ کے گلے میں کشکول کیونکر لٹکتا سو سونے چاندی کی دوہری اور سچے موتیوں کی مالا نے کشکول کی جگہ لے لی یوں " بھکاری بادشاہ"کے دن و رات آرام و چین سے گزرنے لگے مگر دنیا میں وہ سکون کہاں جو قبر میں ملتا ہے سو ہمسایہ ملک کے بادشاہ کو کسی نے خبر دے دی کہ برابر والوں کا طاقتور بادشاہ تو لڑھک گیا ہے اب اسکی جگہ ایک ایسے شخص نے لے لی ہے جسکو امور حکمرانی کا اتنا ہی تجربہ ہے جتنا ہمارے عالم پناہ کوبھیک مانگنے کا . ظل الہی نے یہ سنا تو کافی محظوظ ہوے اور کہا کہ بہت عرصے سے اس بستی پر قبضے کے خواب دیکھ رہا تھا جو پچھلے بادشاہوں کی طاقت اور عقل و فہم کی وجہ سے تعبیر نہ پاسکے مگر لگتا ہے اس بار قدرت بھی یہی چاہ رہی ہے کہ ہم اپنے ملک کو مزید وسییع کر لیں سو اے میری سپآہ کے سالارو ! حملے اور قبضے کی تیاری کرو
بستی کے مخبروں کو جب طاقتور ملک سے یہ خوفناک اطلاعات موصول ہوئیں تو بھاگم بھاگ دربار میں پہنچے جہاں سابقہ بھکاری عرف بادشاہ سلامت انگور کھلانے اور پکے راگ سنانے والوں کے درمیان موجود تھے مخبر نے تخلیے کی درخواست کی جسے عالم پناہ نے رد کر کے سرے عام " مخبری " کا حکم دیا مخبر نے ڈرتے ڈرتے کہا جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ ہمسایہ ملک کے بادشاہ اپنی افواج کو حملے کے لیے تیار کر رہے ہیں یہ سن کر بادشاہ سلامت کچھ لمحوں کے لیے ٹھٹکے اور پھر بولے " کرتے ہیں کچھ گھبراؤ نہیں " دربار میں اس جملے سے کافی اطمینان چھاگیا .دو روز گزر گیے اور دشمن ہمساۓ کی فوج اپنے ملک کی سرحدوں سے آگے بھکاری بادشاہ کی بستی کے حدود اربع تک پہنچ گئی مخبر تو مخبر فصیلوں پر کھڑے پہرہ داروں نے بھی دشمن کے عظیم الشان لشکر کی پیش قدمی کو دیکھ لیا اور سب لگے دربار کی طرف دوڑ لگانے جہاں شہنشاہ دوپہر کے بڑے کھانےکے بعد قیلولہ فرما رہے تھے کنیزوں نے "اک پھل موتیے دا " مار مار کر جگایا کہ عالم پناہ ! خدا کی پناہ ذرا باہر کی خبر لیں کہ دشمن سرحدوں تک پہنچ گیا ہے. بادشاہ سلامت ہڑبڑا کر اٹھے دشمن افواج کی پیشقدمی کی خبریں سنیں اور بولے "ٹھیک ہے سمجھ گیا کرتے ہیں کچھ اس سلسلے میں " عوام میں جو ٹینشن دشمن افواج کے بوٹوں کی دھمک سے پھیل گئی تھی قدرے کم ہوئی
ابھی عوام نے قبر سے باہر ہی سکون کا سانس لیا تھا کہ صدر دروازے پر توپوں کے گولے اوربستی کے پہریداروں پر دشمن کے اڑتے تیروں کی بوچھاڑ ہوگئی عوام جو بادشاہ سلامت کی طرف سے پالیسی بیان اور جنگی چالوں کو عملی جامہ پہنانے کا انتظار کررہےتھےسخت خوفزدہ ہو گیے اپنے گھروں، دکانوں ،کھیتوں ،کھلیانوں کو چھوڑ کر محل کی طرف چل نکلے اور دوسری طرف دشمن ملک کی فوج نے بھی محل کی طرف رخ کیا اور راستے میں جس نے بھی اس پیشقدمی کو روکنے کی کوشش کی اسکو موت اور تباہی کا منہ دیکھنا پڑا یہ حالت زار بستی کی افواج کے سپہ سالار اور امور مملکت چلانے والے وزراء اور مشیروں کے ذریعے شہنشاہ تک پہنچی تو وہ سمجھ گیا کہ اب پانی سر سے اسقدر اونچا ہوچکا ہے کہ زیادہ دیر ناک منہ بند کر کے اس پانی میں رہنا موت کو دعوت دینا ہے عوام کے غیض و غضب سے بھرے نعرے محل کی در و دیوار کو ہلا رہے تھے تو دشمن کی توپیں زمین کو لرزہ رہی تھیں ایسے میں " بھکاری بادشاہ " نے بھرے دربار میں اعلان کیا " میں نے فیصلہ کر لیا ہے " تمام درباری منتظر تھے کہ بادشاہ اپنا فیصلہ سناۓ جس پر عملدرآمد سے بستی اور بستی کے عوام کو دشمن کی چیرہ دستیوں سے بچایا جاۓ کہ دیکھتے کیا ہیں عالم پناہ نے اپنی خوابگاہ کی طرف دوڑ لگا دی اور کچھ لمحوں بعد خوابگاہ سے ظل الہی کی جگہ ایک پھٹے پرانے کپڑوں ، ٹوٹی جوتی اور کشکول گلے میں ڈالے بھکاری نمودار ہوا ،گلا صاف کر کے بولا " بھائیوں ! یہ حکومت وغیرہ تو میرے بس کی بات نہیں ہاں اگر کبھی بھیک وغیرہ مانگنی ہو تو خاکسار کو ضرور یاد کر لینا آپکی نوازشات کا شکریہ میرا تو اس مملکت میں کچھ لینا دینا نہیں سو جو کشکول اور ٹاٹ پہن کر آیا تھا وہی پہن کر جا رہا ہوں اب آپ جانیں اور آپکی بستی......... اللہ حافظ
( ہر قسم کی مماثلت اتفاقی ہے ادارہ ذمہ دار نہیں )
Friday, July 16, 2021
اسلام کا قبرستان
کراچی کے گٹروں پر سےگم ہوتے ڈھکنوں اور لاڑکانہ کے باؤلے کتوں سے کاٹے کے نایاب انجیکشنوں کا سفر کویٹہ ،شاہ نورانی ، پشاور ،مہمند ، سیہون کی دہشتگردی میں جانے والی جانوں سےہوتا ہوا پانامہ کیس اور سلیکٹڈ کےانتخاب سے گزرتا گزراتا گجرنالے تک آ پہنچا ہے مگر آج بھی پاکستان کی طاقتوراشرافیہ بلوچستان ، سندھ اور پختونخواہ کے جبری گمشدہ بیٹےبیٹیوں سے بے پرواہ ہے اور گلی محلوں میں بسے بے بس عوام گریہ کناں
اپنےبنائےہو ئےاس ٹہرے پانی کےبدبودار کوئیں سے باہر آکردیکھیں کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے یا اسلام کا قبرستان بن چکا ہے ؟؟ حقیقت یہ ہے کہ ستر سال میں اس ملک کے مختلف علاقوں میں اسلام کی صرف " تدفین " ہو ئی ہے
"یہاں اسلام دفن ہے"
آج آپ مجھ سےلاکھ حجتیں کرلیں ، بحث کریں یا منطق اٹھا لائیں لیکن اسلام کےکسی نکتے سے یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ کسی بھی قسم کے نظریات کا حامل کسی بھی اسلامی شق یا روایات کی رو سے جبری گمشدگی ، ٹارچر ، ہلاکت اور پھر نامعلوم قبر کا حقدار ٹھرسکتا ہے
ہم اعتراف کریں یا نہیں مگر امر وا قعہ یہی ہے کہ برسوں سے گمشدہ افراد ، تشدد زدہ لاشیں ، نامعلوم اور اجتماعی قبریں اسلام کے قلعےکو اسلام کے مقبرے میں تبدیل کرچکیں.... آپ سبکو اطلاع ہو کہ ایٹمی پاکستان اسلام کا قبرستان بن چکا ہے