Wednesday, April 9, 2025

موت کا ایک دن معین ہے .....

 بزرگوں نے فرمایا تھا  " دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے سجناں وی مر جانا " یہ حقیقت عام گناہگار،  خطاکار  انسانوں پر ہی پوری نہیں ہوتی بلکہ انبیاء اور اولیاء بھی موت سے فرار حاصل نہ کرسکے اور اسکو رب جلیل سے ملاقات کا ذریعہ قرار دیا گیا 
 مسلمان معاشرے میں تو یوں بھی ایک جمله زبان زد عام ہے کہ " موت برحق ہے " لیکن بہت ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جیسے جیسے پاکستانی معاشرے میں روایات اور اخلاقیات زوال پزیر ہیں اسی طرح دین اسلام کی بنیادی تعلیمات بھی تیزی سے مفقود ہوتی جارہی ہیں جس میں سے ایک موت کی حقیقت کا اقرار ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اپنے اور اپنے پیاروں کے لیے موت کا انکار لیکن اپنے مخالفین کی موت کے لیے "خس کم جہاں پاک" کے  مقولے کی تکرار!
 ایک مسلمان کا ایمان ہے کہ  کس کی موت کہاں اور کس حال میں آنی ہے اسکا علم صرف اللہ تعالی کو ہوتا ہے . اچھے زمانوں میں سختی سے اس بات پر توجہ دلائی جاتی تھی کہ موت کی وجوہات اور حالات پر تمسخر نہ کرو کیونکہ اسکا اللہ کے راضی ہونے یا اسکی ناراضگی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اللہ کے بہت ہی پیارے بندے بڑی بےسروسامانی اور کسمپرسی میں اسکو پیارے ہو گیے کسی کی میت دشمنوں نے روند دی تو کسی کا کلیجہ چبایا گیا کسی کا جنازہ اور تدفین بھی ہفتوں بعد ہوئی تو کسی اللہ والے کو کفر کے فتوی لگا کر پتھروں میں دفن کردیا گیا سو کون جانے کسی کی موت کیونکر ایسے ہوئی اور میت کیوں کسی راہ چلتے مسافر نےزمین کھود کر دفنا دی ہاں ایک ایسا جواز ہے جو  بتاتا ہے کہ مرنے والا رب کو کتنا عزیز تھا ،  اسکی موت رائیگاں نہ تھی اور وہ ہے اس جانے والے کا نام ، اسکے نظریات ، اسکی پیچھے رہ جانے والی نیک نامی 
ویسے تو ہمارے پاکستانی معاشرے میں اپنے دشمن کو موت کی بد دعا دینا کچھ نیا نہیں لیکن یہ عادت عموما ناخواندہ یا  دیہی علاقوں کے لوگ  یا پھرمالی طور پرکافی  کمزور افراد  میں پا ئی جاتی تھی آجکل سوشل میڈیا کا دور ہے جس میں لوگوں   کی اکثریت اپنے چہروں اور نام سے نہیں جانی جاتی اور" نامعلوم  صارف" اپنی اصلیت پر بآسانی اتر سکتا ،  سو ایسے میں ہم دیکھتے ہیں کہ  فقہی،  مذہبی ، نسلی یا جانی دشمنی تو چھوڑیں سیاسی اختلافات جو کہ ہماری روزمرہ زندگیوں میں سطحی اہمیت  رکھتے ہیں ، وہ بھی ان نامعلوم اور بعض اوقات  معلوم سوشل میڈیا صارفین کو پاکستان کے کسی چھوٹے سے گاؤں کی ناخواندہ ، غربت کی ماری،   پریشان حال ایسی کمزورعورتیں بنا دیتے ہیں جو ہر آتے جاتے کو کوسنے ، گالیاں، ملامتیں اور موت کی بد دعا ئیں دیکر اپنی ناآسودہ زندگی کا بدلہ لیتی ہیں 
سوشل میڈیا پر موجود یہ صارف اپنے ناموں یا پروفائل پکچرز سے موجود ہوں یا نہیں مگر یہ ثابت شدہ ہے کہ تمام ایسے افراد سو فیصد پڑھے لکھے ہیں تبھی سیاسی اختلاف پر مخالف لیڈرشپ کی بیماری کا مذاق اردو اور انگلش میں لکھ کر اڑاتے ہیں ،  کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق ہے تبھی صبح سے شام تک ایکس ،  فیس بک اور یوٹیوب  موجود رہتے ہیں نہ کہ محنت مزدوری سے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے ہوں ، یہ نسبتا ''آسودہ زندگیاں گزارنے والے جگت باز سوشل میڈیا کے  ذریعے سیاسی مخالف دھڑے  کے لیڈرکو موت کی بد دعا دیتے ہیں ، وہ ہسپتال میں ہو تو خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور اسکے مرنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں یہ افراد کسی گاؤں میں نہیں بلکہ بڑے بڑے شہروں میں یا بیرون ملک رہتے ہیں ، شوپنگ مالوں سے خرید و فروخت کرتے ہیں ،  فوڈ چین سے آرڈرز پر پیزا منگواتے ہیں مگر کسی سیاستدان کی موت کی خواہش پر ٹوک دو تو کہتے ہیں " کیوں نہ کریں بد دعا ؟   یہ تو کرپٹ ہے ، ہمیں غربت میں دھکیلا ہے،  ہمارا خون چوسا ہے" آپ ایسے میں کیا جواب دیں ؟ ؟  آنا للہ کہہ کر خاموش ہونا بنتا ہے
پچھلے دس ایک سال سے یہ زہنی بیماری اتنی بڑھ چکی ہے کہ اصلاح کی کوئی ترکیب کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی .ایک سیاسی جماعت نے اس بد اخلاقی کو اتنا پروان چڑھا دیا ہے کہ اب انکے بیرون ممالک میں رہتے ہم آواز،ہم خیال افراد ویڈیوپیغامات کے ذریعے اپنی سیاسی نفرتوں کو دنیا کے تمام کونو ں میں پھیلا رہے ہیں اور ایسا کرتے انکو یہ خیال نہیں آتا کہ انکے ناپسندیدہ سیاسی لیڈرکی وفات تو اللہ کے حکم پر ہی ہوگی مگر سوشل میڈیا پر ایسے انسانیت سے گرے  پیغامات ملکی اقدار اور اسلامی روایات کے منہ پرایسا تمانچہ ہیں جسکی آواز دنیا بھر میں سنائی دے رہی ہے
 افسوس  کہ سیاسی اختلافات پر کسی کی موت کی تمنا کرنے والے یہ  ڈگری ہولڈرز نہیں جانتے کہ موت سزا نہیں ہوتی ورنہ انبیاء ، اولیاء ،  صوفی بزرگ کبھی وفات نہ پاتے ، نہ ہی موت سے کسی کو مفر ہے ورنہ کیا آپ اپنے سب  پیارے ماں باپ ،  اولاد اور سچے  دوستوں کو بچا نہ لیں ؟ موت توزندگی کی کتاب کا آخری باب ہے ، جس کو بھی زندگی ملی اسکو مرنا ہے سو احمق ہے ہر وہ شخص جو کسی کی موت پر خوش ہو یا کسی مخالف کی موت کی خواہش کرے کیونکہ موت آپکے ان پیاروں کو بھی آجاتی ہے جن کی عمر خضر کی آپ رو رو کر اللہ کریم سے دعا ئیں مانگتے ہیں
 کسی کی موت آپکی بد دعا سے ہوئی تھی یا نہیں اس بات کی  ہرگز کوئی اہمیت نہیں  ہاں مرنے والے نے  کیسی زندگی گزاری  تھی ،  وہ کونسے کام تھے جو مرنے والا کر گیا،  وہ کیسی اولاد ہے جو جانے والا چھوڑ گیا اور کونسا علم ہے جو پیچھے رہ 
جانے والوں کے کام آ تا رہے گا یہ سب معاملات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں
حقیقت حال یہ ہے کہ" موت کا ایک دن معین ہے" جو آپکےھردلعزیز سیاسی رہنما کے گھر بھی ضرورآ ئے گی اورآپکی  نفرتوں اور بد دعاؤں کے تختہ مشق بنے مخالف سیاسی پارٹی کے رہنما کو بھی اللہ کے حضور حاضر ہونا ہی پڑے گا
 سو آج زندگی کے جس اختتام کو سوشل میڈیائی مخلوق "خدا کی لاٹھی " سے تشبیہ دےرہی ہے یاد رہے کہ یہ "لاٹھی " خدا   کے پیاروں اور اسکے دشمنوں پر یکساں وار کرتی ہے اس لیے اپنی بے دماغ کھوپڑی کو تکلیف نہ دیں اور فضول تشبیہات سے گریز کریں
مجھے نہیں معلوم کہ قارئین پر میری یہ تحریر کوئی اثر ڈال پا ئے گی یا نہیں لیکن مجھ پران تمام سیاسی جگت بازوں کی گھٹیا  ذہنیت کا بہت تکلیف دہ اثر ہوا ہے،   جو اپنے سیاسی رہنما کو "مرشد " کہتے نہیں تھکتے مگرصد افسوس  کہ یہ مرشد انکو دین اسلام کی بنیادی تعلیمات اور اس خطۂ پاک کی اعلی اقدار کا ہلکا سا نمونہ بھی نہ دیکھا سکا
کیا ان گری ہوئی حرکتوں کے ساتھ  "ریاست مدینہ " کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا تھا  ؟  

Monday, April 7, 2025

.......جالا بُنا گیا تھا پتا ہی نہیں چلا ......

انسانی تاریخ میں ہونے والی ہر ایجاد نے ثابت کیا کہ اس کے اچھے اور برے اثرات استعمال کرنے والوں پر مرتب ہوۓ .  پاکستان میں متعارف ہونے والےالیکٹرانک نیوز میڈیا کابھی یہی حال ہے کہ وقت نے اسکے بہت سے فوائد کے ساتھ ساتھ بے انتہا نقصانات پر سے بھی پردہ ہٹایا 
 الیکٹرانک  نیوز میڈیا کا قیام اس دور کی  آرمی اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت تھی جسکا مقصد یقینن عوام کو باخبر رکھنا نہیں تھا ، کیونکہ آمریت کتنی بھی خوشگوار محسوس کیوں  نہ ہو حقیقت میں وہ  ایسا خواب ہے جسکی تعبیر ہر حال میں خوفناک نکلتی ہے سو نیوز میڈیا کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی رہا 
  پاکستان کا اسٹیٹ چینل  حکومتی خبریں دیکھاتا تھا اپوزیشن کو یکسر نظر انداز کیا جاتا تھا اسی لیے جب نجی چینلز پر اختلاف راۓ کو کچھ جگہ ملی تو  نجی چینلز دیکھنے والی عوام جو زیادہ تر ملک کے شہروں اور بیرون ملک قیام پزیر ہے کو یہ خوشفہمی ہو گئی کہ یہ نجی چینلز جو حقیقت میں اسٹیبلشمنٹ کی چھپر چھاؤں میں بنے تھے ، شاید آزاد ہوچکے ہیں اور انپر غیر جانبدارانہ ٹاک شوز اور بے لاگ خبریں دی جارہی ہیں مگر حقیقت کچھ اور ہی رہی 
یہ راز  کھلا بھی جمہوری ادوار میں کہ نہ تو یہ چینلز "آزاد "ہیں اور نہ ان میں کام کرنے والے صحافی ، تجزیہ کار ، نیوز ایڈیٹرز وغیرہ غیر جانبدار اور پروفیشنلز ہیں ایک مخصوص  ایجنڈے پر عمل درآمد کیا جاتا ہے اور ریٹنگ کا بہانہ بنا کر خاص علاقوں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے اور کچھ کو اسی ایجنڈا کی وجہ سے نظر انداز کیا جاتا ہے 
اس بارے میں انگنت تحریریں لکھی جاچکیں ہیں کہ کس طرح پاکستان کی عوام کو باخبر رکھنے کا زریعہ بننے والا میڈیا کم از کم ایک پوری نسل کو یقینی طور پر گمراہ کرچکا ہے  یہ نسل نہ پاکستان کی سیاسی تاریخ جانتی ہے نہ آئین و قانون کے بارے میں اسکو کچھ اتہ پتہ ہے نہ ہی بین الاقوامی سیاسی حالات کے بارے میں انکا 
مطا لعہ ہے نہ معلومات . بس کسی چینل سے آدھی خبر اٹھائی ، کسی دوسرے چینل سے آدھی تصویر دونوں کو
جوڑا اور  سوشل میڈیا پر اپنی گالم گلوچ برگیڈ کے ذریعے پھیلا دیا 
ایسوں سے آپ معلومات ، حقایق ، دلائل پر کوئی بات کر ہی نہیں سکتے مگر سب سے بڑا افسوسناک پہلو اسمیں میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ کردار ہے جس پر آج بھی کچھ  نامور صحافی موجود ہیں جنکو  اس معلومات کی سونامی میں ڈوبتی ابھرتی نسل کی سیاسی تربیت کرنی چاہیے تھی . سیاستدانوں پر یہ ذمہ داری ڈالنی پاکستان جیسے ملک میں تقریبا '' ناممکن ہے کیوں کہ ایک طرف اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سیاستدانوں کے خلاف جھوٹ پر مبنی   ایک مکمل مہم ستر  پچھتر سال سے چلا رہے ہیں دوسری طرف سیاستدانوں میں چھوٹے چھوٹے اختلافات کو لیکر جنگ تک کا ماحول بن جاتا ہے حقیقت یہ بھی ہے کہ ایسی جنگ کو جو سمجھدار سیاستدان "مفاہمت " کے سفید جھنڈے سے پرامن ماحول میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں انکی اس کوشش کو " مک مکاؤ " جیسے الفاظ اور اپنے بھانڈ پن کے ذریعے یہی نیوز میڈیا بدنام کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ جلتی پر تیل ڈالا جاۓ تاکہ اس بھڑکتی آگ کو بیچ کر اپنے بال بچوں کا صرف پیٹ ہی نہ بھرا جاۓ بلکہ انکو بیرون ملک تعلیم اور روزگار کے لیے سیٹل کروا دیا جاۓ 
آپ کے مشاہدے میں بھی آیا ہوگا کہ بہت سے نامور صحافی برسوں تک "صحافت " کرتے کرتے ایک دم سے اسٹیبلشمنٹ کی جمہوریت کش دکان پر بیٹھے دوکاندار کیسے بن گیے ؟ اللہ کا فرمان ہے کہ "تمھا رے مال اور  اولاد میں تمھارے لیے فتنہ ہے " اور یہ حقیقت کھل کر آپ کے سامنے پچھلے دس بارہ برسوں سےآگئی ہے جب کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بہت سے قلم کار اس نیوز میڈیا کی بے راہروی سے پہلے بھی انہی راستوں پر چلے اور اولاد  کی" ترقی " کے بدلے قلم بیچ  دیا 
ناخواندگی نے تو  قلم بیچ قبیلے سے عوام کے ایک بڑے حصے کو بچا رکھا تھا،  سیاست و نظریات پر وہ اپنے دماغ کو استعمال کر کے فیصلے کرتے تھے مگر اسکرینوں پر بیٹھے نام نہاد دانشوروں نے تو  خواندہ افراد کو بھی سیاسی بانجھ پن کا شکار کردیا ہے  ایک ڈگری یافتہ نسل مستقل میڈیا کے گورکھ دھندے میں الجھ کر پختہ عمر کو پہنچ چکی ہے اور ناخواندہ افراد کی بھی ایک بڑی تعداد ہے جو دکانوں، ہوٹلوں حتی کہ کچی بستیوں میں چوبیس نہیں تو اٹھارہ گھنٹے تجزئے  کے نام پر بےمقصد مباحثے اور ذہنی خلفشار کا نشہ استعمال کرتی رہی  ہے  
عوام کے ذہنوں  کو مستقل کسی خوف ،  فتنے اور بے سمت سفر میں مبتلا رکھنے کے لیے یہ چینلز قائم کیے گیے او یقینن یہ اپنے مقصد  میں کامیاب رہے ہیں . بیرون ملک پاکستان کی جو شکل اشرافیہ کا ایک خاص حلقہ  تارکین وطن کے تصور میں جمانا چاہتا تھا،  اب وہ جم چکی ہے اور اگلے کتنے ہی برسوں میں یہ "شکل " دھندلی ہونا بھی ناممکن لگتا ہے 
جس نام نہاد نیوز میڈیا کو ہم معلومات کا زر یعہ سمجھے تھے، اسکرینوں پر بیٹھے نوسربازوں کو تجزیہ کار جانا تھا اور خبروں کو توڑ مروڑ کر جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے والے "اینکروں "کو صحافی سمجھا تھا ، وقت نے ان چینلز کو عنکبوت کا گھر  ثابت کیا.  یہ کمزور ، الجھے ہوے تار سن دو ہزار دو سے نہ پاکستان کی قومی زندگی میں بہتری لا سکے اور نہ کسی مسلے کا حل ڈھونڈ سکے نہ وطن دشمنوں کی درپردہ سازشوں پر سے نقاب اٹھا سکے ان کے لیے آسان تر مال بنانے کا طریقہ یہ تھا کہ جو سیاستدان بدنام نہیں انکو بدنام کرو اور جو مخصوص اشرفیہ کے ہاتھوں بدنام ہوچکے تھے انکو بدنام ترین کردو .جمہوریت کو "مذاق "بنانے کے  لیے پنجاب اور کراچی میں اچھی  ریٹنگ  والی پارٹیوں کے کچھ "چلتے پرزے "اپنے اسٹوڈیو میں منگوا کر ہوسٹ کے ہاتھ میں "ڈگڈگی " دے دو اور بس ! ایسے میں کونسی خبر ؟ اور کونسا تجزیہ ؟  
سو قارئین ! آج آپ کے سامنے ہے کہ مقاصد حاصل ہونے کے بعد وہی "ڈگڈگی "تھا منے والے ہاتھ اب اسٹیبلشمنٹ کو قبول نہیں . جن کو بدنام کرنا تھا کر دیا ،  جس ڈگری یافتہ شہری نسل کو لاعلم رکھنا تھا وہ سیاسی بانجھ پن ،  تقسیم اور نفرت کا شکار ہوچکی اور  جوخبریں یا قبریں چھپانی تھیں وہ چھپا لی گئیں اب مزید "اظہار آزادی " کی نہ ضرورت ہے اور نہ فایدہ سو " پروپر پاکستان "سے کچھ صحافی غائب ہیں اور کچھ پر اداروں کی نظر کرم پڑنے کی  قوی  امید ہے 
ہم میں سے بہت ہیں جو اس آنے والے وقت کی چاپ سن رہے تھے اور اپنی گفتگو اور تحریروں سے عوام کو باخبر کرنے کی کوشش بھی کر رہے تھے مگر ہونی کو کون ٹال سکا ہے ؟