بزرگوں نے فرمایا تھا " دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے سجناں وی مر جانا " یہ حقیقت عام گناہگار، خطاکار انسانوں پر ہی پوری نہیں ہوتی بلکہ انبیاء اور اولیاء بھی موت سے فرار حاصل نہ کرسکے اور اسکو رب جلیل سے ملاقات کا ذریعہ قرار دیا گیا
مسلمان معاشرے میں تو یوں بھی ایک جمله زبان زد عام ہے کہ " موت برحق ہے " لیکن بہت ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جیسے جیسے پاکستانی معاشرے میں روایات اور اخلاقیات زوال پزیر ہیں اسی طرح دین اسلام کی بنیادی تعلیمات بھی تیزی سے مفقود ہوتی جارہی ہیں جس میں سے ایک موت کی حقیقت کا اقرار ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اپنے اور اپنے پیاروں کے لیے موت کا انکار لیکن اپنے مخالفین کی موت کے لیے "خس کم جہاں پاک" کے مقولے کی تکرار!
ایک مسلمان کا ایمان ہے کہ کس کی موت کہاں اور کس حال میں آنی ہے اسکا علم صرف اللہ تعالی کو ہوتا ہے . اچھے زمانوں میں سختی سے اس بات پر توجہ دلائی جاتی تھی کہ موت کی وجوہات اور حالات پر تمسخر نہ کرو کیونکہ اسکا اللہ کے راضی ہونے یا اسکی ناراضگی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اللہ کے بہت ہی پیارے بندے بڑی بےسروسامانی اور کسمپرسی میں اسکو پیارے ہو گیے کسی کی میت دشمنوں نے روند دی تو کسی کا کلیجہ چبایا گیا کسی کا جنازہ اور تدفین بھی ہفتوں بعد ہوئی تو کسی اللہ والے کو کفر کے فتوی لگا کر پتھروں میں دفن کردیا گیا سو کون جانے کسی کی موت کیونکر ایسے ہوئی اور میت کیوں کسی راہ چلتے مسافر نےزمین کھود کر دفنا دی ہاں ایک ایسا جواز ہے جو بتاتا ہے کہ مرنے والا رب کو کتنا عزیز تھا ، اسکی موت رائیگاں نہ تھی اور وہ ہے اس جانے والے کا نام ، اسکے نظریات ، اسکی پیچھے رہ جانے والی نیک نامی
ویسے تو ہمارے پاکستانی معاشرے میں اپنے دشمن کو موت کی بد دعا دینا کچھ نیا نہیں لیکن یہ عادت عموما ناخواندہ یا دیہی علاقوں کے لوگ یا پھرمالی طور پرکافی کمزور افراد میں پا ئی جاتی تھی آجکل سوشل میڈیا کا دور ہے جس میں لوگوں کی اکثریت اپنے چہروں اور نام سے نہیں جانی جاتی اور" نامعلوم صارف" اپنی اصلیت پر بآسانی اتر سکتا ، سو ایسے میں ہم دیکھتے ہیں کہ فقہی، مذہبی ، نسلی یا جانی دشمنی تو چھوڑیں سیاسی اختلافات جو کہ ہماری روزمرہ زندگیوں میں سطحی اہمیت رکھتے ہیں ، وہ بھی ان نامعلوم اور بعض اوقات معلوم سوشل میڈیا صارفین کو پاکستان کے کسی چھوٹے سے گاؤں کی ناخواندہ ، غربت کی ماری، پریشان حال ایسی کمزورعورتیں بنا دیتے ہیں جو ہر آتے جاتے کو کوسنے ، گالیاں، ملامتیں اور موت کی بد دعا ئیں دیکر اپنی ناآسودہ زندگی کا بدلہ لیتی ہیں
سوشل میڈیا پر موجود یہ صارف اپنے ناموں یا پروفائل پکچرز سے موجود ہوں یا نہیں مگر یہ ثابت شدہ ہے کہ تمام ایسے افراد سو فیصد پڑھے لکھے ہیں تبھی سیاسی اختلاف پر مخالف لیڈرشپ کی بیماری کا مذاق اردو اور انگلش میں لکھ کر اڑاتے ہیں ، کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق ہے تبھی صبح سے شام تک ایکس ، فیس بک اور یوٹیوب موجود رہتے ہیں نہ کہ محنت مزدوری سے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے ہوں ، یہ نسبتا ''آسودہ زندگیاں گزارنے والے جگت باز سوشل میڈیا کے ذریعے سیاسی مخالف دھڑے کے لیڈرکو موت کی بد دعا دیتے ہیں ، وہ ہسپتال میں ہو تو خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور اسکے مرنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں یہ افراد کسی گاؤں میں نہیں بلکہ بڑے بڑے شہروں میں یا بیرون ملک رہتے ہیں ، شوپنگ مالوں سے خرید و فروخت کرتے ہیں ، فوڈ چین سے آرڈرز پر پیزا منگواتے ہیں مگر کسی سیاستدان کی موت کی خواہش پر ٹوک دو تو کہتے ہیں " کیوں نہ کریں بد دعا ؟ یہ تو کرپٹ ہے ، ہمیں غربت میں دھکیلا ہے، ہمارا خون چوسا ہے" آپ ایسے میں کیا جواب دیں ؟ ؟ آنا للہ کہہ کر خاموش ہونا بنتا ہے
پچھلے دس ایک سال سے یہ زہنی بیماری اتنی بڑھ چکی ہے کہ اصلاح کی کوئی ترکیب کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی .ایک سیاسی جماعت نے اس بد اخلاقی کو اتنا پروان چڑھا دیا ہے کہ اب انکے بیرون ممالک میں رہتے ہم آواز،ہم خیال افراد ویڈیوپیغامات کے ذریعے اپنی سیاسی نفرتوں کو دنیا کے تمام کونو ں میں پھیلا رہے ہیں اور ایسا کرتے انکو یہ خیال نہیں آتا کہ انکے ناپسندیدہ سیاسی لیڈرکی وفات تو اللہ کے حکم پر ہی ہوگی مگر سوشل میڈیا پر ایسے انسانیت سے گرے پیغامات ملکی اقدار اور اسلامی روایات کے منہ پرایسا تمانچہ ہیں جسکی آواز دنیا بھر میں سنائی دے رہی ہے
افسوس کہ سیاسی اختلافات پر کسی کی موت کی تمنا کرنے والے یہ ڈگری ہولڈرز نہیں جانتے کہ موت سزا نہیں ہوتی ورنہ انبیاء ، اولیاء ، صوفی بزرگ کبھی وفات نہ پاتے ، نہ ہی موت سے کسی کو مفر ہے ورنہ کیا آپ اپنے سب پیارے ماں باپ ، اولاد اور سچے دوستوں کو بچا نہ لیں ؟ موت توزندگی کی کتاب کا آخری باب ہے ، جس کو بھی زندگی ملی اسکو مرنا ہے سو احمق ہے ہر وہ شخص جو کسی کی موت پر خوش ہو یا کسی مخالف کی موت کی خواہش کرے کیونکہ موت آپکے ان پیاروں کو بھی آجاتی ہے جن کی عمر خضر کی آپ رو رو کر اللہ کریم سے دعا ئیں مانگتے ہیں
کسی کی موت آپکی بد دعا سے ہوئی تھی یا نہیں اس بات کی ہرگز کوئی اہمیت نہیں ہاں مرنے والے نے کیسی زندگی گزاری تھی ، وہ کونسے کام تھے جو مرنے والا کر گیا، وہ کیسی اولاد ہے جو جانے والا چھوڑ گیا اور کونسا علم ہے جو پیچھے رہ
جانے والوں کے کام آ تا رہے گا یہ سب معاملات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں
حقیقت حال یہ ہے کہ" موت کا ایک دن معین ہے" جو آپکےھردلعزیز سیاسی رہنما کے گھر بھی ضرورآ ئے گی اورآپکی نفرتوں اور بد دعاؤں کے تختہ مشق بنے مخالف سیاسی پارٹی کے رہنما کو بھی اللہ کے حضور حاضر ہونا ہی پڑے گا
سو آج زندگی کے جس اختتام کو سوشل میڈیائی مخلوق "خدا کی لاٹھی " سے تشبیہ دےرہی ہے یاد رہے کہ یہ "لاٹھی " خدا کے پیاروں اور اسکے دشمنوں پر یکساں وار کرتی ہے اس لیے اپنی بے دماغ کھوپڑی کو تکلیف نہ دیں اور فضول تشبیہات سے گریز کریں
مجھے نہیں معلوم کہ قارئین پر میری یہ تحریر کوئی اثر ڈال پا ئے گی یا نہیں لیکن مجھ پران تمام سیاسی جگت بازوں کی گھٹیا ذہنیت کا بہت تکلیف دہ اثر ہوا ہے، جو اپنے سیاسی رہنما کو "مرشد " کہتے نہیں تھکتے مگرصد افسوس کہ یہ مرشد انکو دین اسلام کی بنیادی تعلیمات اور اس خطۂ پاک کی اعلی اقدار کا ہلکا سا نمونہ بھی نہ دیکھا سکا
کیا ان گری ہوئی حرکتوں کے ساتھ "ریاست مدینہ " کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا تھا ؟