Friday, April 18, 2025

کامیاب سیاستدان کون ؟ ذوالفقار علی بھٹو یا آصف علی زرداری

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں چند ہی  نام ایسے ہیں جنکو وقت کی گرد دھندلا نہ سکی ان میں سر فہرست ذوالفقار علی بھٹو کا نام ہے انکی پیدایش کو نو دہائیوں سے زیادہ عر صہ  گزر چکا اور ان کے عدالتی قتل کو چالیس سال  سے زیادہ مدت ہوچکی  مگر آج بھی  سیاست ، ریاست، اقتدار اوراختیار کے میدانوں میں بھٹو کا نام گونجتا ہے . دوست ہو یا دشمن ، عوام کے درمیان دھواں دار خطاب کرتا سیاسی حریف ہو یا پارلیمان میں نپے تلے الفاظ بولنے والا حکومتی ممبر کہیں نہ کہیں ، کبھی نہ کبھی بھٹو کا تذکرہ ضرور آتا ہے ، میڈیا پر بیٹھے گھا گ صحافی ہوں یا یوٹیوب کے کلکس پر انحصار کرتے نئی نسل کے نوجوان یہ ہو نہیں سکتا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے تذکرے کے بغیر کسی بھی  سیاسی موضوع کو زیر بحث لائیں

مگر ایک تلخ حقیقت پر روشنی ڈالنا سب بھول جاتے ہیں کہ   ٹوٹے پھوٹے  پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم، کامیاب لیڈر تو تھے مگر  وہ پاکستان کے زمینی حقایق، مفاد پرست ٹولوں ، بے حس اداروں اور خودغرض عوامی جتھوں  کی سمجھ بوجھ  رکھنے والے کامیاب سیاستدان نہیں تھے . شکست خوردہ قوم کے بدن میں ولولہ و عزم کی روح پھونکنے والا  لیڈراگر صرف چھ سال کی مختصر مدت میں کال کوٹھری تک پہنچ گیا تو سوچیں کہ اس نے کیسی سیاست کی ہوگی ؟ ؟  ظاہر ہے اسکی سیاست ناکام رہی ہوگی  اس لیے نہیں کہ وہ شخص ذہین ومدبر سیاستدان نہ تھا کیونکہ وقت نے ثابت کیا کہ  بھٹو صاحب اگر دنیا کے کسی اور ملک میں سیاستدان ہوتے تو اپنی عوامی سیاست کے کامیاب ترین  کھلاڑی ہوتے،  مگرپاکستان کی سیاست میں وہ لیڈر ہوتے ہوۓ بھی ، اناڑی ثابت ہوے اگر ہم یہ  کہیں کہ ان سے کہیں بہترانکے داماد نے پاکستانی سیاست کو سمجھا اور کامیاب سیاستدان ثابت ہورہے ہیں تو یہ مبلغہ آرائی نہ ہوگی 

 پاکستان کی تاریخ میں پہلا منتخب صدر جس نے نہ صرف اپنی جمہوری مدت پوری کی بلکہ دوسری بارمنتخب صدر ہونے کا نایاب ترین اعزاز بھی حاصل کیا ہے جب کہ گیارہ بارہ سال کی پس زنداں ریاضت میں بھی کامیاب رہا ، سیاسی مخالفین کو ناقابل یقین حد تک اپنا گرویدہ بنالینا ایک سیاستدان کی کامیابی نہیں تو کیا ہے ؟ ؟  قارئین کواعتراض ہوسکتا ہے کہ  زرداری صاحب "لیڈر " نہیں ! جی بلکل درست بات ہے ایسا ہی ہے  نہ وہ لیڈر ہیں نہ  کبھی موصوف نے قوم کی رہنمائی کا دعوی کیا ہے ہم نے بہت ہی کم کم صدرکوعوام میں گھلتے ملتے دیکھا ، کوئی تحریک، کوئی دھرنہ  یا احتجاج ؟ نہیں ! اور ہر سیاستدان کے لیے ضروری بھی نہیں .ہمارے سامنے قائداعظم کی مثال موجود ہے بلکہ قاید تو زرداری صاحب سے ایک قدم آگے نکل گیے تھے کہ کبھی جیل کا منہ بھی   نہ دیکھا تھا کم ازکم زرداری صاحب نے جیل میں  تشدد کا سامنا کر کے "لیڈروں "والی  کوئی صفت  تواپنائی ، آپ کہیں گے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کم ہی کوئی اسٹیبلشمنٹ ، پریس،  الیکٹرونک میڈیا اور سیاسی مخالفین کے ہاتھوں اتنا  بدنام ہوا ہے ،  جی ہاں ! حقیقت یہی ہے کہ "  بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا " سو  دو بار منتخب ہونے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کی سیاسی کامیابی بھی یہی ہے کہ جو اسٹیبلشمنٹ اپنی  زرخرید  پریس اور کالم نویسوں  کے ذریعے جناب کو" مسٹر دس فیصد "، "پلے بواے " اور "دنیا کا کرپٹ ترین انسان "قرار دلوا چکی ، اپنی ایجنسیوں اور اداروں کی مدد سےبغیر ثبوتوں کے کبھی  کسی جج ،  کسی سیاسی حریف ، کسی بزنس مین،  کسی رشتےدار تک کے قتل میں ملوث کرنے کی کامیاب سازشیں  بھی کرچکی وہ  آخر کار آصف علی زرداری کی کامیاب سیاست کا شکار ہوکر ان کو صدر بننے سے روک نہ سکی  اور وہ بھی ایک بارنہیں دودو بار 

سو قارئین محترم ! اس  فیصلے کا بال اب آپکی کورٹ میں ہے کہ کیا ایک بدترین شکست سے دوچار ، برباد معیشت والی سرزمین بے آئین کو چھ سال میں اپنے پیروں پر کھڑا کرنے والا لیڈر جو ایک عدد جھوٹی ایف آئی آر کا شکار ہوکر پھانسی پاگیا کامیاب سیاستدان تھا؟  یا عوامی حلقوں میں دانستہ بدنام کیا گیا کمزور ڈومیسائل کا حامل شخص جو بار بار اپنی کامیاب سیاست سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی مخالفین  کو مجبورکردیتا ہے کہ وہ اسکے در پر اپنا اپنا کشکول لیکر پہنچ جائیں اور ملک کی  ڈولتی کشتی کو کچھ عرصے کے لیے مزید سہارا مل جائے . کاش کہ آج پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ذوالفقار علی بھٹو حیات ہوتے تو ہم ان کی بے پناہ ذھانت کا فایدہ اٹھاتے ہوۓ ان سے ضرور دریافت کرتے کہ آپکا جناب آصف علی زرداری کی کامیاب ترین  سیاست کے بارے میں کیا خیال ہے؟  

No comments:

Post a Comment