Friday, April 18, 2025

کامیاب سیاستدان کون ؟ ذوالفقار علی بھٹو یا آصف علی زرداری

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں چند ہی  نام ایسے ہیں جنکو وقت کی گرد دھندلا نہ سکی ان میں سر فہرست ذوالفقار علی بھٹو کا نام ہے انکی پیدایش کو نو دہائیوں سے زیادہ عر صہ  گزر چکا اور ان کے عدالتی قتل کو چالیس سال  سے زیادہ مدت ہوچکی  مگر آج بھی  سیاست ، ریاست، اقتدار اوراختیار کے میدانوں میں بھٹو کا نام گونجتا ہے . دوست ہو یا دشمن ، عوام کے درمیان دھواں دار خطاب کرتا سیاسی حریف ہو یا پارلیمان میں نپے تلے الفاظ بولنے والا حکومتی ممبر کہیں نہ کہیں ، کبھی نہ کبھی بھٹو کا تذکرہ ضرور آتا ہے ، میڈیا پر بیٹھے گھا گ صحافی ہوں یا یوٹیوب کے کلکس پر انحصار کرتے نئی نسل کے نوجوان یہ ہو نہیں سکتا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے تذکرے کے بغیر کسی بھی  سیاسی موضوع کو زیر بحث لائیں

مگر ایک تلخ حقیقت پر روشنی ڈالنا سب بھول جاتے ہیں کہ   ٹوٹے پھوٹے  پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم، کامیاب لیڈر تو تھے مگر  وہ پاکستان کے زمینی حقایق، مفاد پرست ٹولوں ، بے حس اداروں اور خودغرض عوامی جتھوں  کی سمجھ بوجھ  رکھنے والے کامیاب سیاستدان نہیں تھے . شکست خوردہ قوم کے بدن میں ولولہ و عزم کی روح پھونکنے والا  لیڈراگر صرف چھ سال کی مختصر مدت میں کال کوٹھری تک پہنچ گیا تو سوچیں کہ اس نے کیسی سیاست کی ہوگی ؟ ؟  ظاہر ہے اسکی سیاست ناکام رہی ہوگی  اس لیے نہیں کہ وہ شخص ذہین ومدبر سیاستدان نہ تھا کیونکہ وقت نے ثابت کیا کہ  بھٹو صاحب اگر دنیا کے کسی اور ملک میں سیاستدان ہوتے تو اپنی عوامی سیاست کے کامیاب ترین  کھلاڑی ہوتے،  مگرپاکستان کی سیاست میں وہ لیڈر ہوتے ہوۓ بھی ، اناڑی ثابت ہوے اگر ہم یہ  کہیں کہ ان سے کہیں بہترانکے داماد نے پاکستانی سیاست کو سمجھا اور کامیاب سیاستدان ثابت ہورہے ہیں تو یہ مبلغہ آرائی نہ ہوگی 

 پاکستان کی تاریخ میں پہلا منتخب صدر جس نے نہ صرف اپنی جمہوری مدت پوری کی بلکہ دوسری بارمنتخب صدر ہونے کا نایاب ترین اعزاز بھی حاصل کیا ہے جب کہ گیارہ بارہ سال کی پس زنداں ریاضت میں بھی کامیاب رہا ، سیاسی مخالفین کو ناقابل یقین حد تک اپنا گرویدہ بنالینا ایک سیاستدان کی کامیابی نہیں تو کیا ہے ؟ ؟  قارئین کواعتراض ہوسکتا ہے کہ  زرداری صاحب "لیڈر " نہیں ! جی بلکل درست بات ہے ایسا ہی ہے  نہ وہ لیڈر ہیں نہ  کبھی موصوف نے قوم کی رہنمائی کا دعوی کیا ہے ہم نے بہت ہی کم کم صدرکوعوام میں گھلتے ملتے دیکھا ، کوئی تحریک، کوئی دھرنہ  یا احتجاج ؟ نہیں ! اور ہر سیاستدان کے لیے ضروری بھی نہیں .ہمارے سامنے قائداعظم کی مثال موجود ہے بلکہ قاید تو زرداری صاحب سے ایک قدم آگے نکل گیے تھے کہ کبھی جیل کا منہ بھی   نہ دیکھا تھا کم ازکم زرداری صاحب نے جیل میں  تشدد کا سامنا کر کے "لیڈروں "والی  کوئی صفت  تواپنائی ، آپ کہیں گے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کم ہی کوئی اسٹیبلشمنٹ ، پریس،  الیکٹرونک میڈیا اور سیاسی مخالفین کے ہاتھوں اتنا  بدنام ہوا ہے ،  جی ہاں ! حقیقت یہی ہے کہ "  بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا " سو  دو بار منتخب ہونے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کی سیاسی کامیابی بھی یہی ہے کہ جو اسٹیبلشمنٹ اپنی  زرخرید  پریس اور کالم نویسوں  کے ذریعے جناب کو" مسٹر دس فیصد "، "پلے بواے " اور "دنیا کا کرپٹ ترین انسان "قرار دلوا چکی ، اپنی ایجنسیوں اور اداروں کی مدد سےبغیر ثبوتوں کے کبھی  کسی جج ،  کسی سیاسی حریف ، کسی بزنس مین،  کسی رشتےدار تک کے قتل میں ملوث کرنے کی کامیاب سازشیں  بھی کرچکی وہ  آخر کار آصف علی زرداری کی کامیاب سیاست کا شکار ہوکر ان کو صدر بننے سے روک نہ سکی  اور وہ بھی ایک بارنہیں دودو بار 

سو قارئین محترم ! اس  فیصلے کا بال اب آپکی کورٹ میں ہے کہ کیا ایک بدترین شکست سے دوچار ، برباد معیشت والی سرزمین بے آئین کو چھ سال میں اپنے پیروں پر کھڑا کرنے والا لیڈر جو ایک عدد جھوٹی ایف آئی آر کا شکار ہوکر پھانسی پاگیا کامیاب سیاستدان تھا؟  یا عوامی حلقوں میں دانستہ بدنام کیا گیا کمزور ڈومیسائل کا حامل شخص جو بار بار اپنی کامیاب سیاست سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی مخالفین  کو مجبورکردیتا ہے کہ وہ اسکے در پر اپنا اپنا کشکول لیکر پہنچ جائیں اور ملک کی  ڈولتی کشتی کو کچھ عرصے کے لیے مزید سہارا مل جائے . کاش کہ آج پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ذوالفقار علی بھٹو حیات ہوتے تو ہم ان کی بے پناہ ذھانت کا فایدہ اٹھاتے ہوۓ ان سے ضرور دریافت کرتے کہ آپکا جناب آصف علی زرداری کی کامیاب ترین  سیاست کے بارے میں کیا خیال ہے؟  

Wednesday, April 9, 2025

موت کا ایک دن معین ہے .....

 بزرگوں نے فرمایا تھا  " دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے سجناں وی مر جانا " یہ حقیقت عام گناہگار،  خطاکار  انسانوں پر ہی پوری نہیں ہوتی بلکہ انبیاء اور اولیاء بھی موت سے فرار حاصل نہ کرسکے اور اسکو رب جلیل سے ملاقات کا ذریعہ قرار دیا گیا 
 مسلمان معاشرے میں تو یوں بھی ایک جمله زبان زد عام ہے کہ " موت برحق ہے " لیکن بہت ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جیسے جیسے پاکستانی معاشرے میں روایات اور اخلاقیات زوال پزیر ہیں اسی طرح دین اسلام کی بنیادی تعلیمات بھی تیزی سے مفقود ہوتی جارہی ہیں جس میں سے ایک موت کی حقیقت کا اقرار ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اپنے اور اپنے پیاروں کے لیے موت کا انکار لیکن اپنے مخالفین کی موت کے لیے "خس کم جہاں پاک" کے  مقولے کی تکرار!
 ایک مسلمان کا ایمان ہے کہ  کس کی موت کہاں اور کس حال میں آنی ہے اسکا علم صرف اللہ تعالی کو ہوتا ہے . اچھے زمانوں میں سختی سے اس بات پر توجہ دلائی جاتی تھی کہ موت کی وجوہات اور حالات پر تمسخر نہ کرو کیونکہ اسکا اللہ کے راضی ہونے یا اسکی ناراضگی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اللہ کے بہت ہی پیارے بندے بڑی بےسروسامانی اور کسمپرسی میں اسکو پیارے ہو گیے کسی کی میت دشمنوں نے روند دی تو کسی کا کلیجہ چبایا گیا کسی کا جنازہ اور تدفین بھی ہفتوں بعد ہوئی تو کسی اللہ والے کو کفر کے فتوی لگا کر پتھروں میں دفن کردیا گیا سو کون جانے کسی کی موت کیونکر ایسے ہوئی اور میت کیوں کسی راہ چلتے مسافر نےزمین کھود کر دفنا دی ہاں ایک ایسا جواز ہے جو  بتاتا ہے کہ مرنے والا رب کو کتنا عزیز تھا ،  اسکی موت رائیگاں نہ تھی اور وہ ہے اس جانے والے کا نام ، اسکے نظریات ، اسکی پیچھے رہ جانے والی نیک نامی 
ویسے تو ہمارے پاکستانی معاشرے میں اپنے دشمن کو موت کی بد دعا دینا کچھ نیا نہیں لیکن یہ عادت عموما ناخواندہ یا  دیہی علاقوں کے لوگ  یا پھرمالی طور پرکافی  کمزور افراد  میں پا ئی جاتی تھی آجکل سوشل میڈیا کا دور ہے جس میں لوگوں   کی اکثریت اپنے چہروں اور نام سے نہیں جانی جاتی اور" نامعلوم  صارف" اپنی اصلیت پر بآسانی اتر سکتا ،  سو ایسے میں ہم دیکھتے ہیں کہ  فقہی،  مذہبی ، نسلی یا جانی دشمنی تو چھوڑیں سیاسی اختلافات جو کہ ہماری روزمرہ زندگیوں میں سطحی اہمیت  رکھتے ہیں ، وہ بھی ان نامعلوم اور بعض اوقات  معلوم سوشل میڈیا صارفین کو پاکستان کے کسی چھوٹے سے گاؤں کی ناخواندہ ، غربت کی ماری،   پریشان حال ایسی کمزورعورتیں بنا دیتے ہیں جو ہر آتے جاتے کو کوسنے ، گالیاں، ملامتیں اور موت کی بد دعا ئیں دیکر اپنی ناآسودہ زندگی کا بدلہ لیتی ہیں 
سوشل میڈیا پر موجود یہ صارف اپنے ناموں یا پروفائل پکچرز سے موجود ہوں یا نہیں مگر یہ ثابت شدہ ہے کہ تمام ایسے افراد سو فیصد پڑھے لکھے ہیں تبھی سیاسی اختلاف پر مخالف لیڈرشپ کی بیماری کا مذاق اردو اور انگلش میں لکھ کر اڑاتے ہیں ،  کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق ہے تبھی صبح سے شام تک ایکس ،  فیس بک اور یوٹیوب  موجود رہتے ہیں نہ کہ محنت مزدوری سے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے ہوں ، یہ نسبتا ''آسودہ زندگیاں گزارنے والے جگت باز سوشل میڈیا کے  ذریعے سیاسی مخالف دھڑے  کے لیڈرکو موت کی بد دعا دیتے ہیں ، وہ ہسپتال میں ہو تو خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور اسکے مرنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں یہ افراد کسی گاؤں میں نہیں بلکہ بڑے بڑے شہروں میں یا بیرون ملک رہتے ہیں ، شوپنگ مالوں سے خرید و فروخت کرتے ہیں ،  فوڈ چین سے آرڈرز پر پیزا منگواتے ہیں مگر کسی سیاستدان کی موت کی خواہش پر ٹوک دو تو کہتے ہیں " کیوں نہ کریں بد دعا ؟   یہ تو کرپٹ ہے ، ہمیں غربت میں دھکیلا ہے،  ہمارا خون چوسا ہے" آپ ایسے میں کیا جواب دیں ؟ ؟  آنا للہ کہہ کر خاموش ہونا بنتا ہے
پچھلے دس ایک سال سے یہ زہنی بیماری اتنی بڑھ چکی ہے کہ اصلاح کی کوئی ترکیب کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی .ایک سیاسی جماعت نے اس بد اخلاقی کو اتنا پروان چڑھا دیا ہے کہ اب انکے بیرون ممالک میں رہتے ہم آواز،ہم خیال افراد ویڈیوپیغامات کے ذریعے اپنی سیاسی نفرتوں کو دنیا کے تمام کونو ں میں پھیلا رہے ہیں اور ایسا کرتے انکو یہ خیال نہیں آتا کہ انکے ناپسندیدہ سیاسی لیڈرکی وفات تو اللہ کے حکم پر ہی ہوگی مگر سوشل میڈیا پر ایسے انسانیت سے گرے  پیغامات ملکی اقدار اور اسلامی روایات کے منہ پرایسا تمانچہ ہیں جسکی آواز دنیا بھر میں سنائی دے رہی ہے
 افسوس  کہ سیاسی اختلافات پر کسی کی موت کی تمنا کرنے والے یہ  ڈگری ہولڈرز نہیں جانتے کہ موت سزا نہیں ہوتی ورنہ انبیاء ، اولیاء ،  صوفی بزرگ کبھی وفات نہ پاتے ، نہ ہی موت سے کسی کو مفر ہے ورنہ کیا آپ اپنے سب  پیارے ماں باپ ،  اولاد اور سچے  دوستوں کو بچا نہ لیں ؟ موت توزندگی کی کتاب کا آخری باب ہے ، جس کو بھی زندگی ملی اسکو مرنا ہے سو احمق ہے ہر وہ شخص جو کسی کی موت پر خوش ہو یا کسی مخالف کی موت کی خواہش کرے کیونکہ موت آپکے ان پیاروں کو بھی آجاتی ہے جن کی عمر خضر کی آپ رو رو کر اللہ کریم سے دعا ئیں مانگتے ہیں
 کسی کی موت آپکی بد دعا سے ہوئی تھی یا نہیں اس بات کی  ہرگز کوئی اہمیت نہیں  ہاں مرنے والے نے  کیسی زندگی گزاری  تھی ،  وہ کونسے کام تھے جو مرنے والا کر گیا،  وہ کیسی اولاد ہے جو جانے والا چھوڑ گیا اور کونسا علم ہے جو پیچھے رہ 
جانے والوں کے کام آ تا رہے گا یہ سب معاملات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں
حقیقت حال یہ ہے کہ" موت کا ایک دن معین ہے" جو آپکےھردلعزیز سیاسی رہنما کے گھر بھی ضرورآ ئے گی اورآپکی  نفرتوں اور بد دعاؤں کے تختہ مشق بنے مخالف سیاسی پارٹی کے رہنما کو بھی اللہ کے حضور حاضر ہونا ہی پڑے گا
 سو آج زندگی کے جس اختتام کو سوشل میڈیائی مخلوق "خدا کی لاٹھی " سے تشبیہ دےرہی ہے یاد رہے کہ یہ "لاٹھی " خدا   کے پیاروں اور اسکے دشمنوں پر یکساں وار کرتی ہے اس لیے اپنی بے دماغ کھوپڑی کو تکلیف نہ دیں اور فضول تشبیہات سے گریز کریں
مجھے نہیں معلوم کہ قارئین پر میری یہ تحریر کوئی اثر ڈال پا ئے گی یا نہیں لیکن مجھ پران تمام سیاسی جگت بازوں کی گھٹیا  ذہنیت کا بہت تکلیف دہ اثر ہوا ہے،   جو اپنے سیاسی رہنما کو "مرشد " کہتے نہیں تھکتے مگرصد افسوس  کہ یہ مرشد انکو دین اسلام کی بنیادی تعلیمات اور اس خطۂ پاک کی اعلی اقدار کا ہلکا سا نمونہ بھی نہ دیکھا سکا
کیا ان گری ہوئی حرکتوں کے ساتھ  "ریاست مدینہ " کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا تھا  ؟  

Monday, April 7, 2025

.......جالا بُنا گیا تھا پتا ہی نہیں چلا ......

انسانی تاریخ میں ہونے والی ہر ایجاد نے ثابت کیا کہ اس کے اچھے اور برے اثرات استعمال کرنے والوں پر مرتب ہوۓ .  پاکستان میں متعارف ہونے والےالیکٹرانک نیوز میڈیا کابھی یہی حال ہے کہ وقت نے اسکے بہت سے فوائد کے ساتھ ساتھ بے انتہا نقصانات پر سے بھی پردہ ہٹایا 
 الیکٹرانک  نیوز میڈیا کا قیام اس دور کی  آرمی اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت تھی جسکا مقصد یقینن عوام کو باخبر رکھنا نہیں تھا ، کیونکہ آمریت کتنی بھی خوشگوار محسوس کیوں  نہ ہو حقیقت میں وہ  ایسا خواب ہے جسکی تعبیر ہر حال میں خوفناک نکلتی ہے سو نیوز میڈیا کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی رہا 
  پاکستان کا اسٹیٹ چینل  حکومتی خبریں دیکھاتا تھا اپوزیشن کو یکسر نظر انداز کیا جاتا تھا اسی لیے جب نجی چینلز پر اختلاف راۓ کو کچھ جگہ ملی تو  نجی چینلز دیکھنے والی عوام جو زیادہ تر ملک کے شہروں اور بیرون ملک قیام پزیر ہے کو یہ خوشفہمی ہو گئی کہ یہ نجی چینلز جو حقیقت میں اسٹیبلشمنٹ کی چھپر چھاؤں میں بنے تھے ، شاید آزاد ہوچکے ہیں اور انپر غیر جانبدارانہ ٹاک شوز اور بے لاگ خبریں دی جارہی ہیں مگر حقیقت کچھ اور ہی رہی 
یہ راز  کھلا بھی جمہوری ادوار میں کہ نہ تو یہ چینلز "آزاد "ہیں اور نہ ان میں کام کرنے والے صحافی ، تجزیہ کار ، نیوز ایڈیٹرز وغیرہ غیر جانبدار اور پروفیشنلز ہیں ایک مخصوص  ایجنڈے پر عمل درآمد کیا جاتا ہے اور ریٹنگ کا بہانہ بنا کر خاص علاقوں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے اور کچھ کو اسی ایجنڈا کی وجہ سے نظر انداز کیا جاتا ہے 
اس بارے میں انگنت تحریریں لکھی جاچکیں ہیں کہ کس طرح پاکستان کی عوام کو باخبر رکھنے کا زریعہ بننے والا میڈیا کم از کم ایک پوری نسل کو یقینی طور پر گمراہ کرچکا ہے  یہ نسل نہ پاکستان کی سیاسی تاریخ جانتی ہے نہ آئین و قانون کے بارے میں اسکو کچھ اتہ پتہ ہے نہ ہی بین الاقوامی سیاسی حالات کے بارے میں انکا 
مطا لعہ ہے نہ معلومات . بس کسی چینل سے آدھی خبر اٹھائی ، کسی دوسرے چینل سے آدھی تصویر دونوں کو
جوڑا اور  سوشل میڈیا پر اپنی گالم گلوچ برگیڈ کے ذریعے پھیلا دیا 
ایسوں سے آپ معلومات ، حقایق ، دلائل پر کوئی بات کر ہی نہیں سکتے مگر سب سے بڑا افسوسناک پہلو اسمیں میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ کردار ہے جس پر آج بھی کچھ  نامور صحافی موجود ہیں جنکو  اس معلومات کی سونامی میں ڈوبتی ابھرتی نسل کی سیاسی تربیت کرنی چاہیے تھی . سیاستدانوں پر یہ ذمہ داری ڈالنی پاکستان جیسے ملک میں تقریبا '' ناممکن ہے کیوں کہ ایک طرف اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سیاستدانوں کے خلاف جھوٹ پر مبنی   ایک مکمل مہم ستر  پچھتر سال سے چلا رہے ہیں دوسری طرف سیاستدانوں میں چھوٹے چھوٹے اختلافات کو لیکر جنگ تک کا ماحول بن جاتا ہے حقیقت یہ بھی ہے کہ ایسی جنگ کو جو سمجھدار سیاستدان "مفاہمت " کے سفید جھنڈے سے پرامن ماحول میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں انکی اس کوشش کو " مک مکاؤ " جیسے الفاظ اور اپنے بھانڈ پن کے ذریعے یہی نیوز میڈیا بدنام کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ جلتی پر تیل ڈالا جاۓ تاکہ اس بھڑکتی آگ کو بیچ کر اپنے بال بچوں کا صرف پیٹ ہی نہ بھرا جاۓ بلکہ انکو بیرون ملک تعلیم اور روزگار کے لیے سیٹل کروا دیا جاۓ 
آپ کے مشاہدے میں بھی آیا ہوگا کہ بہت سے نامور صحافی برسوں تک "صحافت " کرتے کرتے ایک دم سے اسٹیبلشمنٹ کی جمہوریت کش دکان پر بیٹھے دوکاندار کیسے بن گیے ؟ اللہ کا فرمان ہے کہ "تمھا رے مال اور  اولاد میں تمھارے لیے فتنہ ہے " اور یہ حقیقت کھل کر آپ کے سامنے پچھلے دس بارہ برسوں سےآگئی ہے جب کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بہت سے قلم کار اس نیوز میڈیا کی بے راہروی سے پہلے بھی انہی راستوں پر چلے اور اولاد  کی" ترقی " کے بدلے قلم بیچ  دیا 
ناخواندگی نے تو  قلم بیچ قبیلے سے عوام کے ایک بڑے حصے کو بچا رکھا تھا،  سیاست و نظریات پر وہ اپنے دماغ کو استعمال کر کے فیصلے کرتے تھے مگر اسکرینوں پر بیٹھے نام نہاد دانشوروں نے تو  خواندہ افراد کو بھی سیاسی بانجھ پن کا شکار کردیا ہے  ایک ڈگری یافتہ نسل مستقل میڈیا کے گورکھ دھندے میں الجھ کر پختہ عمر کو پہنچ چکی ہے اور ناخواندہ افراد کی بھی ایک بڑی تعداد ہے جو دکانوں، ہوٹلوں حتی کہ کچی بستیوں میں چوبیس نہیں تو اٹھارہ گھنٹے تجزئے  کے نام پر بےمقصد مباحثے اور ذہنی خلفشار کا نشہ استعمال کرتی رہی  ہے  
عوام کے ذہنوں  کو مستقل کسی خوف ،  فتنے اور بے سمت سفر میں مبتلا رکھنے کے لیے یہ چینلز قائم کیے گیے او یقینن یہ اپنے مقصد  میں کامیاب رہے ہیں . بیرون ملک پاکستان کی جو شکل اشرافیہ کا ایک خاص حلقہ  تارکین وطن کے تصور میں جمانا چاہتا تھا،  اب وہ جم چکی ہے اور اگلے کتنے ہی برسوں میں یہ "شکل " دھندلی ہونا بھی ناممکن لگتا ہے 
جس نام نہاد نیوز میڈیا کو ہم معلومات کا زر یعہ سمجھے تھے، اسکرینوں پر بیٹھے نوسربازوں کو تجزیہ کار جانا تھا اور خبروں کو توڑ مروڑ کر جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے والے "اینکروں "کو صحافی سمجھا تھا ، وقت نے ان چینلز کو عنکبوت کا گھر  ثابت کیا.  یہ کمزور ، الجھے ہوے تار سن دو ہزار دو سے نہ پاکستان کی قومی زندگی میں بہتری لا سکے اور نہ کسی مسلے کا حل ڈھونڈ سکے نہ وطن دشمنوں کی درپردہ سازشوں پر سے نقاب اٹھا سکے ان کے لیے آسان تر مال بنانے کا طریقہ یہ تھا کہ جو سیاستدان بدنام نہیں انکو بدنام کرو اور جو مخصوص اشرفیہ کے ہاتھوں بدنام ہوچکے تھے انکو بدنام ترین کردو .جمہوریت کو "مذاق "بنانے کے  لیے پنجاب اور کراچی میں اچھی  ریٹنگ  والی پارٹیوں کے کچھ "چلتے پرزے "اپنے اسٹوڈیو میں منگوا کر ہوسٹ کے ہاتھ میں "ڈگڈگی " دے دو اور بس ! ایسے میں کونسی خبر ؟ اور کونسا تجزیہ ؟  
سو قارئین ! آج آپ کے سامنے ہے کہ مقاصد حاصل ہونے کے بعد وہی "ڈگڈگی "تھا منے والے ہاتھ اب اسٹیبلشمنٹ کو قبول نہیں . جن کو بدنام کرنا تھا کر دیا ،  جس ڈگری یافتہ شہری نسل کو لاعلم رکھنا تھا وہ سیاسی بانجھ پن ،  تقسیم اور نفرت کا شکار ہوچکی اور  جوخبریں یا قبریں چھپانی تھیں وہ چھپا لی گئیں اب مزید "اظہار آزادی " کی نہ ضرورت ہے اور نہ فایدہ سو " پروپر پاکستان "سے کچھ صحافی غائب ہیں اور کچھ پر اداروں کی نظر کرم پڑنے کی  قوی  امید ہے 
ہم میں سے بہت ہیں جو اس آنے والے وقت کی چاپ سن رہے تھے اور اپنی گفتگو اور تحریروں سے عوام کو باخبر کرنے کی کوشش بھی کر رہے تھے مگر ہونی کو کون ٹال سکا ہے ؟  

Thursday, October 20, 2022

بات کرتے ہیں تو اُوقات بتا دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگ کردار سے اب ذات بتا دیتے ہیں

 عمران خان  نیازی .... ...... اِن صاحب پر پچھلے دس  پندرہ سال میں بہت کچھ کہا گیا ، لکھا گیا ،سنا گیا مگر اِنکے وزیراعظم بننے سے لیکر   اِنکی آئینی معزولی کے بعد آج تک  جو کہرام برپا ہے اُسکی نظیر پاکستان کی سیاسی تاریخ اورحصولِ اقتدار کی جنگ میں کہیں نہیں ملتی 

ذاتی طورپرمجھے کرکٹرعمران خان کچھ نہ کچھ پسند تھے بس اتنے ہی جتنا کوئی بچہ  کسی بھی اسٹار کو پسند کر سکتا ہے ، کینسر ہسپتال کے لیے اُنکی کاوشوں نے پسندیدگی کو بڑھایا ، اکثر پاکستانیوں کی طرح میں نے بھی اس مفت علاج مہیا کرنے والے ہسپتال کے لیے فنڈ ریزنگ کی تھی . یہ سب تفصیل بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ سیاستدان عمران خان نے جب سیاست کے میدان میں اسٹار بننے کی کوشش شروع  کی تو ہمیں ان سے اندھی نفرت نہیں تھی  اور نہ کوئی سیاسی ناپسندیدگی تھی 
 اگرآپ پاکستان کی سیاسی تاریخ  پرنظر ڈالیں تو آپکوعوامی منتخب رہنماؤں کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے الزمات ، بہتان طرازی ، میڈیا ٹرائل  کی بہتات ملے گی . اخبارات اور ریاستی ٹی وی ، ریڈیو  کے ذریعے  عوام کے ہردلعزیز لیڈروں پر گند اچھالنے کی  روایت کافی پرانی  ہے اسی  لیے جب  سیاست میں نووارد عمران خان  کی کردار کشی شرو ع ہوئی  تو کم از کم میں نے یہی سمجھا  کہ جیسے بھٹو شہید پر " اِدھرہم  اُدھرتم  "کا جھوٹا الزام لگا کر عوام کے ذہن مفلوج  کرنے کی کوشش کی گئی یا جیسے سائیں جی ایم سید ، باچا خان ، سردار بگٹی شہید  ، شیخ مجیب الرحمان کو جھوٹ ، الزامات اور سازشوں  کے ذریعے غیر ملکی ایجنٹ ، غدار ، ملک دشمن مشہور کروایا گیا ، جسطرح  محترمہ شہید اور انکی والدہ  کی جھوٹی تصاویر گرا کر پنجاب کے عوام کی نظروں میں ُان کا احترام کم کرنے کا گھٹیا کام کیا گیا یا  پھرمحترم  آصف زرداری کو محترمہ سے شادی نبھانے  پر پاکستانی پریس  ہی نہیں غیر ملکی نشریاتی اداروں سے بھی  کبھی مسٹر ٹین پرسنٹ تو کبھی پلے بواۓ مشہور کروایا گیا،تو ہوسکتا ہے عمران خان  پر بھی یہی گُر استعمال کیے جارہے ہوں 
سو بہت عرصے تک ہم نے  اس " حُسن ظن" سے کام لیا مگر پھر دو ہزار چودہ کا دھرنہ آگیا........ اور وہ ایک سو چھبیس دن کسی بھی وطن پرست ، عوام دوست اور سیاسی بالغ کے لیے کافی تھےتاکہ اچھی طرح  سمجھ جاۓ اور جان جاۓ  کہ  عمران خان صاحب کیا چیز ہیں ؟؟ 
اسبار کہانی  "الزمات ، بہتان ، جھوٹ اور میڈیا ٹرائل " کی نہیں  تھی کیونکہ میڈیا نے تو " لیڈر " صاحب کا ایک ایک حرف کسی سنسر کے بغیر ہم تک لائیو  پہنچایا . ہر تقریر ،  سرکار کو دی گئی ہر دھمکی ، حکومت تو حکومت  عمران خان صاحب نے تو  اپنے ساتھ پار لیمنٹ میں بیٹھی اپوزیشن تک  کو گالیاں دیں  اور یہ سب لائیو  دیکھا گیا . دھرنے کے دوران وہ مسلسل  اپنے کارکنوں اور سپورٹرز کو غیر قانونی حرکتیں اپنانے کے لیے اکساتے  رہے ، ملک و قوم کی تباہی اور بربادی کے ایسے ایسے نسخے اسٹیج سے درآمد ہوتے رہے جو پاکستان کے غدار اور ایجنٹ کہلانے والے لیڈروں کے منہ سے ہم نے  کبھی نہ سنے تھے  
 اب سوال یہ تھا کہ آنکھوں دیکھی " مکھی " کون کھاۓ  ؟؟؟  جس طرح "سنی سنائی " پر آنکھیں بند کر کے ایمان لے آنا جہالت ہے ویسے ہی اپنی  آنکھوں سے  ملکی اداروں اور منتخب افراد پررکیک  حملے اپنی آنکھوں سے  دیکھ کر، ا پنے کانوں سے سن کربھی  اگرکوئی موصوف کو  " لیڈر ، رہنما ، یا قوم کا سربراہ " سمجھتا ہے تو اُسکی عقل پر آپ ماتم ہی کر سکتے ہیں 
اور پھر ہم نے ماتم کیا بھی لیکن افراد کی عقل و فہم پر نہیں بلکہ "قومی سلامتی کے اداروں " پر جنکو ہوش میں رہنے کی ہی تنخواہ دی جاتی ہے مگر انہوں نے  ایک بے راہرو ، انا پرست ، جذباتی اور طاقت کے حصول میں بولاۓ ہوۓ آدمی کو ہیرو بنانے کا فریضہ انجام دیا 
یوں تو ایک سو چھبیس دن کے دھرنے اور پھر  سلیکٹڈ کے طور پر جناب عمران خان نے مستقل ایسی باتیں کیں جنکو آپ بونگیاں اور نا عا قبت  اندیشیاں کہہ سکتے ہیں مگر انکے ذہن کی عکاسی کرتے منہ سے نکلنے والے کچھ جملے ایسے ہیں جو اُنکو لیڈر یا رہنما یا مملکت کے امورچلانے والے ذمہ دارانہ عھدوں کے لیے مکمل طور پر نااہل ثابت کرتے ہیں 
  اِن  بیانات میں سے تین قارئین  کے سامنے رکھوں گی اُمید ہے کُھلے دل و دماغ سے غوروفکر کی عادت اپناتے ہوۓ اِن جملوں پرغور کریں گے جو یقینن صرف جملے نہیں تھے کیوں کہ پونےچار سال کی تمام ترحکومتی  پالیسیاں ان جملوں کے گرد گھوم رہی ہیں جوعمران خان صاحب کے کردار کی مکمل عکاسی کرتے ہیں 
تیئس اگست سن دو ہزار چودہ کو بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کو"حکم" دیتے ہیں کہ اپنے پاکستان میں رہنے والے خاندان کو بینک کے ذریعے رقوم مت بھیجیں بلکہ حوالہ ہنڈی ( ناجائز زرا ئع) سے رقم کی ترسیل کریں اسی سال سترہ اگست کواپنے سپورٹرزاورکارکنوں کو بل نہ دینے بلکہ جلا دینےکی ہدایت بھی کرتے ہیں  جب سے ہم نے ہوش سنبھالا بہت سے سیاسی رہنماؤں کو تحریکیں چلاتےاورفوج کی آمرانہ حکومتوں کو للکارتے دیکھا پیپلزپارٹی اپنی شہادتوں، قید وبند، جلاوطنیوں  کے باوجود اور نواز لیگ حالیہ ناانصافیوں سمیت بھی اس قسم کے بیانات دینے سے ہمیشہ گریز کرتی ہیں،  مگر ان دونوں وفاقی پارٹیوں  سے بڑھ کر وہ قوم پرست جماعتیں جواسلام آباد کی پاور پالیٹکس میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں مگر انکی قیادتیں بھی عوام کو وہ شاخ کاٹنے کا درس کبھی نہیں دیتیں، جس پر مستقبل میں اُ نکا آشیانہ بن سکتا ہے  
اس قسم کا  بیان یا تو کوئی مخبوط الحواس  سیاستدان دے سکتا ہے یا پھر ملک دشمن کیونکہ ناجائز طریقوں کی طرف عوام کو اُکسانا ظاہر کرتا ہے کہ آپ اپنی ہوس اقتدار کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں. نہ جانے وہ کون لوگ تھے جنہوں نے پی ٹی آئی اوراُسکے بانی  کو اس قسم کے بیانات کے بعد بھی سن  دوہزار اٹھارہ میں  ووٹ دیے ، اور چاہا کہ ایسا طاقت واقتدار کی بھوک میں اندھا ہوا شخص اتنی بڑی ذمہ داری پر قابض ہوجاۓ، سوہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ  پاکستان کی حالیہ معاشرتی اورمعاشی تباہی میں  خودغرض اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ  ایسے  کم عقل لوگوں کا بھی ہاتھ ہے  
دوسرا بیان جو ایک نہایت ہی دلخراش واقعہ کے بعد عمران خان صاحب نے دیا اسکی اہمیت اور سنجیدگی اس لیے بھی بڑھ گئی کہ موصوف اب اپوزیشن کی سیٹوں سے اٹھ کر وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوچکے تھے سیلیکٹڈ تھے یا الیکٹڈ مگر بیان نہایت ہی بے  حسی اور بزدلی پر مبنی تھا کسی بھی غیر جانبدار اور ہوش و حواس رکھنے والے شخص سے پوچھا جاتا کہ ملک کے ایک کونے میں گیارہ محنت کشوں کو انکے عقیدے کی وجہ سے ایک دہشتگرد گروہ نے بہیمانہ انداز میں موت کے گھاٹ اتار دیا ہے لواحقین لاشیں دفن کرنے سے انکاری ہیں کہ ایسے واقعات انکے فرقے اور قوم کو روز بھگتنے پڑتے ہیں نہ انصاف ملتا ہے نہ ریاست کی طرف سے تحفظ . سخت سردی اور بھوک پیاس کے ساتھ  بےبس اور مظلوم  اقلیتی فرقےکی  خواتین اور بچے اپنے ملک کے حاکم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے سر پر تحفظ کی چادر رکھو نہتے مرد  وزیراعظم سے انصاف کا وعدہ چاہتے ہیں وہ منتظر ہیں کہ حاکم وقت جو اقتدار لینے سے پہلے یہ  روایت  دہراتے نہ تھکتا تھا کہ " دریا کنارے اگر کتا بھی پیاسا مرا تو عمر بن خطاب کی جوابداری ہوگی  " آج گیارہ مظلوم ، بیگناہ محنت کشوں کے لواحقین کو انصاف اور تحفظ تو کیا دیتا ایک معمولی  فوٹو سیشن بھی کروانے کو تیار نہیں جسمیں  مظلوموں  کے سروں پرہاتھ رکھ کر دادرسی کرتا دیکھائی دیتا    
جس بےرحمی اورتکبر سے"مملکت خدا داد کےحاکم " نے مچھ ، بلوچستان کے شہید مزدوروں کے لواحقین کو"بلیک میلر" کہا وہ شاید پاکستان توکیا دنیا کی تاریخ میں بھی انوکھا واقعہ ہے. ایک طرف مظلومین اور انکے لواحقین کی ہتک کی گئی تو دوسری طرف پاکستان کی مضبوط کرسی پر بیٹھےغیر ذمہ دار حاکم  نے اپنی سیکیورٹی کو انتہائی اہمیت دے کرسواۓ عوام کومزید غیر محفوظ ہونے کا  احساس دلانے کے کچھ نہیں کیا 
آج جو لوگ  بھی ایسے نااہل ، خودغرض اور بزدل شخص کو "رہنما " سمجھتے ہیں ان سے میرا سوال ہے کہ  کیا آپ ایسے گھر میں رہنا پسند کریں گے جسکا سربراہ آپکو مشکلوں اور پریشانیوں  میں صرف اس لیے چھوڑ دے  کہ میری زندگی آپ سے زیادہ اہم ہے اور اگر آپ مجھے  کسی ناگہانی میں مدد کے لیے پکاریں گے تو میں آپکو " بلیک میلر " کہہ کر ہر ذمہ داری سے اپنی جان چھڑا لوں گا .  یقین جانیں آپ ایسے آدمی کو سربراہ تو کیا اپنے گھر میں ملازم تک نہیں رکھیں گے نہ ہی گھر کا کوئی ہوش و حواس والا  فرد ایسے آدمی پر کبھی 
اعتبار کرے گا
جیسا کہ میں نے بلاگ کے شرو ع میں بتایا کہ عمران خان صاحب کے ایسے انگنت  بیانات ہیں جنکو سنجیدگی سے لیا جائے تو شاید اوسط درجے کا شعور رکھنے والا بھی انکو وزیراعظم تو کیا کسی سیاسی جماعت کا اہم رکن بھی نہ دیکھنا چا ہے مگر ہماری قسمت دیکھیے کہ کس طرح پاکستان کے طاقتور اداروں اورانکے زیر تسلط پھلنے پھولنے والے نیوز میڈیا نےایک غیر ذمہ دار آدمی کو" ذمہ دار، ایماندار اور اہل " بنا کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی حقیقت میں یہ آدمی نہ ذمہ دار تھا نہ ایماندار اور نہ اتنے بڑے  منصب کا اہل 
 اب آئیں آج کے بلاگ میں سابقہ وزیراعظم اور حالیہ " حقیقی آزادی " کے روح رواں کے تیسرے اور آخری بیان کی طرف جو انہوں نے اپنی آئینی معزولی کے بعد دیا .اپنے دلپسند یوٹیوبرز اور خاص الخاص جرنلسٹس نما کارکنان  سے بات چیت کرتے ہوےفرماتے ہیں " چوروں کو عنانِ حکومت دینے سے بہتر تھا کہ پاکستان پر ایٹم بم   گرا دیا جاتا " مطلب اگر آپ کے ہاتھ میں اقتدار نہیں تو پھر بائیس کروڑ کو زندگی جینے کا حق بھی نہیں . آپ نے کبھی کسی اٹامک پاور کے صدر یا  وزیراعظم کا ایسا بیان سنا یا پڑھا ہے ؟؟
کیا کوئی عوام کا  "رہنما " کہلانے والا سوچ بھی سکتا ہے کہ میرے ہاتھ میں اختیار اور طاقت نہیں تو بہتر ہے تمام لوگوں کو ملیا میٹ کردیا جاۓ چاہے وہ میرے خلاف ہوں یا میرے اپنے ساتھی  ، بستیوں کو اجاڑ دیا جاۓ اور ملک کو تباہ و برباد کردیا جاۓ کیونکہ طاقت کا سرچشمہ اب میں نہیں کوئی اور ہے 
اگر آپ اس بیان کوسرسری  بھی لیں تب بھی یہ کسی پاگل شخص  کی بڑ لگ رہی ہے اور کسی پاگل آدمی کو کوئی مزید پاگل ہی اپنا "لیڈر " قرار دے سکتا ہے کسی  ذی ہوش  کا یہ کام نہیں 


Sunday, December 26, 2021

عجائب خانہ دانش وراں



ضروری نہیں کہ جس بلاگ کا عنوان خشک ہو اسمیں پاۓ جانے والی معلومات بھی آپکےحلق سے نہ اتریں
 مثلا آج کا میرا بلاگ آپکو یقینن بور نہیں ہونے دیگا اور وجہ یہ ہے کہ اس میں عجائب خانے میں آن لائین ہوۓ کچھ  عظیم  دانشوراں کا تذکرہ موجود  ہے ... جی یہ درست  ہے کہ  اُنکا نام تو شاید اِس بلاگ کی زینت نہ بن سکے مگریقین کریں اُن  باکمال ٹویپس  کا ذکرِ خیر ڈھکے چھپے لفظوں میں  یہیں کہیں موجود ہو سکتا ہے جو آپکی ٹا ئم لا ئین پر اپنی دانش کے موتی بکھیرتے رہتے ہیں۔ 
ذرا اطمینان سے ٹِک  جائیں ،ٹویٹر اور فیس بک پیج پرتانکا جھانکی کچھ پل کے لیے موقوف کریں چاۓ کی پیالی بنا کر بیٹھیں کیونکہ ہوسکتا ہے بلاگ کے درمیان سردرد کی وجہ سے آپکو چاۓ کی طلب ہو مگر اپنے خوبصورت ہاتھوں سے چاۓ بنانے والی بیگم ، بہن ، بیٹی یا  پھرکسی خوشقسمت خاتون ٹویپ کے شوہر یہ کہہ کر روزانہ کی طرح انکارکردیں کہ " نوکر نہیں ہیں تمہارے ،انہی سے مانگ لو جنکی تعداد بڑھنے پر تمہاری آنکھیں چمکتی ہیں "....  مجھے علم ہے جناب کہ  گھرکےافراد  خاص کر جو سوشل میڈیا کے نشے میں مبتلا نہ ہوں  وہ  میرے اور آپکے فالوورز کی تعداد سے کس قدرحسد  اور جلن محسوس کرتے ہیں ...... اتنا  تو بجلی کےجانےاوربجلی کے بِل آنےپرغصہ سے بَل نہیں کھاتے جتنا ہمارے فالورز کی تعداد پرپُھنکارتے رہتے  ہیں 
 خیر قصہ کوتاہ کہ اس عجائب خانہ میں قدم  رکھے اس  سال مئی میں  نو سال پورے ہوجائیں گے  اس دوران شاید ہی پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کے سپورٹرز سے مڈ بھیڑ نہ ہوئی ہو اور شاید ہی کسی لسانی اکائی کی فطرت و عادات کا بھانڈا اس چوک پر آنکھوں کے سامنے نہ پھوٹتا  دیکھا ہو
یھاں نام لیے بغیر کچھ   " دانشوراں " کا ذکر خیر کرتی ہوں نام اس لیے نہیں لوں گی کہ ادب کا تقاضہ یہی ہے اور ذکر اس لیے ضرور کروں گی کہ اچھا یا برا ان افراد سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا 
اس وقت جب مجھے بلاک اور اَن فالو ہونے اور کرنے کا صفر تجربہ تھا ایک صاحب جن کے بارے میں کچھ عرصے بعد پتہ چلا کہ " چوک ٹویٹر " میں اپنی دانشوری کی وجہ سے کافی مقبول تھے اورایک اچانک نظریاتی ہوجانے والی سیاسی جماعت کی سوشل میڈیا ٹیم کے موجد کی شہرت بھی رکھتے تھے، اللہ جانے مجھ ناچیز پر چوک میں قدم رکھتے ہی  کیوں مہربان ہوے فرمایا مجھے "بلوچوں کے حقوق سے بےانتہا دلچسپی ہے " شاید یہی بات فالونگ کا سبب تھی مگر انکی دلچسپی شاید صرف "حقوق  کی  بھیک مانگنے" پر تھی اور میں نے  حقوق چھیننے کا ذکر کردیا  محترم نے انفالو تو کیا سو کیا  دوسروں کو ترغیب دی کہ " دفع مارو سو  میں تے مائی نوں انفالو کر دتا ایویں دی بک بک اے 
 ہیں ؟؟؟؟ کوئی پوچھے انکل جی ! یہ اوپن فورم ہے،  بالغ افراد اپنی مرضی سے کسی کو فالو کسی کو انفا لو کرسکتے ہیں آپ کی تبلیغ کی بھلا آپ ہی  جیسے دوسرے بابے کو کیا ضرورت ہے ؟؟
سال گزرا  تو مزید دانشوروں کا سامنا ہوا
 ایک خودکار ذھانت کا منبع محترمہ  اس عجائب خانہ میں موجود ہیں جنکا  قبلہ اس تیزی سے بدلتا رہا  کہ آپ ابھی  انکی ٹویٹ پر کمنٹ دینے لگیں اور فون کی گھنٹی بج جائے کالر آئی ڈی پر رانگ نمبردیکھ کر آپ  ٹویٹر پیج کی طرف دوبارہ  پلٹے اور یہ کیا ؟؟؟ محترمہ دانشور صاحبہ نے "سیاسی قبلہ " بدل دیا اللہ جانے زندگی کی گاڑی  میں بریکیں بھی ہیں یا نہیں  ؟ 
  اِن  ہی جیسے ہزاروں ہزار فالوورز والے بڑے  بڑے نام اکثر لوگوں کی اچھی باتیں آگے ریٹویٹ کرنے میں اس قدر کنجوسی برتتے ہیں کہ بہت بار غیرت دلائیں تو بھی بات کو ٹال کر آگے نکل جاتے ہیں وجہ یہ ہے کہ ہمارے ٹویٹس اور کمنٹس ہی تیسرے دن انکی ٹویٹ بننے ہوتے ہیں اگر آج ہمارا کمنٹ ر یٹویٹ کردیا تو کل "کاپی/ پیسٹ " پر واہ واہ کیسےسمیٹیں گے؟ 
ایسی ہی ایک اور صاحبہ سے کافی لمبی سلام دعا رہی اور باوجود اسکے کہ سیاسی نظریات کا فرق میرے حلق سے کم ہی اترتا ہے لیکن انہوں نے "دھرنہ سیاست "کے دوران سیاسی محبت کی کچھ ایسی پینگیں بڑھائیں کہ میں بھی "جھولے "لینے پینگ پر بیٹھ گئی سمجھ جب آئی جب محترمہ نے  عمرانی دھرنہ الٹنے کے بعد نہ صرف پینگیں چڑھانی چھوڑ دیں بلکہ کشمیر الیکشنز کے دوران ایک عدد دھکے سے مجھے پینگ سے گرا کر بلاک دے مارا
خیرقدرت بھی ایسے میں دورکھڑی مسکرا رہی تھی تیسرا سال ہی آیا تو سنتے ہیں "ووٹ کو عزت دو "کی تسبیح پڑنی پڑی اسی لیے کہتے ہیں کہ غرور کا سر نیچا
ایک "فیفتھیے "ہیں جو چہرے سے تو لڑکے بالے لگتے ہیں مگر جس ڈھیٹائی سے ہر بار اپنا اکاؤنٹ سسپینڈ ہونے کے بعد دوسرا اکاؤنٹ بناتے ہیں اور پھر جمہوریت پسندوں اور خاص کر فیمنسٹ خواتین کے خلاف ٹویٹر اسپیسزکی  محفل سجاتے ہیں اس سے کافی "پکی عمر کے کھوچل مرد " لگتے ہیں 
مگر نہ جانے کھوچل ہیں یا بنتے ہیں کیونکہ یہ جانتے بوجھتے کہ میں بہت بار انکو ٹیگ کر کے حساس ادارے کی  بے حساسیت پر ٹھیک ٹھاک سنا چکی ہوں مگر خاموشی سے آکر فالو ضرور کرتے ہیں اور کبھی بھی فالو بیک نہیں مانگتے شاید " جاسوسی " کرنا چاہتے ہیں مگر کر نہیں پاتے کیونکہ انکی جاسوسی کے لیے میرا جاسوس ہونا ضروری ہے جو اُنکی بد قسمتی سے میں نہیں ہوں۔  
 اصل دنیا میں خواتین کو "دانشوری " کے وہ تمغات نہیں دیے جاتے جو کہ انکا حق ہیں اور یہی حال  اس "الفاظ "کی دنیا  کا ہے جہاں  آپکو خاتون ٹویپس اکثر دانشوروں کے کم شہرت یافتہ درجات میں ملیں گی یھاں بھی "ٹاپ "پر ایسے مردوں کا قبضہ ہے جوجھوٹی خبروں اورافواہوں  کو چڑیا کوے کی "چغلیاں " کہہ کر بیچتے ہیں اور لوگ ہیں کہ خریدتے رہتے ہیں . ایسے مردوں کی تعداد دائیں بازو کی دونوں  سیاسی پارٹیوں میں برابر کی ہے اور دلچسپی کی بات یہ کہ لسانی اکائی دونوں کی مشترکہ ہے ظاہر ہے زیادہ آبادی میں "دانشوروں " کی تعداد بھی زیادہ ہی ہوگی بھلے سے انکی دانشوری دو نمبر ہو  ایسے دانشوروں  کی پہچان یہ ہے کہ دانشوری جھاڑتے جھاڑتے کبھی اگر کوئی اونچ نیچ ہوجاۓ تو انکے کی بورڈ سے پیچ پر اور انکے منہ سے اسپیسز پر" پھول جھڑتے " صاف نظر آتے ہیں جن کو انکے ہزاروں فالورز مالا بنا کر جپنا شرو ع ہوجاتے ہیں 
بیرون ملک ریھایش پزیر دانشوروں کو  یہ کمال  حاصل ہے کہ ساتھ ساتھ یہ  بتانا " میں پچھلے تیس سال سے امریکہ  میں مقیم  ہوں " اور ساتھ ساتھ  یہ دکھڑا کہ  اپنے اندر سے "پاکستانی سیاست " نہ  نکال سکا  ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاۓ کسقدر محب وطنی ہے کہ تیس سال سے چھلک رہی ہے اور اسکا اچھا معاوضہ  تبدیلی سرکار نے "اوورسیز ووٹ "کا حق دیکر ادا کیا ہے 
تبدیلی سرکار کے ساتھ ساتھ بہت سے پاکستان میں " ووٹ کو عزت " دلوانے کے جنوں میں مبتلا دانشور بھی بیس ، تیس سال سے امریکہ کا پانی پیتے ہیں اُنکی جادوگری کچھ یوں ہیں کہ جب میں ٹویٹر پر وارد ہوئی تو دانشور صاحب جیالے سمجھے جاتے تھے پھر نہ جانے امریکہ میں بیٹھے بیٹھے " ایکس جیالے " کیسے بنے اور پھر کہانی میں اصل ٹویسٹ آیا اور محترم امریکہ میں رہتے ہوے پاکستان کے ووٹ کو عزت دینے لگے جب کہ یہ بات ابھی میاں صاحبان اور انکی دختر نیک اختر بھی نہیں جانتی تھیں۔   ویسے امریکہ کے ووٹ کو عزت دینے کا مرحلہ آیا تو محترم کا خیال تھا  جس کا ووٹ نیو یارک میں ہو اسکو لاڑکانہ میں ووٹ دینا چاہیے اور جس کو ہیلری کلنٹن کی بجائے برنی سینڈرز کے حق میں نعرے لگانے ہیں اس سوشلٹ کو صرف جئے بھٹو پر اکتفا کرنا ہوگا۔  خیر سے ڈرامے کا اینڈ بہت ہی "منورنجن "لیے تھا کہ موصوف کے عزت دار ووٹ کی وجہ سے سوشلسٹوں کے کیمپ میں تو آگ بھڑک ہی گئی مگر امریکی اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ اورموصوف کی  چہیتی ہیلری  بھی شکست کھا گئیں سنا ہے لوگ ان سے بہت عرصے تک اس شکست کی وجوہات پوچھتے  رہے مگر صاحب  ٹالتے رہے
ویسے یہ "ایکس جیالہ  " صرف دو چار شخصیات کے ساتھ نتھی نہیں کیا جاسکتا بہت سے دانشوران اپنی گفتگو کا آغاز اسی جملے سے کرتے ہیں کہ "ہم نے تو بنائی تھی پی پی پی " اور اسکے بعد انکے چراغوں کی کم ہوتی روشنی بتاتی ہے کہ ایکس کہلانے  کی وجہ  دراصل یہ ہے کہ وہ جب چاہے اپنی پٹری بدل لیں  اور جو سیاسی سورج انکے حساب سے طلوع ہوتا ہے اسکے آگے سجدہ ریز ہوجا ئیں  ایسے رہنے میں ایک فایدہ فالورز کی بڑھتی تعداد اور رنگ برنگی ٹویٹس کی آمد ہے 
ویسے یہ "ایکس " والا معاملہ مجھ پر  ذرا ہفتہ دس دن بعد کھلتا ہے جب سیاسی پھڈا ہوتا ہے اور چوک  میں بھانڈا پھوٹتا ہے
ایک اوورسیز "ووٹ کی عزت " کو کینڈا جاکر پہچانے، خیر سے پاکستان میں "دھواں " اڑاتے اڑاتے عوام کے "مالک " بن بیٹھے تھے.بڑی اسکرین پر جمہوریت کو گالی اور سیاستدانوں کو عفریت ثابت کر کے اپنے ہی چوکیداروں کے ہاتھوں مروانے پر شہرت پانے والے جمہوری ملک میں جاکر ایسے تبدیل ہوے ہیں کہ لگتا ہے ان پر بھی کسی "پیرنی " نے تعویز کردیا ہے شاید ہی کسی پر ایسی مثبت تبدیلی آئی ہو جیسی ان دانشور حضرت پر آئی ہے .آپ سب سے درخواست ہے کہ بآواز بلند صاحب کے لیے ماشاللہ اور چشم بددور کا نعرہ لگائیں
 بہت سوں نے اپے  یوٹیوب چینلز کی دکان  بھی اسی طرح بڑھوا لی ہے بقول شخصے " ہر ایک کے ساتھ پاپی پیٹ لگا ہے " اور یوٹیوب چینلز سے پاپی پیٹ کو اگر بھرنا ہے تو زیادہ  سبسکرائبرز چاہیے اور زیادہ  سبسکرائبرز  کے لیے بڑی مارکیٹ  میں "اِ ن " ہونا پڑتاہے اور بڑی مارکیٹ کے لیے بڑے صوبے کی بڑی آبادی کے دل میں گھر کرنا پڑتا ہے آج کل کی پود نہیں جانتی مگر بڑے صوبے کی ماضی میں ہٹ ہوئی فلمیں بتاتی ہیں کہ بڑے بھائی صاحب کو نوری نتھ اور مولا جٹ قسم کی سیاست پسند ہے  سو یوٹیوب چینلز کا فوکس بھی تمیز دار سیاستدانوں اور بھائی چارے کی  سیاست کی نسبت لندن میں بیٹھے ہیرو کی بھڑکیں ،جاتی عمرہ کی ہیروین کے ایک گانے میں پندرہ پھڑک دار ڈریسز اور ولن کے روپ میں کامیڈین  کے لہراتے گنڈاسے  اور اس کے  ہمنواؤں کی  گالیوں بھرے ٹھیکے پر رہتا ہے جن دانشوروں کوآپ  صرف چار سال پہلے انکی غیر صحافتی غیر جانبداری  کی وجہ سے "آگہی  ایوارڈ " دینے کو تیار تھے انکی آگہی  تو انہوں نے  لسی کے گلاس میں پیڑے ڈال کر پی لی آج جب انکو نیند سے جگایا جاۓ تو ہڑبڑا کر اٹھتے ہیں اور مجھ سے پوچھتے ہیں " کون ہو ؟  اچھا اچھا ٹرول ہو..... ماشاللہ  یعنی اب جوآپ سے سوال پوچھنے کی جرأت کر بیٹھے وہ "ٹرول" اور جو آپکو واہ وہ کہے وہ باشعور
 اورجو آپکو "لفافہ " کہہ دے  وہ ؟
حد تو یہ ہے کہ وادی مہران جہاں کے  باسی اپنے سیاسی شعور اور اختلاف راۓ پر برداشت میں نسبتا '' بہتر خیال کیے جاتے ہیں " بڑی مارکیٹ " میں دکان چلانے کے لیے وہ بھی اپنی اوپر کی منزل کراۓ پر دینے کے لیے راضی ہو گیے ہیں اور برداشت کا یہ عالم ہے کہ ایک سوال میں چھ "دانشوارن " کو ٹیگ کیا جاۓ تو
 صاحب ِعالم چھ میں سے واحد ہوتے ہیں جو جواب تو کیا دیں گے اپنے دروازے ہی سوال کرنے والے پر بند کر دیتے ہیں یقین نہیں آتا کہ کبھی انکے بزرگوں نے بھی ہندوستان سے آنے والے مہاجرین پر اپنے دروازے کھولے ہونگے خیر بڑی مارکیٹ کے چکر میں کراچی کے ہمنواؤں کو بھی سیدھی ستھری نہیں سناتے انکی دانش کے "پھول " ہمیشہ ایک پتلی گردن والی سیاسی پارٹی پر جھڑتے ہیں جس کے رہنما نے اپنے نمک کے بارے میں پہلے ہی قوم کو آگاہ کردیا ہے کہ جو جو ہمارے برانڈ ڈ نمک کا سالن  کھاۓ گا اپنا پیٹ ناک تک  بھرنے کے بعد سالن کی خالی پلیٹ تاک کر ہماری ہی پیٹھ میں مارے گا سو مبارک ہو وادی سندھ  سے بڑی مارکیٹ پر حکومت کرنے والے بزرگوار کو کہ انہوں نے اس پیشگوئی کو حرف بہ حرف پورا کیا ہے 
ویسے اس مرحلے پر ہمیں ہرگز بھی خواتین دانشوروں  کے درمیان جم کر کھڑی ،قلیل عرصے میں نام کماتی ان خاتون کو نہیں بھولنا چاہیے جو اپنی " غزل " سنا کر داد تو وصول کرنا چاہتی ہیں مگر تنقید کرو تو انکو " کتوں کے بھونکنے " کی آوازیں آنا شرو ع ہوجاتی ہیں محترمہ تین سال پہلے ہی بلاک کر گئیں جب انکو کہیں سے بھونکنے کی آوازیں نہیں آتیں تھیں ظاہر ہے تین سال پہلے صرف آٹھ دس ہزار فالورز تھے جن کو ڈھائی لاکھ تک پہنچانے کے لیے اُنکو کسی نہ کسی کو پہلے "جانور" بنانا ہوتا ہے سو انہوں نے بنادیا اور بدلے میں لاکھوں فالوورز پا لیے اس موقعے پر دانشور صاحبہ کو دلی مبارک باد اور یہ شکوہ کہ 
غیروں سے کہا تم نے ، غیروں سے سنا تم نے ....
کچھ ہم سے کہا ہوتا ، کچھ ہم سے سنا ہوتا
اِن غیروں کو ہیومن رائٹس سے کتنی دلچسپی رہی میں نہیں جانتی مگریہ  دانشوران عجائب خانہ  اپنےغائب ہونے سے بازیاب ہونے اور پھرباحفاظت ہجرت کرنے کے دوران ہی انسانی حقوق کے چمپئین کہلانے لگے وجہ تو بنتی تھی کہ آواز اٹھانے پر اٹھاۓ گیے مگراِن کی کہانی اُن ہزاروں جبری لاپتہ افراد سے بلکل مختلف ہے جن میں سے بہت سے تاریک راہوں میں مارے جاچکے ہیں اور بہت سے اپنی گویائی کھو بیٹھے ہیں ۔ زیر ِ تحریر دانشور صاحب جنکو گالی گلوچ اور اپنے ہی حق میں آواز اٹھانے والوں پر تبرے بھیجنے کا شوق شاید بچپن سے تھا یا ہوسکتا ہے با حفاظت  بازیابی کی اولین شرایط میں سے ہو، ٹویٹر کے لبرل ،  جمہوریت  پسندوں اور نئے نئے انقلابیوں میں بے پناہ شہرت رکھتے ہیں "اپنے آپ  میاں مٹھو" کی جیتی جاگتی تصویر ہے اپنے پیج ہیڈر کو اپنی ترجیحات کے حساب کتاب سے بدلتے ہیں جن پر آجکل واری صدقے جاتے ہیں وہ چار پانچ سال پہلے تک اِنکا " سر تن سے جدا " کرنے پر زور دے رہے تھے جنکو یہ بازیابی کے بعد سے گالیاں نکالتے ہیں وہ انکے چہروں کے پلے کارڈ اٹھاۓ اِنکی بازیابی کے نعرے لگاتے پاۓ جاتے تھے بس یہی تقدیر کے ہیر پھیر ہیں اور صرف حقیقی دنیا میں ہی نہیں عجائب خانہ کے صفحات پر ۔موجود  بڑے بھائی کی اکثر اولادیں بھی  اسی قسم کی  "احسان مندی" کی قائل  ہیں ۔
بلوچستان کے بارے میں مشہور ہے کہ یھاں  ایک کٹورا پانی کی قیمت سو سال وفاداری ہے مگر ان ہیومن رائٹس کے  لاپتہ و بازیاب اور پھر باحفاظت مہاجرین بنے  چئمپینز نے اپنی بازیابی  کے لیے اٹھائی جانے والی آوازوں کا معاوضہ  الزامات ، گالیوں, سازشی تھیوریوں  اور آخرمیں  فحش کلامی کی صورت میں دیا۔۔۔وفاداری توکیا کرنی تھی ؟ 
 دلچسپ امر یہ ہے کہ دیس میں اگر آپکو تبدیلی کے ساتھ چمٹے دانشور بآسانی دستیاب ہیں جو بڑی فراخدلی سے جھوٹ پر جھوٹ ٹویٹ کرتے ہیں تو " بدیس سے آپکو" شہری سندھ   " کو عقل و دانش کے ایفل ٹاور ثابت کرنے والے ایک دانش کے تاج محل بھی ملیں گے جنکی پہچان انکی ٹویٹ کے آخر میں لکھا  لفظ " سوچیے " ہے اور وہ اپنے ہر الزام ، ہر جھوٹ،سچ اور ہر تمسخر کے آخر میں سوچیے کا تڑکا ایسے لگاتے ہیں جیسے اڑد کی دال کو لہسن کا  تڑکا لگا رہےہوں۔انکی اکثر ٹویٹس میں دانش وری کا میعار یہ ہے کہ جو قومیں انکو پسند نہیں انکا پیٹ بھر کر تمسخر اڑایا جاۓ اور ٹویٹس کے آخر میں "سوچیے " کہہ کردانشوری کا جنازہ بھی اٹھا دیا جاۓ
بلاگ طویل ہو چکا جب کہ بہت سے ناموروں  کا ذکر ابھی کیا ہی نہیں ، خیر چلتے چلتے پوچھنا یہ تھا کہ دانشوروں کےاس بےلاگ تعارف پرآپکی کیا راۓ ہے؟ اگرتوآپ مسکرا رہے ہیں تو ثابت ہوا آپ کو" دانشوری" کا صفر تجربہ ہے اور اگر آپکے سر میں ہلکا ہلکا درد شرو ع ہے تو یقین کریں آپ دانشوری کی سیڑھیاں چڑھنا شرو ع ہوچکے ہیں اور اگرآپکےمنہ سےاس وقت  لکھاری کے لیے "پھول " جھڑ رہے ہیں تو آپ کو مبارک ہوآپ وہی  دانشورہیں جسکا ذکرخیراس بلاگ میں موجود ہے 
گزارش ہے کہ  مجھے بلاک کر کےثواب دارین کمائیں 
شکریہ 

Thursday, November 4, 2021

چیف کے نام "کھلا خط "

محترم چیف صاحب 

السلام و علیکم 

بعد سلام عرض ہے کہ میرے والد صاحب فوج میں نہیں بلکہ میرے والد کے والد اورپھرانکےوالد کوئی بھی فوج میں نہیں اورجتنا شجرہ نسب  والدین  نے متعارف کروایا اس میں کہیں کسی فوج میں بھرتی کا ذکر نہیں اسی لیے اپنی " تلوار " یعنی  قلم تھاما اورآپ  کو خط لکھنے کا ارادہ باندھ لیا . پشت درپشت سویلین ہونے کا سب سے بڑا فایدہ یہی ہے کہ " ڈسپلن "کے نام پر انسان اپنی شخصی آزادی کا سودا نہیں کرتا سو یہ سودا میں نے نہیں کیا 

 محترم چیف صاحب عرض ہے کہ ایک عجیب و غریب خبر کی گُونج ہر طرف ہے کہ آپکی ہی برادری کے ایک ریٹایرڈ صاحب کے بیٹے نے آپ کو خط لکھا اور آپ پر تنقید کی اور سنا ہے کہ آپ نا راض ہو گئے یہ خبر ہی اِسقدر حیرت انگیز ہے کہ مزید تفصیل میں جانے میں مجھے کافی وقت لگا

پہلے تو یہ یقین ہی نہ آیا کہ  جس ملک کے نام کے ساتھ " جمہوریہ " لگا ہے وہاں " خط " لکھنا بھی کوئی جرم ہوسکتا ہے تحریر سے اپنا مقصد بتانا ، تعریف کرنا یا تنقید کرنا تعلیم یافتہ معاشروں کی نشانی ہوتی ہےاور اپنی راۓ مکمل آزادی سے کسی شخص یا ادارے تک تحریر و تقریر سے پہنچانا پہلا " جمہوری حق " ! جس سے نہ کوئی  قانون روکتا ہے نہ آئین مگر خبر کی تفصیل سے پتہ چلا کہ  آنجناب کو حسن عسکری کے خط پر اعتراض تھا سو حسن  پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلا ، حسن کو بنیادی انسانی حقوق سے  محروم رکھا گیا اور اِنکی مرضی کا وکیل ِصفائی فراہم نہ کیا گیا، میڈیا اور پریس کو اِس خبر پر  خاموشی کا حکم یقینن دیا گیا تھا ورنہ اینکر اور تجزیہ کار نامی مخلوق آزاد ہوتی تو اس مقدمے پر سات نہ سہی ایک شو تو ضرور کر گزرتی اور پھر بین الاقوامی خبر ایجنسی سے عوام کو اس "کورٹ مارشل "اور پانچ سال کی قید بامشقت کی خبر ملی جو صرف ایک  "خط لکھنے کی سزا "  ہے

  مزید آگے بڑھیں تو دیکھتے  کیا ہیں کہ ایک عوامی نمایندہ جو عوام کے ووٹوں سے قومی اسمبلی میں آئین کا حلف اٹھا کر بیٹھا تھا اس آئین کا۔۔۔۔ جس کی قسم کھا کر آپ جان دینے کے وعدے کیے بیٹھے ہیں،  اس نمایندے کو خط لکھنے کی بھی مہلت نہ دی گئی بلکہ اِس نے تو صرف چند جلے  کٹے  جملے ہی ادا کیے تھے وہ بھی نہ کسی بین الاقوامی فورم پر نہ کسی غیر ملکی نشریاتی ادارے پر بلکہ اپنے جیسے نہتے عوام کے سامنے اپنے دل کا حال سنایا تھا .وہ عوام جو اس نماندے اور آپکو آپکی تنخواہ دیتے  ہیں سو اگراپنے ہی  "مالکوں " کے سامنے کوئی اپنی  دکھ  بھری ِکتھا سنا کر ہمدردی حاصل کرتا ہے تو جناب والا یہ کونسا جرم ہے ؟؟ کون قتل ہوگیا تھا علی وزیر نام کے ممبر اسمبلی کی تقریر سے ؟ کس کا گھر بار جلا ؟ کون لُٹ گیا تھا چند الفاظ اور نعروں سے ؟ کہ علی وزیر آج تک جیل میں ہے اور کوئی عدالت ضمانت دینے کوبھی تیار نہیں کیونکہ آپ کا فرمان بابت  منتخب ممبر وزیرستان جاری ہوا کہ "توہینِ بسالت " پر عوامی نمایندہ آپ  سے معافی مانگے اور اپنے کیے پر شرمندہ ہو  مگر کیوں شرمندہ ہو ؟ کس بات کی معافی مانگے ؟ کیا اس ملک کے نام کے ساتھ " اسلامی" نہیں لکھا اور بولا جاتا ؟  اور کیا قرآن  میں اللہ کا فرمان نہیں کہ  "اللہ تعالیٰ بری بات کُھلم کھلا کہنا پسند نہیں کرتے،سوا ئے کسی مظلوم کے"۔ سورۃ النساء ۱۴۸ اور کون ہوگا اس سے بڑھ کر مظلوم جسکا سارا خاندان دہشتگردی کا شکار ہوا اور اس نے بندوق نہیں اٹھائی مگراپنی تحریر و تقریرکی آزادی اوراپنے حلقے کےعوام کی ُپرامن آواز بننےکےلیے آئین پر قسم اٹھا لی۔ 

سو جناب میرا آپ سے سوال ہے کہ یہ کس قسم کی ریاست ہے، کونسا آئین ہےاور کیسی مملکت ہے کہ جہاں خط لکھنے اور تقریر کرنے پر سخت   قید و بند کی سزائیں  اور معافی ناموں کے مطالبے ہیں جب کہ  ستر ہزار معصوموں کا لہو پینے والے ڈریکولا کو پچھلے دروازے سے فرار کی کھلی چھوٹ ہے ، ١٢٦ دن تک  دار الحکومت کو جام کر کے ملک  کی معیشت ، سیاست اور امن و امان کو زمیں بوس کرنے والوں  کو تخت شاہی پر زبردستی جلوہ افروز کیا جاتا ہے اور یونیفارم میں ملبوس صوبائی چوکیداروں کے قاتلوں کو نہ صرف دعوت مذاکرات ہے بلکہ قاتلوں اورانکے سرپرستوں کو کبھی سرعام  لفافے تو کبھی خاموشی سے گلدستے عنایت کیے جاتے ہیں اگراب  یہی ریاست پاکستان کا آئین اور قانون  بن چکا ہے تو آپ سے درخواست ہے کہ اس "تبدیلی " کا  اعلان اپنے چنیدہ وزیراعظم اورانکی کابینہ کے ذریعے گلی گلی کروادیں تاکہ وہ جو قانون اور آئین کی پاسداری میں " بکری " بنے ہوۓ ہیں وہ بھی ہمت پکڑیں اورخط وکتابت یا تقریر وں کے ذریعے ریاستی  بے انصافیوں  اور حکومتی  زیادتیوں  پرآوازاٹھانے کی بجاۓ پتھر، ڈنڈے ،گولی اور بم اٹھائیں اوراپنے مسائل  "شیر کے پتر " بن کر منٹوں میں حل کروا لیں 

آپکے اس اعلان  کی منتظر رہوں گی 

والسلام 

آئینہ  


Thursday, October 28, 2021

" ابھی تک ہم نہیں بو لے"

عدل کی کرسی جہاں بے انتہا مضبوط ہوتی ہے وہیں اُسپر بیٹھا شخص پلِ صراط پر چلنے والا وہ  خوفزدہ انسان ہوتا ہے جسکی انصاف سے روگردانی ایک منٹ میں اُسکو جنت سے جہنم میں دھکیل دیتی ہے .افسوسناک  حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اِس کرسی پر بیٹھنے والوں نے عوام کو ہمیشہ اتنا ہی مایوس کیا ہے جتنا دوسرے "حساس اداروں " نے .اپنے  فرایض منصبی کو ادا نہ کرنا اور دوسرے اداروں کے کام میں بد نیتی سے مخل ہونا  اب قومی کلچر بن چکا ہے جسکے بد اثرات نے معاشرے کو تقریبا ناقابلِ مرمت کردیا ہے 
انصاف کے دہرے میعار نے منصفوں کے چہرے پر سے نقاب تو بہت پہلے اٹھا دیے تھے مگر اب تو ایسی حد آچکی ہے کہ "محترم " کہلانے والے ججز کو گھروں ، محلوں ، گلیوں میں بیٹھے افراد گالیاں دے رہے ، جھولیاں اٹھا کر بد دعا ئیں دے رہے اور ہم سوچ سکتے ہیں کہ جس " ریاست مدینہ " میں  " قاضی القضاء " پر پاکستان مین بولے جانے والی  ہر زبان میں دل کی بھڑاس نکالی جارہی ہو اس ریاست کا انجام کیا ہوگا ؟
نسلہ ٹاورکو بموں سے منہدم کرنے کا فیصلہ ہو یا گجرنالہ کومسمار کرنے کا یا پھر ہزاروں برسرروزگار افراد کے یک جنبش ِ قلم چولہے ٹھنڈے کرنے کا، پاکستان کی  سپریم کورٹ میں بیٹھی "جج " نامی مخلوق  نے نہایت تکبر سےعام شہریوں سے وہ بد سلوکی کی ہےجو پاکستان کی عدالتی تاریخ  پر کلنک کا ٹیکہ بنی رہے گی . کمزوروں پر دانت گاڑنے والے یہی  جج  دوسری طرف بنی گالہ  کے محلات ،بحریہ ٹاؤن اوراسکی زیر نگرانی  کراچی سے پشاور تک  تعمیر ہوتی غیر قانونی ہاوسنگ سوسائیٹیز پرنہ صرف خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں بلکہ کوئ  اپیل وغیرہ اِن تک پہنچ جائےتوجرمانے کے نام پر غیر قانونی تعمیر کو قانونی بنانے میں دیر نہیں کرتے ۔ اپنی ریٹایرمنٹ کے آخری دن تک اپنی  لاکھوں کی پنشن اور بے تحاشہ مراعات کے بعد بھی انکو "نئی نوکری " کی فکرپڑی  ہوتی ہے مگر کس جلاد صفت بےرحمی سے سوئی گیس کے ادارے سے ہزاروں افراد کو بیروزگاری کے اندھے کوئیں میں دھکیل گیے  یہ دکھڑا بھی عام لوگ  سوشل میڈیا کے ذریعے ہی سامنے لاسکےہیں  کیونکہ حکومتِ وقت انکی باندی اورمیڈیا انکا غلام جو ٹہرا
  مجھے نہیں معلوم کہ نسلہ ٹاور میں امیر لوگ رہتے ہیں یا غریب یا پھروہ مڈل کلاس طبقہ ، جو پاکستان کی جمہوریت کو تباہ کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہا، میں یہ بھی نہیں جانتی کہ اس ٹاور میں کونسا لسانی گروپ رہتا ہے یا سیاسی طور پر یہ لوگ کس سیاسی پارٹی کے ووٹرز ہیں اور میں یہ سب جاننا بھی نہیں چاہتی کیونکہ یہ سب معلومات  حاصل ہوجائیں تو ہماری انسانی حقوق کے لیے اٹھتی آواز یں یا تو دب جاتی ہیں یا بلکل ہی غائب ہوجاتی ہیں 
مجھے بس اتنا علم ہے کہ  لوگ کس قدر تکلیف اٹھا کر ، پائی پائی جوڑ کر اپنے گھر بناتے ہیں ، کس کی زمین تھی اور کس نے بے ایمانی کی نہ وہ جانتے ہیں نہ یہ انکا قصور ہے کیوں کہ  ریکارڈ بتا رہا ہے یہ معاملہ پچھلی چھ دہائیوں سے چل رہا ہے اور چھ دھائیوں سے مراد یہ کہ پاکستان کی سب سے زیادہ کرپٹ  شہری حکومتیں جو فوجی آمروں کی ناک تلے پنپتی ہیں وہ بھی اس تمام قضئیے میں ملوث رہیں اور یقینن اُنکی کرپشن اتنی " ڈسپلنڈ " ہوتی ہے کہ اس کرپشن کا ملبہ بیس تیس سال بعد کسی  معمولی اہلکار پر ہی گرتا ہے کسی  طاقتور اور بااختیار پر نہیں سو ایسے میں مجبوراورلاعلم لوگوں کے سروں سے چھت کھینچنا  اور وہ بھی  "دہشت گردانہ "احکامات  کے ذریعے یعنی  ہفتے بھر کی مہلت میں عمارت میں ریھائش پزیربچوں، عورتوں ، بزرگوں اور بیماروں کو بجلی، گیس، پانی سے محروم کر دیا جائے اور پھر اِن  لوگوں کی  برسوں سے سجائی،  سنوارئی ریھایش گاہوں کو " بم "سے اڑا دیا جاۓ ایک نہایت ناپسندیدہ امر ہے اور یہ نفرت انگیز کام اُس صوبائی، منتخب حکومت کو کرنا ہے جس  کی گردن  پر ہر وقت وفاق ، فوج اورعدلیہ نے مل کر چھری رکھی ہوتی ہے تاکہ  ذرا سی چوں چرا ہو توچھری  پھیرکر کوئی آئینی بحران  پیدا کیا جاسکے یعنی ایک تیر سے دو شکار
عام عوام کے خلاف یہ امتیازی فیصلےانسانی حقوق اورانصاف کے ساتھ حد درجہ ناانصافی  ہیں  جس کی نہ   اخلاق اجازت دیتا ہے نہ ملکی قوانین اور نہ ہی "ریاست مدینہ " کے دعوے داروں  کے ماضی کے نعرے
ان منصفوں کے دہرے معیار انکی دہری شخصیت کی غمازی کرتے ہیں یہی خود پسند جج ہیں جو توہینِ جج کو توہینِ عدالت بنا دیتے ہیں اور پھراِس خود پسندی پر شرمندہ ہونے کی بجاۓ اِسکے خلاف آوازیں  اُٹھانے والے افراد کو جیلوں میں ڈال کر بھول جا تے ہیں یہ تو ایسا تکبر ہے جس کو قدرت معاف نہیں کرے گی اور آنے والا وقت آج کی عدلیہ اور اسکے فیصلوں کی کالک کو کبھی  بھی دھونہیں پاۓ گا 
پاکستان کی تاریخ میں یوں تو عدلیہ نے بہت سے ناقابل بیان قسم کے افسوسناک فیصلے دیے ہیں جس سے عدلیہ کا وقار مجروح ہوا مگر  ماضی قریب میں  افتخار چودھری  کے سیاسی فیصلوں سے جو بے وقاری  کا سفر شرو ع ہوا تھا ثاقب نثار ، آصف کھوسہ سے ہوتا ہوا جج گلزار تک پہنچ گیا ہے اور جس قسم کے فیصلے آج کی عدلیہ کر رہی ہے وہ ثابت کرتے ہیں کہ انصاف کا مردہ تدفین کے انتظار میں سرانڈ دینے لگا ہے 
ہم نہیں جانتے کہ یہ بنی گالہ  اور گجر نالہ میں فرق کرنے والے ناانصاف ججز کسی دھونس دھمکی کی وجہ سے ایسے  امتیازی  فیصلے کر رہے ہیں یا  اپنے لیے پلاٹوں کے لالچ میں ،  مگر یہ بھول رہے ہیں کہ جہاں یہ موجود ہیں وہ سدا رہنے کی جگہ نہیں بلکہ اس سے زیادہ کوئی خوف کی جگہ کائنات میں بنی ہی نہیں کیوں کہ جو عدل کے نام پر عدل سے ہٹ گیا اسکا نام و نشان مٹ گیا  
بڑی بڑی کرسیوں پر بیٹھے ان عدل کے ایوانوں میں تکبر کی بولیاں بولنے والے کم ظرفوں  کے لیے 

پیرزادہ قاسم کے اشعار پیش خدمت ہیں اگر دل میں کچھ  خدا کا خوف اور روح میں انسانیت باقی ہے تو ڈریں اُس وقت سے جب مخلوق ِخدا کے بولنے کی باری آجائے گی 

 

ابھی تو آپ ہیں اور آپ کا زورِ خطابت ہے "

بہت الفاظ ہیں نادر، بہت بے ساختہ جملے

ابھی تو لب کشائی آپ کی اپنی گواہی ہے

ابھی تو آپ ہیں ظلِّ الٰہی، آپ ہی کی بادشاہی ہے

ابھی سب زر، جواہر، مال و دولت آپ ہی کے ہیں

ابھی سب شہرت و اسبابِ شہرت آپ ہی کے ہیں

ابھی کیا ہے، ابھی تو آپ کا جبروت لہجے میں عیاں ہو گا

ابھی تو آپ ہی کے نطق و لب سے آپ کا قصہ بیاں ہو گا

ابھی تو محترم بس آپ ہیں، خود اپنی نظروں میں

معظم، محتشم القاب ہیں خود اپنی نظروں میں

ابھی تو گونجتے اونچے سُروں میں آپ ہی ہیں نغمہ خواں اپنے

سبھی لطف و کرم گھر کے، مکان و لا مکاں اپنے

ابھی تو آپ ہی کہتے ہیں کتنا خوب کہتے ہیں

جو دل میں آئے کہتے ہیں، جو ہو مطلوب کہتے ہیں

مگر جب آپ کی سیرت پہ ساری گفتگو ہو لے

"تو یہ بھی یاد رکھیے گا.............. ابھی تک ہم نہیں بولے